1979ء میں آیت اللہ خمینی نے وطن واپسی کا فیصلہ کیا تو اس وقت کے ایرانی وزیر اعظم شاہ پور بختیار نے دھمکی دی کہ جونہی امام خمینی کا طیارہ ایرانی حدود میں داخل ہوا اُسے طیارہ شکن توپوں سے اڑا دیا جائے گا۔ امام خمینی نے جوابی بیان میںکہا کہ میں تو ایران جا رہا ہوں شاہ پور بختیاراپنی فکر کریں‘ جونہی میں ایرانی حدود میں داخل ہوا شاہ پور بختیار فرار ہو جائیں گے۔ ایرانی وزیر اعظم کے اعلان کے بعد مختلف ایئر لائنز شش و پنج میں پڑ گئیں اور آیت اللہ کے ساتھیوں کو خصوصی جہازچارٹر کرنے میں مشکلات پیش آنے لگیں۔ پاکستان نے پی آئی اے کا خصوصی جہاز بھیجنے کی پیشکش کی جسے آیت اللہ نے شکریے کے ساتھ ٹھکرا دیا۔ ایک دن پتہ چلا کہ کسی متمول ایرانی نے ایئر فرانس یا کسی دوسری ایئر لائن کے دفتر پہنچ کر جہاز چارٹر کیا اور اس کی قیمت کے علاوہ مسافروں کی انشورنس کی مکمل رقم کا چیک اس درخواست کے ساتھ جمع کرا دیا کہ اگر طیارے کو خدانخواستہ نقصان پہنچے تو کروڑوں ڈالر کی یہ رقم میرے اکائونٹ سے نکال لی جائے بصورت دیگر کرایہ کاٹ کر واپس کر دی جائے۔ خمینی طے شدہ پروگرام کے مطابق تہران پہنچے‘ ان کا تاریخی استقبال ہوا‘ پورا تہران ایئر پورٹ پر اُمڈ آیا‘ قائد انقلاب کی گاڑی کو لوگوں نے سر پر اٹھا لیا اور یہ انسانوں کے سروں پر تیرتی اس گلی میں پہنچی جہاں آیت اللہ کا چند مرلے کا گھر تھا‘ جب آیت اللہ کا طیارہ ایرانی حدود میں داخل ہوا تو وزیر اعظم شاہ پور بختیار سرکاری جہاز میں ملک سے فرار ہو چکے تھے۔ یہ چالیس سال پرانا واقعہ مجھے مسلم لیگ کے قائد میاں نواز شریف کی علالت کے بعد جاری بحث سے یاد آیا۔ عدالت عالیہ سے طبی بنیادوں پر آٹھ ہفتے کی ضمانت ملنے کے بعد توقع یہ تھی کہ کسی مزید تاخیر کے بغیر شریف فیملی اور مسلم لیگی قیادت انہیں بیرون ملک لے جانے اور بہترین علاج کرانے کی تدبیر کرے گی‘ میاں صاحب کا نام چونکہ ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ECL) میں تھا حکومت اعلان کر چکی تھی کہ میاں نواز شریف نے درخواست کی تو قانونی تقاضے پورے کرنے کے بعد ان کا نام ای سی ایل سے نکال دیا جائے گا مگر میڈیا کے ذریعے یہ تاثر پھیلایا گیا کہ میاں صاحب کی طرف سے حکومت کو درخواست دینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا‘ لوگ حیران کہ ایک شخص کی جان خطرے میں ہے‘ ڈاکٹر انہیں جلد سے جلد بیرون ملک منتقلی کا مشورہ دے رہے ہیں حکومت کا رویہ ہمدردانہ ہے مگر مریض کے ورثا اور خیر خواہ محض سیاسی پوائنٹ سکورنگ اور اپنے موقع پرست و جذباتی کارکنوں کی ہمدردیاں سمیٹنے کے لئے میاں صاحب کی عزیمت کا تاثر دے رہے ہیں۔ عزیمت دکھانی تھی تو عدالتوں میں ضمانت اور رہائی کے لئے درخواستوں پر درخواستیں کیوں دیں اور برادر خورد کو حکومت و اسٹیبلشمنٹ سے رابطوں ‘ منت سماجت اور مفاہمت کا ٹاسک کیوں ملا۔ حکومت نے میاں شہباز شریف کی درخواست پر میاں نواز شریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا مشروط فیصلہ کیا۔ شرط یہ لگائی گئی کہ مریض چونکہ سزا یافتہ ہے اور کسی سزا یافتہ شخص کو طبی یا انسانی ہمدردی کی بنیاد پر بیرون ملک جانے کی اجازت ماضی میں نہیں ملی لہٰذا میاں نوازشریف مقررہ مدت میں وطن واپسی کی ضمانت کے طور پر طے شدہ رقم کاانڈیمنٹی شورٹی بانڈ جمع کرا دیں اور چلے جائیں۔ یہ معقول رمق کا تقاضا ہے اور واپسی کو یقینی بنانے کا ایک مناسب طریقہ تھا تاکہ ان کے خلاف زیر سماعت مقدمات تعطل کا شکار ہوں نہ ای سی ایل سے نام ہٹانے والی اتھارٹی کو عدلیہ اور عوام کے سامنے جوابدہ ہونا پڑے مگر تادم تحریر شریف خاندان اس بات پر ڈٹا ہے کہ وہ شورٹی بانڈ جمع نہیں کرائے گا اور حکومت میاں صاحب کا نام ای سی ایل سے غیر مشروط طور پر ہٹا لے۔ قانون اور روایت سے ہٹ کر میاں صاحب کو ایسی رعایت دی جا رہی ہے جس کی پاکستان کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ شورٹی بانڈ احتیاطی تدبیر کے طور پر مانگے جا رہے ہیں تاکہ ایک تو ان کی وطن واپسی یقینی ہو دوسرے دوہرے معیار اور امیر و غریب‘ طاقتور و کمزور کے مابین تفریق کی موجودگی کی شکایت کرنے والے حلقوں کو یہ کہنے کا موقع نہ ملے کہ ایک سابق وزیر اعظم‘ سیاسی رہنما اور دولت مند شخص سے مرعوب ہو کر حکومت نے قانونی اور اخلاقی تقاضوں کو پس پشت ڈالا اور سزا یافتہ شخص کو بیرون ملک جانے دیا اور تیسرے یہ بھی کہ آئندہ کوئی دوسرا شخص اس مثال سے فائدہ اٹھانا چاہے تو قطعی ضروری نہیں کہ وہ واپسی کا ارادہ رکھتا ہو لہٰذا پیش بندی کے طور پر شورٹی بانڈ بطور ضمانت جمع کرانے کی روائت قائم کر دی جائے۔ شریف خاندان کا رویہ مگر عجیب ہے‘ ضمانت سے پہلے اُسے میاں صاحب کو بیرون ملک لے جانے کی جلدی تھی مگر جب سے ضمانت ہوئی ہے اور حکومت نے شورٹی بانڈ طلب کیا ہے وہ گھر کے سربراہ اور اپنے قائد کی زندگی اور صحت سے بے پروا صبح‘ دوپہر‘ شام حکومت کو سنگدل اور انتقام پسند ثابت کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔ حالانکہ میاں صاحب سے محبت‘ وابستگی اور خیر خواہی کا تقاضا یہ ہے کہ سات ارب روپے کے انڈیمنٹی بانڈ حکومت کے منہ پر مار کر انہیں باہر لے جایا جائے اور لندن یا امریکہ میں ان کا علاج کرایا جائے‘ وہ صحت یاب ہو جائیں تو حکومت کے لتے لینے اور اسے سنگدل و منتقم مزاج ثابت کرنے کے لئے شریف خاندان اور ان کے متوالوں کے پاس ساری زندگی پڑی ہے۔ کل تک حکومت اورعمران خان مشکل میں تھے اب شریف خاندان اور پارٹی قیادت تاریخ کے کٹہرے میں‘ میاں صاحب کے گھروالوں بالخصوص سگی اولاد‘ بھائی بہنوں اور پارٹی لیڈروں کو ثابت یہ کرنا ہے کہ انہیں سیاسی مفاد عزیز ہے یا میاں صاحب کی زندگی اور صحت۔ جب میاں صاحب علاج کے بعد واپس آنے کا ارادہ رکھتے ہیں‘ بیرون ملک طویل قیام یا مقدمات سے فرار کے خواہش مند نہیں‘ ان کے لئے سات ارب روپے کی رقم مونگ پھلی کے برابر ہے تو پھر انکار اور ہچر مچر کیوں؟ ایک شخص جس نے خاندان کو زمین سے اٹھا کر آسمان تک پہنچایا اور بدنامی مول لے کر اولاد کو اربوں کی جائیدادوں کا مالک بنایا کیا اس بات کا مستحق ہے کہ سیاسی منفعت کے لئے بیرون ملک ادائیگی میں تاخیر کر کے اس کی صحت اور زندگی کو خطرے میں ڈالا جائے۔ ان کے پیروکاروں اور خیر خواہوں کا معاملہ عجیب ہے کل تک دعویٰ وہ ٹینکوں کے سامنے لیٹنے اور میاں صاحب پر جانیں قربان کرنے کا کرتے اور ’’قدم بڑھائو نواز شریف ہم تمہارے ساتھ ہیں‘‘ کے نعرے لگاتے تھے آج وقت پڑنے پران میں سے کسی ایک کو یہ توفیق نہیں کہ وہ سات ارب روپے کے انڈیمنٹی بانڈ حکومت کو پیش کرے‘آیت اللہ خمینی کے دیوانے کی طرح جس نے کروڑوں ڈالر کا چیک پیش کردیا‘ جس معاشرے میں مناسب لباس‘ موزوں خوراک ‘علاج معالجے کی بری بھلی سہولتوں کے علاوہ انسانی عزت و وقار سے محروم خاک بسر‘ خاک نشیں بھٹوئوں‘ شریفوں اور زرداریوں کی دولت‘ شہرت اور مقبولیت میں اضافے کے لئے پاگل ہوئے جاتے ہوں‘ وہاں طاقتور شریف خاندان قانون کو گھر کی باندی کیوں نہ سمجھے لیکن میاں صاحب کی زندگی اور صحت پر سیاست‘ وقت ضائع کر کے ان کی زندگی اورصحت کا رسک؟ اس کی توقع کسی کو نہ تھی‘ رہے متوالے تو خاندان کے افراد چوری کھانے والے مجنوں ثابت ہوئے تو وہ کیوں بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانے بنیں۔ٹی وی چینلز پر بیٹھ کر رونا دھونا اور محفلوں میں حکومت پر تبرّا کرنا آسان ہے مگر مالی قربانی اور ضمانت دینا کارے دارد ۔ شائد ہر ایک کو یقین ہے کہ واپسی نہ ہوئی تو ضمانت ضبط ہو گی اور یہ نقصان کا سودا کسی کو منظور نہیں۔ وعدہ خلافیوں کی تاریخ راستے کی دیوار ہے ‘رہی عزت نفس اور وقار کی باتیں تو یہ محض افسانہ ہے یہ بات تھی تو شریف خاندان عدالتوں سے رجوع نہ کرتا کہ رحم کی اپیل کسی جج سے کی جائے یا حکمران سے ‘اپیل رہے گی۔ کمزوری کا اظہار اور لجاجت و منت سماجت۔