مکرمی !کہتے ہیں کہ ریاست ماں کے جیسی ہوتی ہے اور اسکا سربراہ باپ کی مانند۔ لوگ اپنے ووٹ کا استعمال کر کے ایسے شخص کو سربراہی کا تاج پہناتے ہیں جو انکے تحفظ کا ضامن ہو جو ترقی کی منازل کی طرف سبکی راہنمائی کرسکے جسکی چھایا میں انسان حیوان یہاں تک کہ چرند پرند بھی خود کو محفوظ تصور کریں۔ریاست کا کوئی ایک باسی کوئی جیت حاصل کرتا ہے تو ساری ریاست اس پہ ناز کرتی ہے۔ ایک فرد ایک ٹیم کی جیت کو پورے ملک کہ جیت سمجھا جاتا ہے۔حالات سے مجبور ماں بچوں کو پیٹ کے ساتھ باندھ کر دریا میں چھلانگ لگا دیتی ہے کیونکہ کھانے کو کچھ نہیں تھا۔ بھوک و افلاس کا شکار باپ چار بچوں کے گلے کاٹ دیتا ہے۔زمانے کے رواجوں سے تنگ بیٹیاں باپ پر بوجھ بننے کی بجائے موت کی نہر میں چھلانگ لگا دیتی ہیں۔ یہ اور ان جیسے ان گنت واقعات روزانہ حقیقت کے زناٹے دار طمانچے انسانیت کے منہ پہ مارتے ہیں اس ریاست کے ٹھیکے دار کا مزاق اڑاتے ہیں ان نمائندوں کو منہ چڑاتے ہیں جو عوام کو سہولیات دینے کے لیے حلف اٹھاتے ہیں۔ اس ممتا پر انگلی اٹھاتے ہیں جو بلکتے بچوں کو بھوکے پیٹ ٹھٹھرتی راتوں میں بے یارو مددگار چھوڑ دیتی ہے۔ اگر ورلڈ کپ جیتنے پہ کوئی قومی ہیرو بن سکتا ہے تو قوم کے افراد کے مرنے پہ اسکو قومی قاتل کیوں نہیں مانا جا سکتا؟؟ ہر وہ ذی روح جو زندگی اور موت کے درمیان کی اس خشکی پر رہتا ہے اسکو شکم سیر کرنے کے لیے جن وسائل کی ضرورت ہوتی ہے ریاست کی ذمہ داری ہے کہ اسکو وہ وسائل بہم پہنچائے اور اسکے بدلے جو صلاحیتیں قدرت نے اس انسان کو بخشی ہیں ان سے استفادہ کرے اور اگر تعلیم کے لیے آرٹیکل 25 اے بن سکتا ہے تو ہر انسان کی سانس کا اسکی زندگی سے رشتہ بحال رکھنے کے لیے باقی بنیادی ضروریات زندگی کی تکمیل کے لیے نہ صرف قانوق سازی کی جائے بلکہ اس امر کی یقین دہانی بھی کروائی جائے کہ ہر خاص و عام اس سے فوائد حاصل کر رہا ہے اور یقین جانیں حاکم وقت انسان اور اللہ دونوں کی بارگاہ میں جواب دہ ہے۔اگر اس کے علاقہ میں انسان تو کیا کوئی جانور بھی بھوک اور غربت کی وجہ سے موت کو گلے لگاتا ہے تو اسکا مقدمہ دوسرے قتل کے مقدموں کی طرح حاکم وقت کے خلاف چلایا جائے اور ویسے ہی اسکو سزا بھی دی جائے تبھی بنے گی یہ مملکت خداداد ریاستِ مدینہ.. تب آئے گی وہ تبدیلی جسکا نعرہ ہر حکمران لگاتا ہے۔ (مصباح چوہدری پاکپتن)