حق اور باطل کی آویزش تو اسی دن شروع ہوگئی تھی ، جس دن حضرت محمد ﷺ نے مکہ کی وادی میں اللہ تعالیٰ کی واحدانیت اور اپنی رسالت کا پر چم سر بلند کیا تھا۔ جبر و استبداد پر مبنی تیرہ سالہ مکی دور کا خاتمہ’’ہجرت مدینہ‘‘ پہ ہوا، اور مسلمانوں کو آزاد فضا میں " اقامتِ دین"اور غلبہ اسلام کیلئے موزوں ماحول میسر آگیا۔ نبی اکرمﷺ نے یہاں پر ، ابتدائی چھ ماہ میں داخلی استحکام، اندرونی دفا ع اور مسلم معاشرے کی تنظیمی بنیادوں کو مستحکم کیا ۔ مسجد نبوی کی تعمیر کی صورت میں مرکزی سیکرٹریٹ کا قیام عمل میں آیا ، جو سب سے اولین اورموثرہیڈ کوارٹر بھی تھا اور گورنمنٹ ہائو س بھی۔۔۔جہاں تعلیمی و تر بیتی امور ، داخلی و خارجی معاملات۔۔۔ غرض جملہ پالیسیوں کی تیاری، یہاں ہمہ وقت زیر کارروائی رہتیں، نیز یہ کہ " صُفّہ " کی صورت میں تزکیہ و طہارت کا اہتما م بھی یہیں پر تھا اور گردونواح میں پٹرولنگ ٹیموں کی روانگی اور مانیٹرنگ کا مرکز بھی۔ مواخاۃ کے ساتھ، یہودی قبائل سے "میثاقِ مدینہ" کی تشکیل اور اتفاق رائے کے نتیجہ میں، مدینہ کے دفاع کو ایک طرف اندرونی ریشہ دوانیوں سے محفوظ بنایا گیا تو دوسری طرف مدینہ کی حفاظت کو تمام قبائل کی " مشترکہ ذمہ داری" قرار دلواکر ، اسکو بیرونی مخالفین کی پہنچ سے بھی دور کرلیا ۔ ابتدائی مہینوں میں ان داخلی امور کی بجا آوری کے بعد، خطے کی صورتحال کا جائزہ لیا گیا۔ اس سلسلے میں مختلف اطراف میں پٹرولنگ ٹیمیں روانہ فرمائیں، اور آئندہ ایک سال کے اندر کم ازکم آٹھ معرکے درپیش ہوئے، جن میں چار میں آپﷺ نے بذات ِخود حصہ لیا ، جس کے سبب یہ غزوات کہلائے اور چار سرایہ ،یعنی وہ مُہمیں، جو آپ ﷺ نے از خود روانہ فرمائیں۔ خطّے کے سیاسی اور معاشی امور میں وہ تجارتی شاہراہ جو یمن سے مکہ اور طائف کو چھوتی ہوئی، شام کیطرف جاتی تھی ۔۔۔ انتہائی اہم تھی۔نبی اکرمﷺ نے اس کے اردگرد میںاپنے اثرو رسوخ کوبڑھایا اور مقامی قبائل کیساتھ دوستی کے معاہدے کئے ، بصورتِ دیگر ان کو "غیر جانبدار" رہنے پہ مجبور کردیا، تاکہ قریش مکہ سے کسی تصادم کے نتیجہ میں یہ قبائل ان کے معاون نہ بن سکیں۔ ایسا اس لیے ضروری تھا کہ ہجرت کے بعد ، اگرچہ مکہ والوں کو پُرسکون ہوجانا چاہیے تھا کہ ان کا شہر ، بقول انکے ،خطرات سے محفوظ ہو کر ، ان کے قبضے میں آگیا۔ لیکن ایسا نہ ہوا، اور انہوں نے مدینہ کے یہود، جو کہ وہاں کی موثر اقتصادی اور دینی قوت تھی ، کیساتھ خفیہ روابط میںسرگرم ہوگئے، اور انہیں ایک دھمکی آمیز خط بھی لکھا، جس میں انہیں کہا کہ "تم نے ہمارے چند آدمیوں کو اپنے ہاں پناہ دی ہے ، ان سے جنگ کرو یا، انہیں نکال دو، ورنہ ہم تم پر حملہ کریں گے ، تمہارے جوانوں کو تہہ تیغ اور عورتوں کو لونڈیاں بنالیں گے"۔ اس پر عبد اللہ بن اُبی نے کہا "ہم حضورﷺ سے جنگ کریں گے "۔حضورﷺ کو اطلا ع ہوئی تو آ پﷺ نے ان کو فرما یاـ" اگر قریش کی دھمکی سے مرعوب ہوکر ہمارے ساتھ جنگ کروگے ، تو تمہیں زیادہ نقصان پہنچے گا، بہ نسبت اس کے کہ تم اہل مکہ کیساتھ جنگ کرو"۔قریش نے مسلمانوں کوبھی دھمکی دی کہ: مسلمانوں! تم خوش نہ ہوکہ تم ہمارے چنگل سے نکل گئے ہو اور آزادی کی زندگی بسر کر رہے ہو، ہم تمہاری بستی پر چڑھائی کریں گے اوراینٹ سے اینٹ بجا دیں گے ۔ یہ دھمکیاں بلا شبہ کھُلا اعلانِ جنگ تھا۔ حضرت سعد بن معاذ اور امیہ بن خلف دونوں دوست تھے اور ایک دوسرے کے ہاں ٹھہرتے تھے، سعد عمرہ ادا کرنے آئے اور امیہ کے مہمان بنے، سعد نے کہا" کوئی ایسا وقت جسمیں بھیڑ نہ ہو طواف کر لیں" دوپہر کو گئے ابو جہل نے انہیں دیکھ لیا، بھڑک اُٹھا اور کہا "میں کیا دیکھ رہا ہوں ، تم مکہ میں امن کیساتھ طواف کر رہے ہو، خدا کی قسم !امیہ کے ہمراہ نہ ہوتے تو زندہ نہ جاتیـ"۔سعد نے کہا" اگرتم کعبہ کا طواف کرنے سے روکوگے تو میں تمہیں اس چیز سے روکونگا ، جو تمہارے لیے قابل برداشت نہ ہوگا، یعنی مدینہ سے تمہارا راستہ بند کردونگا"۔مدینہ کے مختلف قبائل اور مذاہب کا ایک دستور کا پابندہونا اورکفار کو، ان کے معاندانہ رویہ سے باز رکھنے کیلئے ، اس تجارتی شاہراہ پرمسلمانوں کی گرفت کا مضبوط ہونا ، جس پر تقریباً اڑھائی لاکھ پونڈ کی سالانہ تجارت ہوتی تھی ۔۔۔ مکہ والوں کیلئے انتہائی تکلیف دہ تھا، وہ تجارتی شاہراہ کے مسدود ہونے اور خطّے میں اپنے سیاسی اثرو رسوخ کو کم ہوتا دیکھ رہے تھے ، اسی اثنا میں ابو سفیان کا وہ تجارتی قافلہ جس میں پورے مکے کی پچاس ہزار طلائی اشرفیوں پر مشتمل انو یسٹمِنٹ تھی ، اور وہ اتنے ہی منافع کیساتھ واپس مکہ آرہا تھا، کو خدشہ لاحق ہوا، کہ بحرِاحمر کے قریب تجارتی شاہراہ کی ناکہ بندی کی صورت میں، اسکا قافلہ مسلمانوں کیطرف سے روکا جا سکتاہے، ایسی صورت میں نقصان یہ ہوگا کہ وہ ساری رقم،جو مسلمانوں کے خلاف جنگی تیاروں پر خرچ ہو نا ہے، مسلمانوں کے ہاتھ لگ جائیگی، جس سے مسلمانوں کے استحکام اور مکہ والوں کی مالی بدحالی کا اندیشہ تھا ، چنانچہ ابو سفیان نے مکہ کی طرف پیشگی ٹیم روانہ کردی، تاکہ قافلے کی مدد کیلئے افرادی قوت فراہم ہوسکے ، اس کیساتھ اُس نے اپنا راستہ بھی تبدیل کیا ، اور معروف تجارتی شاہراہ کو چھوڑتے ہوئے نسبتاً، دور کا سفر اختیار کر کے، قافلے کو بحفاظت مکہ پہنچانے میں کامیاب ہوگیا۔ اسی دوران ایک اور،نسبتاًچھوٹے تجارتی قافلے کی مسلمانوں کیساتھ مُڈھ بھیڑ ہوئی، جس کے نتیجہ میں ایک قریشی ہلاک، ایک گرفتاراور سامانِ تجارت بھی ہاتھ لگا۔ مکہ میں بیک وقت دو تشویشناک خبریں پہنچیں، ایک مذکورہ واقعہ اوردوسرا ابوسفیان کا ایلچی۔ اب اُنکے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا کہ مسلمانوں کے خلاف فیصلہ کن معرکہ کیلئے میدان میں اُتریں، چنانچہ انہوں نے ایک ہزار پر مشتمل لشکرِ جرار ، جو سامانِ حرب و ضرب سے پوری طرح لیس تھا، جن کے ساتھ نو سو اونٹ اور ایک سو گھوڑے شامل تھے ، کیساتھ بدر کیطرف روانہ ہوئے، دوسری طرف نبی اکرمﷺ12 رمضان المبارک،2 ہجری کو 313 مجاہدین کیساتھ،ابتدائی طور پر ، اس تجارتی قافلے کے تعاقب کیلئے نکلے تھے، جو ابوسفیان کی سربراہی میں شام سے آرہا تھا ،صحابہ کرامؓ کی جماعت جب مقام صفرأ۔۔۔ جو کہ مدینہ اور بدر کے درمیان واقعہ تھا، کے قریب پہنچی تو اہل مکہ کے لشکر کی اطلاع ملی، اور پھر یہاں پر ایک اہم مشاورتی اجلاس منعقد ہوا ، جسکی اسلامی تاریخ میں بڑی اہمیت ہے ۔ جس میں مہاجرین کیطرف سے حضرت ابو بکر ؓ وعمرؓ اور بالخصوص حضرت مقدادؓ کی گفتگو بڑی ایمان افروز تھی ، جس میں انہوں نے عرض کی یارسول اللہ ﷺ آپﷺ ہمیں قومِ موسٰی کی طرح نہ سمجھیں، جنہوں نے اپنے پیغمبر کو کہا تھا :اِذْھَبْ اَنْتَ وَرَبّکَ فَقَا تِلاَاِنّاھٰھُنَا قٰعِدُ ون۔یعنی جایئے آپ اور آپ کا رب ان سے جنگ کیجئے، ہم تو یہاں بیٹھے ہوئے ہیں۔اسی اجلاس میں انصار کے قائدحضرت سعد ؓبن معاذ کی ولولہ انگیز گفتگو سے نبی اکرمﷺ کا چہرہ تَمتا اُٹھا، اور یہ مختصرجماعت ایک ایسے معرکے کیلئے آگے بڑھی، جس نے تاریخ انسانیت اور بالخصوص خطہ عرب کی تاریخ کا رُخ منہ موڑدیا۔