ہم میں سے کتنے ہیں جنہوں نے بیانِ حلفی سامنے آنے سے پہلے ساہیوال سے اٹھنے والے ایک عام وکیل کی گلگت بلتستان کے چیف جج کے عہدے پر تعیناتی کا سُن رکھا تھا۔ بتایا جا رہا ہے کہ وکیل صاحب سیاسی جماعت کے عہدیدار بھی رہے ہیں۔ماریو پوزو کے شہرہ آفاق ناول کا حوالہ جسٹس کھوسہ نے پاناما کیس کے فیصلے میں دیا تھا ۔ڈان کارلیان جب کسی پر احسان کرتا تو بدلے میں فوراََ کچھ طلب نہیں کرتا تھا۔زیرِ بار گردن پر کچھ ادھار آنے والے دنوں میں چکتانے کے لئے اُ ٹھا دیا جاتا۔ پاناما کیس کی سماعت اور فیصلے میں سسیلین مافیا کاحوالہ آیا تو عمران خان اور ان کے ساتھی اُسے لے اڑے۔ ہمیں کسی ایک فرد یا خاندان کی تضحیک مطلوب نہیں۔چنانچہ ہم سمجھتے ہیں ملک میںمافیا زنہیں، ریاستی بندوبست کے مقابلے میں ایک ’متوازی سسٹم ‘کار فرما ہے۔ معاشرے کے ہر طبقے سے وابستہ ’طاقتور گروہوں‘(Elitists) کے مفادات جس سے وابستہ ہیں ۔سسٹم میں سرگرم چہرے جانے پہچانے ہیں۔تاہم کتنے گمنام کَل پرزے ہیں، جوزیرِ بار ہیں،اور اب زیرِ زمین ہماری نظروں سے اوجھل سسٹم کے اندر کار فرما ہیں۔ پرانے احسانوں کا بدلہ چکانے کو جو ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔ مریم نواز کی حالیہ پریس کانفرنس میں تاریخ کا خلاصہ کرتے ہوئے ہمیں بتایا گیا ہے کہ شریف خاندان کی حکمرانی کے خاتمے اور باپ بیٹی کو سزائیں دلوانے میں ریاستی اداروں اور بالخصوص اداروں میں موجود کچھ خاص کرداروں کا ہاتھ ہے۔ اپنی اسی پریس کانفرنس میں مریم نواز نے جو گفتگو کی ہے،اس سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ اُن کے پاس اپنے اِن الزامات کو ثابت کرنے کیلئے کافی مواد(آڈیو، ویڈیو) موجود ہے۔اس سب کے باوجود ،ریاستی اداروں کو ایک موقع دیتے ہوئے انہوں نے امید ظاہر کی ہے کہ سابق چیف جسٹس کی آڈیو سمیت’ پانچ شہادتوں‘ کے منظرِ عام پر آنے کے بعد ادارے اپنے اوپر لگے ہوئے ’داغ‘ دھونے کا خود بندو بست کریں گے۔ کچھ سال پہلے بھی بالکل ایسے ہی ماحول میں مریم نواز نے ایک ایسی ہی پر ہجوم پریس کانفرنس میںجج ارشد ملک مرحوم کے ’اعترافی بیان‘ کی ایک ویڈیو چلائی تھی۔ اس روز بھی اُن کے ’سینئرز‘ بالکل اسی طرح ان کے پہلو میں بیٹھے، سہمے سمٹے خاموشی کے ساتھ اُن کی گفتگو سنتے رہے تھے۔لرزا دینے والے انکشافات کو لیکردو طاقتور میڈیا ہائوسز اور سوشل میڈیا پر انہی اداروں سے وابستہ کارندوں نے وہ طوفان اٹھایا کہ دو ایک روز تک تو طاقتور ریاستی اداروں کے بھی اوسان خطا رہے۔جان میں جان تب آئی جب جج صاحب نے ایک بیانِ حلفی میں معاملے کی پوری تفصیل درج کر دی۔ بیانِ حلفی کے مندرجات کے مطابق جس منظم کارروائی کے ذریعے جج صاحب کو عشروں پرانی ویڈیو کے ذریعے بلیک میل کیا گیا،اس واردات کو جان کر ہم جیسوں پرتو سکتہ طاری ہو جاتا ہے۔(مبینہ طور پر جج صاحب کسی اور کے حکم پر نہیں،خودشریف فیملی کے وکلاء کے مطالبے پر مقدمہ سننے کے لئے تفویض ہوئے تھے)۔جج صاحب کے بیانِ حلفی کے مطابق ان دنوں کہ جب میاں صاحب ذہنی دبائو کی بناء پر کچھ ہفتوں کے لئے خصوصی رعایت پا کر اپنے گھر فروکش تھے تو جج صاحب کو ان کے سامنے پیش کیا گیا تھا ۔ اسی’ آپریشن ‘ہی کی ایک کڑی تھی جب میاں صاحب کے صاحبزادے نے بھی جج صاحب کو مدینہ منورہ طلب کیا اور مسجدِ کی دیوارکے سائے میں بیٹھ کر جج صاحب کو کچھ خدمات کے عوض بھاری رقوم اور دیگر مراعات کی پیش کش کی تھی۔مہینوں پر محیط زیرِ زمین سرگرمیوں کے بعد ہی لاہور میں پریس کانفرنس کے ذریعے ہمیں بتایا گیا کہ میاں صاحب سرخرو ہو گئے ہیں۔دوسری طرف جج صاحب مرتے دم تک اپنے بیانِ حلفی پر قائم رہے۔حال ہی میں منظرِ عام پر آنے والی سابق چیف جسٹس کی مبینہ آڈیو ٹیپ سمیت’پانچ شہادتوں‘ کو بھی اگرچہ کسی عدالت میں پیش نہیں کیا جا سکا، تاہم مطالبہ ہے کہ عدالتیں صرف میڈیا پر برپا طوفان کی روشنی میں اپنا کردار ادا کریں۔ کیپٹن(ر) صفدر ایک دلچسپ کردار ہیں۔کیپٹن(ر) صفدر کا یہ دعویٰ ہے کہ کئی ایک ’سینما سکوپ فلموں‘کامنظر عام پر آنا ابھی باقی ہے۔ کئی روز سے لندن میںواقع جائیداد کے صدر دروازے پر پائے جانیوالے خصوصی رپورٹرز بھی ایسی ہی خبر وںکی اطلاعات دیتے چلے آ رہے ہیں۔ کامیابی کے ساتھ’ سسٹم ‘نے ریاست کو للکارا ہے۔ فیصلے سنانے والے فیصلے نہیں، صفائیاں دیتے پھرتے ہیں کہ وہ ’کسی اور کے دبائو میں نہیں‘۔وہ کہ جن پر اثر انداز ہونے کا الزام دھرا جاتا ہے ، اپنی توانائیاں خود کو غیر جانبدار ثابت کرنے پر صرف کر رہے ہیں۔ کوئی مانے نا مانے، ریاستی بندوبست شدید دبائو میں ہے۔ چند ایک کے نام لئے گئے ہیں تو باقیوں نے احتیاط میں ہی عافیت جانی ہے۔ اسلام آباد کلب اورجا بجا پھیلے گالف کورسز کی سرگوشیاں کرتی فضائوں ،پوش رہائشی علاقوں میں چوٹیوں (Heights) پر واقع خوابیدہ محلات کے سکوت اور پُر آسائش زندگی کے پرسکون پانیوں میںتلاطم کسے پسندہے؟ہم جانتے ہیں کہ فیملی مزاحمت کی تاریخ نہیں رکھتی۔ تاہم کمزور لمحات بھانپ کر اپنے شکار کو تنہا کرنے میں بھی خاص مہارت رکھتی ہے۔ لین دین میں یکتا ہے۔ایک عرصے سے اب بھی معاملات کے طے پا جانے کی تلاش میں ہے۔اب جبکہ معاملات’ زندگی اور موت ‘ کی کش مکش میں بدل چکے ہیں تو کل تک جو عمران خان کی پشت پر کھڑے تھے،عمر کے ایک خاص حصے میں پہنچ کر’پرائی جنگ‘ میں کودنے کو ہر گز عقل مندی کا تقاضا نہیں جانتے۔عمران خان حکومت کی کارکردگی بھی تو توقعات کے مطابق نہیں! ہر گزرتے دن ملکی معیشت تپتی ریت پر پڑی برف کی ڈلی کی مانند قطرہ قطرہ پگھل رہی ہے۔وہ دن گئے جب فوجیں بے تیغ بھی لڑا کرتی تھیں۔صورتِ حال کے پیشِ نظرگِدھ آسمان پر مسلسل منڈلا رہے ہیں۔ غیر ملکی فنڈنگ پانے والے جانے پہچانے گروہ،سلامتی کے اداروں پر سرِ عام حملہ آور ہیں۔ آزادی اظہار رائے کے نام پرمنصفوں اور مجرموں کو ایک ہی گھاٹ پر پانی پلارہے ہیں۔بے یقینی کے اسی دور میں،کوئی ہی دن جاتا ہے کہ کوئی ایک اورگمنام فُٹ سولجر ایک نیا بیان حلفی، ایک نئی ویڈیو لئے سامنے آجائے۔کب،کیسے اور کہاں، کون جانتا ہے؟کتنے ہیں جو زیرِ بار ہیں اور زیرِ زمین اب بھی کار فرما ہیں؟طاقتور گروہ ہیں جن کے اپنے مفادات ہیں۔محض ایک فرد نہیں،ایک خاندان بھی نہیں،ایک پورا سسٹم ہے،ریاست پر جو حملہ آور ہے۔