شاعر منیر نیازی نے کہا تھا : وہ قبیلہ برباد ، سب کا سب جو بہادر وں پہ مشتمل ہو ۔ سیدنا علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہُ کاارشاد یہ ہے : چوٹ کھانے والی جگہ پر وہ چوٹ کھا کر رہے گا ۔ وزیرِ اعظم کے جارحانہ خطاب سے ان کے فدائین ضرور شاد ہوں گے ۔ اپنے حامیوں کی مکمل اور خوش دلانہ تائید ایک بار پھر انہوں نے حاصل کر لی ہے ۔ ان کے پیچھے اب وہ صف بستہ کھڑے ہیں ۔ آدمی کی افتادِ طبع ہی ا س کی تقدیر ہے ۔ آدمی اورگروہوں اور قبیلوں اور ملکوں اور معاشروں کی بھی ۔ تیرہ چودہ برس کی عمر تک ،جب اعصابی نظام تشکیل پا چکتاہے ، شخصیت مکمل ہو جاتی ہے ۔ پھر ظاہری چمک دمک ، نشست و برخواست، گفتگو اور لباس کے قرینے بہتر بنائے جا سکتے ہیں لیکن باطن بدلتا نہیں ۔ ہمیشہ عرض کیا کہ آدمی کی سب کامیابیاں اور ناکامیاں داخلی ہوتی ہیں ۔ تقدیر مالک و پروردگار کے ہاتھ میں ہے ۔ خون(Genes)، ماحول، اساتذہ اور ماں باپ کے اثرات شخصیت کی تشکیل کرتے ہیں۔ قوانینِ قدرت سے جتنی کوئی مطابقت رکھتا ہو، اتنا ہی آہنگ اس میں ہوتاہے ۔ اتنی ہی ظفر مندی اور فتوحات ۔ جتنا انحراف اور جتنا تضاد اتنی ہی شکست و ریخت ۔ ہارون الرشید میں تلون غالب تھا اور فرزند امین میں من مرضی کا رجحان ،باپ سے بڑھ کر۔ تاریخ کے طلبہ کا عام تاثر یہ ہے کہ سوتیلے بھائی مامون الرشید نے اپنی ذہانت اور حوصلہ مندی سے امین کو ہرا دیا ۔ اس میں شبہ نہیں کہ ذہین مامون الرشید زیادہ تھا ۔ اصل نام اس کا عبد اللہ تھا ۔ علم الاسما کی رو سے عبد اللہ تر دماغ اور حکمت کار ہوتاہے ۔ امین کی شناخت بھی مگر یہی تھی ۔ ذکاوت ہی نہیں ، سخاوت بلکہ دریا دلی ۔ عتابِ شاہی کا خطرہ مول لے کر اس کی المناک موت پہ شاعر نے لکھا: جو د و سخا سے میں نے سوال کیا امین کی موت کے ساتھ تم مر کیوں نہ گئے انہوں نے کہا اس لیے ہم ٹھہر گئے کہ ہمیں اس کی موت کا پرسہ دیا جائے کل ہم بھی چلے جائیں گے امین اس شاہانہ عظمت و جلال کا آرزومند تھا، جو آخر کو لے کر ڈوب جاتی ہے ۔ حوصلہ مند ،شجاع اور صاحبِ علم ہونے کے باوجود ہارون الرشید کبھی دوسروں کی مان بھی لیا کرتا ، امین نہیں۔ہارون تو شریکِ حیات کا طنز بھی سہہ لیتا۔ غیر معمولی ظرف کی حامل تھیں۔ عرب تاریخ کا ایک لہکتا ہوا استعارہ ۔ حج کرنے گئیں اور عازمین کو پیاسا پایا تو بغداد سے حجاز تک نہر کھدوا دی ۔ تکمیل ہو چکی اور گوشوارے لے کر خدامِ ادب حاضر ہوئے تو کہا : اسی نہر میں بہا دو ۔اصرار کے ساتھ کہاکرتیں کہ سلطنت تب آسودہ ہوتی ہے ، جب خلق آسودہ ہو ۔ ایک شام ملکہ سے امیر المومنین نے کہا :گرانی بہت ہے ، طبیعت پہ بوجھ بہت ۔بولیں :خزانے زر و جواہر سے بھرے اور لوگوں کے پیٹ خالی تو اس کے سوا کیا ہو ۔ امام حسن ؓ کے بعد ملوکیت تھی لیکن خلافتِ راشدہ کی یادابھی باقی تھی ۔ مناقشے بجھ گئے تھے۔ غور وفکر کے مواقعے اب ارزاں تھے کہ سلطنت مستحکم تھی ۔ یورپ تاریکی میں ڈوبا تھا ۔فرانس کے شارلیمان کا سفیر کبھی حاضر ہوتا تو انکسار اور عجز کا پیکر بن کر ۔ اہلِ روم خوفزدہ تھے اور سر اٹھانے کے لیے ابھی انہیں اڑھائی سو برس درکار تھے۔ اگرچہ پھر اور بھی بڑے فاتح، الپ ارسلان سے واسطہ پڑا ، جس کا نشانہ کبھی خطا نہ ہوا ۔ طارق بن زیاد کی طرح جو گاہے کشتیاں جلادیا کرتا۔ کربلا میں امامؓ نے کہا تھا : روشنی بجھ گئی ، صرف تلچھٹ باقی ہے مگر یہ تلچھٹ بھی اتنی تھی کہ افتاد گانِ خاک میں کچھ نہ کچھ ضرور سیراب ہوتے۔ خلقِ خدا کی داد رسی کا باقی ماندہ نظام معتصم با اللہ کے دور میں سمیٹا گیا ۔ چنگیز خان کے لشکر چڑھ آئے ۔ وسطی ایشیا سے دمشق تک تمام سرزمینیں پامال کر دیں۔ ایک کروڑ گردنیں کاٹ ڈالی گئیں ۔ ریاستِ مدینہ کی وزیرِ اعظم بات کرتے ہیں ۔ کوڑے کے ڈھیروں پر بچّوں کی کچلی ہوئی لاشیں ملتی ہیں ۔ کچلی ہوئی لاشیں اور ریاستِ مدینہ ؟ نا اہلوں اور بدعنوانوں کے ہاتھ میں زمام کار اور ریاستِ مدینہ ؟ بندگانِ خدا سے پروردگار پوچھتا ہے : لما تقولون مالا تفعلون۔تم وہ بات کیوں کہتے ہو، جو کرتے نہیں ۔ پنجاب پولیس میں اصلاحات کا آغاز بھی کیوں نہیں ؟ سنی ان سنی کر دینے والوں ، باتیں بنانے والوں کا انجام کیا ہوگا؟ آصف علی زرداری اور نواز شریف کے ہاتھوں قوم پہ افتاد پڑی اور ایسی افتاد کہ خدا کی پناہ ۔ وزیرِ اعظم سچ کہتے ہیں ، کیا دھرا انہی کا ہے ۔ سچ کہا کہ قرضے چار گنا بڑھ گئے ۔ سچ کہا کہ کرپشن نہیں ، لوٹ مار ہوئی اور دولت کے انبار دشمن سرزمینوں میں پہنچا دیے گئے ۔ اولاد اور مال و منال ، سبھی کچھ ۔ کہنے والے سچ کہتے ہیں کہ وفا شعار نہ تھے۔انسانیت پر کیا یہ پہلی افتاد ہے۔ ازل سے ایسا ہی ہوتاآیا ہے اور ابد تک ایسا ہی ہوتا رہے گا۔ سیدنا عثمانؓ کی شہادت سے بڑا سانحہ تو رونما نہیں ہوا۔امن و امان کے لیے ، امّت کو فتنوں سے بچانے کے لیے ،قصاص ملتوی کر دیا گیا تھا ۔ کیا ہم جنابِ علی کرم اللہ وجہہ سے بڑھ کر انصاف کے خوگر ہو گئے؟ ان سے بہتر ترجیحات مرتب کرنے والے ؟ لوگ بھوکے ہیں ، رزق اور عدل کی تلاش میں ۔ ان سے زیادہ وزیرِ اعظم کو قصاص کی فکر لاحق ہے ۔ بے شک قصاص لازم ہے ۔ اتنا لازم کہ اسی پر بقا کا انحصار ہے ۔ ولکم فی القصاص حیوۃ یا اولی الالباب ۔تم اگر سمجھ سکتے ہو، اے دانشمندو تو زندگی قصاص میں رکھی گئی ہے ۔ جتنا جرم ، اتنی سزا۔ وزیرِ اعظم کے لہجے میں مگر قصاص کا جلوہ نہیں ، انتقام کی بو ہے ۔ ان کی صفوں میں وہ لوگ محفوظ و مامون ہیں ، جو نواز شریف، شہباز شریف اور آصف علی زرداری کے قبیلے سے ہیں ۔ بالواسطہ وزیرِ اعظم نے اعتراف کر لیا کہ نیب کو احکامات وہ صادر کرسکتے ہیں ۔ جب انہوں نے یہ کہا: مخالفین چاہتے یہ ہیں کہ میں انہیںمعاف کر دوں ، ان کے کارناموں کو فراموش کر دوں ۔ بگڑے گی ، اس اندازِ فکر کے ساتھ صورتِ حال بگڑے گی ۔ اس لیے کہ ترجیحات درست نہیں ۔تاریخ کا سبق یہ ہے کہ کامیابی کے لیے صبر اور حکمت درکار ہوتی ہے ۔مشکلات ، مصائب اور بحرانوں میں اور بھی زیادہ ۔ بارہ پندرہ دن وزیرِ اعظم نے تحمل کا مظاہرہ کیا۔ خوش گمانی یہ تھی کہ سبق سیکھ لیا ہے مگر افسوس، مگر افسوس ۔ ملک کی نہیں ، انہیں اپنی پڑی ہے اور اپنی پارٹی کی۔ قوم کو نہیں ، انہیں اپنے قبیلے کو آسودہ رکھنا ہے ۔ قائدِ اعظم کے بعد ایک بھی حکمران عزت اور وقار کے ساتھ رخصت نہ ہوا ۔ وزیرِ اعظم بھی انہی کے راستے پر ہیں ۔ اس لیے کہ وہ ’’دانائوں ‘‘ کے حصار میں ہیں ۔ ایسے بزرجمہر ، جن کی دانائی کا سرچشمہ دربار کی خاک سے پھوٹتا ہے ۔کتنی مہلت، اور کتنی مہلت؟ ریگِ رواں پہ نقشِ قدم اور کتنی دیر ؟ترجیحات درست نہ کیں تو شاید چند ماہ ہی اور ۔ شاعر منیر نیازی نے کہا تھا : وہ قبیلہ برباد ، سب کا سب جو بہادر وں پر مشتمل ہو ۔ سیدنا علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہ کاارشاد یہ ہے : چوٹ کھانے والی جگہ پر وہ چوٹ کھا کر رہے گا ۔