دسمبر اپنے ساتھ بہت ساری غمگین یادیں لاتا ہے۔ اس ماہ سرد کے حوالے سے میں نے سوچا تھا کہ اس مہینے کے حوالے سے جو کالم لکھوں گا وہ ان شخصیات کے حوالے سے ہوگا جو دسمبر میں ہم سے ہمیشہ کے لیے دور ہوگئیں۔ یہ کتنی عجیب بات ہے کہ دسمبر کے آخری ہفتے کی 26 اور 27 تاریخوں پر ہم سے وہ دو شخصیات بچھڑ گئیں جن سے ہم بہت پیار کرتے تھے۔ 26 تاریخ کو اسلام آباد کی ایک سڑک پر اردو شاعری کی رومانوی شہزادی پروین شاکر ہم سے ایک حادثے نے چھیں لی۔ اس کی موت پر تو مارگلہ کی پہاڑیوں پر ابھرنے والے چاند نے بھی ماتم کیا تھا۔ جدید عربی شاعری کے بہت بڑے نام نزار قابانی نے اپنی ایک نظم میں لکھا ہے : ’’جب کوئی خوبصورت عورت مر جاتی ہے دھرتی توازن کھو بیٹھتی ہے چاند سو برس سوگ کا اعلان کرتا ہے اور شاعری بیروزگار ہوجاتی ہے‘‘ پروین شاکر بلاشبہ بہت خوبصورت اور باکمال شخصیت کی مالک تھی۔ وہ صرف حسین عورت نہیں تھی مگر بطور شاعرہ وہ حسن کو تخلیق کرنے والی آرٹسٹ بھی تھی۔ اس کی اند وھناک موت پر نہ صرف دھرتی نے جھٹکا کھایا ہوگا اور چاند نے سوگ کا علان کیا ہوگا بلکہ وہ شاعری یتیم ہوگئی ہوگی جو اس کی پہچان تھی۔ کیا کمال کی شاعرہ تھی پروین شاکر: ’’چلنے کا حوصلہ نہیں ؛ رکنا محال کردیا عشق کے اس سفر نے تو مجھ کو نڈھال کردیا‘‘ اور اس غزل کا ایک شعر یہ بھی ہے : ’’اے میری گل زمیں تجھے چاہ تھی اک کتاب کی اہل کتاب نے مگر کیا تیرا حال کردیا‘‘ پروین کو ہم کسی صورت نہیں بھلا سکتے۔ جب بھی ہم مہدی حسن کی آواز میں وہ معصوم اور شرمیلی غزل اپنی سماعتوں کی نظر کریں گے تو ہمارے تصور میں پروین شاکر کی تصویر ابھر آئی گی: ’’کو بہ کو پھیل گئی بات شناسائی کی اس نے خوشبو کی طرح میری پذیرائی کی‘‘ کس قدر دل میں اترنے والے اشعار ہیں پروین شاکر کے! اس قدر حسین شاعری تخلیق کرنے والی خوبصورت عورت ہم سے بچھڑ گئی۔ یہ کس قدر عجیب بات ہے کہ دسمبر کی 26 تاریخ نے ہم سے اسلام آباد میں پروین شاکر چھینی اور دسمبر کی 27 تاریخ پر پنڈی میں ہم سے بینظیر بھٹو اپنی زندگی کا آخری خطاب کرکے اس راستے پر چل پڑی جس راستے پر جانے والے کبھی لوٹا نہیں کرتے۔ بینظیر بھٹو بھی پروین شاکر کی طرح خوبصورت تھیں اور بڑی لیڈر بھی ۔ بہ بہت بڑا لمیہ ہے کہ پاکستان کے جڑواں شہروں میں ان دونوں عورتوں کو ہم نے اپنے لہو میں ڈوبا دیکھا۔ وہ دونوں کراچی میں پیدا ہوئی تھیں۔ پروین اگر شاعری کی شہزادی تھی تو بینظیر بھٹو سیاست کی رانی تھی۔ بینظیر بھٹو کے بعد پاکستان کی سیاست کس قدر سستی اور سطحی ہوگئی ہے۔ اب جس اسٹیج پر پی ڈی ایم کے رہنما چیختے ہیں اس اسٹیج پر ایک بھی ایسا چہرہ نہیں جس کو دیکھ کر احساس ہو کہ یہ ملک کے محافظ کا مکھڑا ہے۔ کتنی مکاری اور عیاری نظر آتی ہے ان سیاستدانوں میں جن کو مفادات کی لیبارٹریز میں پیدا کیا گیا۔ جن کے پاس نہ تو سیاست کا علم ہے اور نہ سیاست کی عقل ہے۔ وہ سیاست کو صرف اداکاری سمجھتے ہیں۔ مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ وہ تو اچھے اداکار بھی نہیں۔ کیا ہم پاکستان کی موجودہ سیاستدانوں میں سے کسی کا بھی موازنہ بینظیر سے کر سکتے ہیں؟ بینظیر تو بینظیر تھی۔ جیسا نام ویسا کام۔ اس کی نظیر ملنا بہت مشکل ہے۔ خاص طور ہم جس قحط الرجال سے گذر رہے ہیں اس میں تو بینظیر بھٹو کے بارے میں ہم مرزا غالب کا یہ شعر دل سے گنگنا سکتے ہیں: ’’ایسا کہاں سے لاؤں کہ تم سا کہیں جسے‘‘ بینظیربھٹو میں ایک مخصوص کشش تھی۔ وہ تو سیاست کا چاند تھی۔ یہ الگ بات ہے کہ سیاست کے اس چاند کو زرداری کا گرہن لگ گیا۔ میرے خیال میں بھٹوز نے جتنے بھی غلط فیصلے کیے ہیں ان میں بینظیر بھٹو کی آصف زرداری سے شادی سب سے غلط اور تباہ کن فیصلہ تھا۔ یہ وہ فیصلہ تھا جس کو سن کر نہ صرف پوری پیپلز پارٹی بلکہ پورا پاکستان صدمے میں آگیا۔ اور صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ عالمی میڈیا نے بھی اس فیصلے کو عجیب نظروں سے دیکھا تھا۔ اس لیے تو اس نے بینظیر کے ساتھ زرداری کی تصویر شائع کرکے نیچے یہ کیپشن لکھا تھاBenazir's Choice یعنی ’’بینظیر کا انتخاب‘‘ ۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا مورخ بینظیر بھٹو کے اس رخ پر جب بھی قلم اٹھائے گا وہ افسوس میں ڈوب جائے گا۔ کیوں کہ یہ بات صرف بینظیر بھٹو جیسی اعلی تعلیم یافتہ اور مہذب خاندان کی لڑکی سے عجیب شہرت رکھنے والے شخص کی شادی کی بات نہیں بلکہ یہ بات ایک پارٹی کی تباہی کی داستان بھی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو سے لیکر زرداری تک پیپلز پارٹی کی کہانی زوال کی کہانی ہے۔مسٹر بھٹو نے جس پارٹی کو عروج پر پہنچایا وہ پارٹی زرداری کی وجہ سے زوال کاشکار ہوئی۔ بینظیر بھٹو سے لوگ اب تک محبت کرتے ہیں۔ بزرگ اس کو اپنی بیٹی اور جوان اس کو اپنی بہن سمجھتے تھے۔ وہ سب کو پیاری تھی۔ اس اپنائیت کی خوشبو تھی۔ اس کا مخصوص انداز سے مسکرانا۔ اس کا تیز قدموں سے چلنا۔ اس کا رکنا۔ اس کابولنا۔ اس کا سوچنا۔ اس کا ناراض ہو جانا۔ اس کا اچانک سے اداس ہوجانا۔ اس کا بے باکی سے بولنا اور بھی بہت ساری باتیں تھیں بینظیر میں جو ہم کو یاد آتی ہیں تو ہم سوچنے لگتے ہیں کہ کیا شے تھی بینظیر! ’’تم کہ لے ہو ایسی شے ہو ساز بن سکتی جو آواز بن سکتی ہے جو‘‘ بینظیر بھٹو ساز تھی۔ آواز تھی۔ وہ سیاست کی شاعرہ تھی۔ اس کے بعد ہم سیاسی اندھیروں میں بھٹک رہے ہیں۔ عظیم اور اچھے لوگوں کے ساتھ یہ زیادتی بھی ہوتی ہے کہ ان کی زندگی میں انہیں بہت سارے غم ملتے ہیں اور مرجانے کے بعد ان کی قبر پربے کردار اور کرپٹ لوگ قبضہ کرکے بیٹھ جاتے ہیں۔ آج لاڑکانہ میں جو بینظیر بھٹو کی برسی منائی جا رہی ہے کیا وہ بینظیر بھٹو کی یاد میں منائی جا رہی ہے؟ کیا اس برسی کا مقصد نمناک آنکھوں سے بھٹو کی بیٹی کو یاد کرنا اور اسے خراج عقیدت پیش کرنا ہے؟ اس برسی کی اسٹیج بیٹھے ہوئے افراد کو اقتدار چاہئیے۔ ان کو اقتدار چاہیے اس لیے نہیں کہ ملک کے حالات دگرگوں ہیں۔ ان کو اقتدار چاہیے اس لیے کہ وہ ملک کو لوٹ کر اپنے اثاثے بنائیں۔ ان کو اقتدار اس لیے چاہئیے کہ وہ ملکی وسائل پر عیاشی کریں۔ ان کو اقتدار عوام کے لیے نہیں اپنے لیے چاہئیے۔ اس برسی میں پیپلز پارٹی کی پوری کوشش ہے کہ وہ بھرپور شو آف پاور کر سکیں۔ یہ برسی نہیں بلکہ اقتدار حاصل کرنے کے لیے لگنے والا سیاسی میلہ ہے۔ اس میلے میں ہر ایک کا مقصد الگ الگ ہے۔ سیاست کے اس اقتداری میلے کو بینظیر بھٹو کی برسی کا نام دینے والے اس بہت بڑی بھیڑ میں نہ دیکھ پائیں گے وہ بینظیر جو اپنے اداس خاندان کے ساتھ اس تماشے کو تلخ نظروں سے دیکھے گی۔