حالیہ پاک بھارت کشیدگی میں بھارت نے اپنے تئیں پاکستان کے خلاف وہ پتّا کھیلنے کی کوشش کی جو نائن الیون کے بعد امریکہ بالخصوص پاکستان اور مغرب بالخصوص عالم اسلام کے خلاف کھیلتا آیا ہے یعنی دہشت گردتنظیموں کی سرپرستی کا الزام ۔ یہ درست ہے کہ پاکستان نائن الیون کے بعد دہشت گردی کی جنگ کا ہراول دستہ ہونے کے باوجود امریکہ اور مغرب کے دہشت گرد تنظیموں بشمول القاعدہ ، طالبان اور اب داعش کی سرپرستی کے الزام سے کبھی بری الذمہ نہ ہوسکا اور ہم سترہ سال اس جنگ میں فرنٹ لائن کا کردارادا کرنے کے باوجود اور اسی وجہ سے سو پیاز اور سو جوتے کھاتے رہے۔ ہم نے دہشت گردی کے خلاف ایک اندرونی جنگ لڑی جس کے تحت کئی کامیاب آپریشن کئے اور اس کے نتیجے میں بھاری جانی اور مالی نقصان اٹھایا۔ اس جنگ میں شمولیت کے نفع و نقصان کا تخمینہ تو ہم برسوں لگاتے رہیں گے لیکن امریکہ کا ڈو مور جو اب ایک کلیشے بن چکا ہے،فراموش کرنا آسان نہیں۔یہ ڈو مور پاکستان کے شمالی علاقوں میںدہشت گرد ٹھکانوں پہ امریکی ڈرون حملوں کی صورت میں بھی ہوتا رہا اور امریکی عسکری امداد وقتا فوقتا بند کرنے کی صورت میں بھی۔ اس سلسلے میںملکی تاریخ کا غالبا سب سے بڑا واقعہ ایبٹ آباد میںا مریکی میرینز کا اسامہ بن لادن کے مبینہ ٹھکانے پہ آپریشن تھا جو امریکہ کو مطلوب اس کے سب سے بڑے دشمن کی ہلاکت پہ متنج ہوا۔اس کے بعد ہم صفائیاں ہی دیتے رہے لیکن یہ ماننے والی بات نہیں تھی کہ اسامہ بن لادن ہماری چارپائی کے نیچے محو استراحت تھا اور ہمیں خبر نہیں تھی۔ اس کے بعد الزامات در الزامات اور ڈو مور کا ایک سلسلہ شروع ہوا جو اس وقت عروج پہ پہنچا جب امریکہ میں صدارتی انتخابات ہوئے اور صدر ٹرمپ مسند اقتدار پہ فائز ہوئے۔ ان کی بدقسمتی یہ تھی کہ وہ اس وقت آئے جب افغانستان میں امریکی افواج کے غاصبانہ قیام کو سترہ سال ہوچکے تھے لیکن ہنوز کابل دور تھا۔ان کے ڈو مور میں سختی سے زیادہ تلخی کا رنگ تھا اور وہ خود اپنی پینٹاگون کی احمقانہ پالیسیوں سے تنگ آئے ہوئے تھے۔ان کے سامنے دو راستے تھے۔ایک طالبان کے خلاف تیز رفتار، فیصلہ کن اور بھرپور جنگ یا پھر افغانستان کو اس کے حال پہ چھوڑ کر فوری انخلا۔یہ دوسرا راستہ پینٹا گون کو منظور نہیں تھا جس نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پہ ساری دنیا کو اپنی دم کے پیچھے لگا رکھا تھا۔۔ صدر ٹرمپ کیوں امریکہ کو دنیا بھر کی لایعنی جنگوں سے نکالنا چاہتے تھے اور ا نہوں نے اپنی اس خواہش کو کبھی چھپانے کی کوشش نہیں کی البتہ برسراقتدار آنے کے بعد وہ پینٹا گون کے ہاتھوں کافی حد تک مجبور ہوگئے اس لئے انہوں نے مندرجہ بالا دو راستوں میں سے ایک کا انتخاب کیا یعنی فیصلہ کن جنگ ۔ انہو ں نے اس کے لئے پرائیویٹ عسکری تنظیموں اور اسرائیلی خفیہ تنظیم اور فوجی دستوں کا تعاون حاصل کیا جوتاک کر نشانہ لگانے میں ماہر تھے اور جنہوں نے عراق اور شام میں خانہ جنگی کی تربیت بھی حاصل کی تھی۔اس کے ساتھ ہی پاکستان سے ڈو مور کا سلسلہ بھی جاری رہا لیکن چونکہ پاکستان میں سی پیک آچکا تھا اور حالات بدلتے ہوئے نظر آرہے تھے اس لئے اس وقت کی پاکستان کی حکومت نے بھی اس ڈومور کو کوئی خاص اہمیت نہیں دی اور ہمارے سابق وزیر خارجہ امریکہ میں بیٹھ کر امریکہ پہ برس پڑے۔پاکستان خود افغانستان میں امن چاہتا تھا اس لئے طالبان کے ساتھ امریکہ کے مذاکرات کا خواہشمند تھا۔یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ افغانستان میں طالبان ہی پاکستان کے امن و استحکام کی ضمانت تھے جن کی حکومت افغانستان کی تاریخ میں واحد پاکستان دوست حکومت تھی۔یہ تو آپکو علم ہی ہوگا کہ افغانستان نے پاکستان کے قیام کو تسلیم نہیںکیا تھا اور اقوام متحدہ میں اس کے خلاف ووٹ دیا تھا۔اس پاکستان دوست طالبان حکومت کو دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پہ جس طرح ختم کیا گیا اور خود پاکستان کو اس کے خلاف کس طرح استعمال کیا گیا یہ اپنی جگہ ایک دردناک تاریخ ہے۔ ہم نے دامے درمے سخنے اس نیک کام میں امریکہ کی مدد کی اور ڈو مور کی ڈگڈگی پہ احکامات بجالاتے رہے۔یہ بات ذہن میں رکھنی ہوگی کہ نائن الیون کے بعد پاکستان کی خارجہ پالیسی میں پیراڈائم شفٹ آیا اورتمام جہادی تنظیمیں سرکاری سرپرستی سے محروم ہوگئیں۔کل کے مجاہد آج کے دہشت گرد ہوئے تو وہ انارکی پھیلی جس کا خمیازہ ہم نے بھگتا۔ویسے ہوا ہوایا کچھ نہیں تھا ۔ہماری خارجہ پالیسی کا قبلہ ہمیشہ سے امریکہ تھا اور ہمارے عسکری اور معاشی مفادات اس سے وابستہ تھے۔اب امریکہ نے یو ٹرن لے لیا تھا ،کل کا جہاد آج کی دہشتگردی قرار پایا تھا تو ہم کیوں اپنے قطب نما کے ساتھ نہ گھوم جاتے۔ نائن الیون دنیا کی تاریخ بدلنے والا ایک ایساواقعہ تھا جس نے اصطلاحات کے مفہوم بدل کررکھ دیئے۔ہم نے اس نظریاتی تبدیلی کوپورے شرح صدر کے ساتھ تسلیم کیا اور وہی مفہوم اپنا لیے جو مغرب نے ہمارے لئے متعین کردئیے تھے۔اس کا نتیجہ اس انارکی کی صورت میں نکلا جس سے ہم کامل سترہ سال نبردآزما رہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ نائن الیون سے قبل پاکستا ن کی سرزمین جہادی تنظیموں کے لئے واقعتا جنت بنی رہی تو یہ اتنا ہی سچ ہوگا جتنا یہ کہنا کہ نائن الیون کے بعد صورتحال یکسر تبدیل ہوگئی اور پاکستان کی ہر حکومت نے نہ صرف ان کی سرپرستی سے ہاتھ اٹھانے کے امریکی مطالبے پہ سر تسلیم خم کیا بلکہ ان کی بیخ کنی کی ہر کوشش میں اس کا پورا ساتھ دیا۔ ان میں وہ تنظیمیں بھی شامل تھیں جو افغانستان میں روس کے خلاف برسر پیکار رہیں اور وہ بھی جو کشمیر میں بھارتی تسلط کے خلاف پاکستان سے نوجوانوں کو بھرتی کرکے جہاد کے لئے روانہ کرتی رہیں۔نائن الیون کے بعد جب ہم دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ کا حصہ بنے تو ان تنظیموں کے خلاف آپریشن بھی ہوئے اور ان کی معاشی امداد بھی بند کردی گئی ۔میں نے بارہا کالموں میں اس بات کا ذکر کیا ہے کہ ایسی تنظیموں کے ذریعے بلا روک ٹوک افغانستان اورکشمیرجانے کا سلسلہ نائن الیون کے بعد بند ہوگیا تھا اور تمام معلوم ذرائع اس کی تصدیق کرتے تھے۔میں نے کشمیر میںلائن آف کنٹرو ل سے متصل ایک سرحدی گائوں کے ایک معروف بیس کیمپ میں جہاں مجاہدین جمع ہوتے اور آگے جاتے تھے، مکھیاں بھنکتی دیکھی ہیں۔ظاہر ہے جب وہاں مکھیاں نہیں بھنکتی تھیں تو ایسا پاکستانی حکومت کی آنکھوں میں دھول جھونک کر نہیں کیا جاتا تھا اور اب اگر وہاں سناٹا ہے تو یقین کرنا ہوگا کہ پاکستان نے عرصہ قبل ان جہادی تنظیموں اور ان کے سیاسی سرپرستوں سے ہاتھ اٹھا لیا تھا۔ہمیں ان کی ضرورت کیوں پڑی اور ہم نے عجلت میں ان سے جان چھڑا کر اپنے لئے مشکلات پیدا کیں یا آسانیاں خریدیں ، یہ ایک طویل بحث ہے اور اتنی پیچیدہ ہے کہ خود مغرب میں اہل دانش اس پہ سر جوڑ کر بیٹھے اس کی وجوہات پہ غور کررہے ہیں۔ (جاری ہے)