پنجاب اسمبلی میں حکمران جماعت پی ٹی آئی اور اتحادی جماعتوں نے وزیر اعلیٰ‘ سپیکر اور دیگر اراکین کی تنخواہوں میں دو گنا اضافے کے لئے محض ایک روز قبل پیش کئے گئے بل کو اپوزیشن کی غیر موجودگی میں منظور کر لیا۔ وزیر اعظم عمران خان نے پنجاب اسمبلی کی جانب سے اراکین کی تنخواہوں اور مراعات میں اضافے کو مایوس کن قرار دیتے ہوئے گورنر پنجاب کو سمری روکنے کی ہدایت کی ہے ،جو خوش آئند ہے۔ چیئرمین تحریک انصاف نے 22سال غریب عوام کے لئے جدوجہد کی۔ عمران خان ہر جلسے میں حکمرانوں کی شہ خرچیوں اور غریبوں کے استحصال پر سیخ پا ہوتے تھے۔2018ء میں اقتدار ملنے کے بعد وزیر اعظم نے پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے اور سرکاری سطح پر کفایت شعاری کی پالیسی اپنانے کا اعلان کیا۔ کابینہ کے اجلاسوں سے لے کر ڈپٹی کمشنر اور یونین کونسل کی سطح پر میٹنگ میں سادگی اپنانے کا کہا گیا۔ بحیثیت وزیر اعظم عمران خان نے خود کفایت شعاری اپنائی۔ لیکن گزشتہ روز ریاست مدینہ کے معماروں نے چپکے سے اپنی تنخواہوں اور مراعات میں من پسند کا اضافہ کر لیا۔وزیر اعظم کا ردعمل بالکل بجا ہے کیونکہ حکومت ملکی معاملات چلانے کے لئے کشکول تھام کر دوست ممالک سے پیسے اکٹھی کر رہی ہے۔ عوام کو بنیادی سہولیات کی فراہمی کے لئے وسائل دستیاب نہیں۔ مہنگائی آسمان سے باتیں کر رہی ہے، غریب آدمی کو جسم و جان کا رشتہ برقرار رکھنے کے لالے پڑے ہوئے ہیں ان حالات میں ارکان اسمبلی کا اپنی مراعات میں اضافہ درحقیقت ریاست مدینہ کے نعرے کی نفی ہے جبکہ وزیر خزانہ اسد عمر یہ نوید بھی سنا رہے ہیں کہ مہنگائی میں مزید اضافہ ہو گا جس پر عوام چیخیں گے۔ عوام آہ و زاری تو پہلے ہی کر رہے ہیں، حکمران طبقہ اگر اپنے کانوں سے روئی نکالے تو انہیں سنائی دے ۔ اسد عمر کی مزید مہنگائی کی پیشگوئی عوام کو زندہ درگور کر نے کے مترادف ہے۔ تحریک انصاف کے اقتدار سنبھالنے کے بعد مہنگائی میں آناًفاناً ہوشربا اضافہ ہوا ہے۔ ڈالر کی قیمت بڑھنے سے اشیاء خوردونوش کی قیمتیں بڑھیں۔ پٹرولیم مصنوعات اور سوئی گیس کی قیمتوںمیں اضافے سے غریب عوام کو دن کی روشنی میں تارے نظر آنا شروع ہو گئے تھے۔ عوام کی اس بے چینی کے بعد ارکان اسمبلی کو اپنی مراعات میں کمی کرنی چاہیے تھی۔ جیسا کہ مختلف ارکان اسمبلی اور وزراء نے شروع میں تنخواہ نہ لینے کا بھی اعلان کیا تھا۔ کچھ نے تو ڈیم فنڈ میں جمع کرانے کا کہہ کر عوامی داد وصول کی تھی۔ لیکن ارکان اسمبلی کے حالیہ اضافے سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ مراعات وصول اور غریب عوام کا استحصال کرنے میں پی ٹی آئی اور اس کی اتحادی جماعتیں ایک پیج پر ہیں۔ ارکان اسمبلی نے نہ صرف اپنے اختیارات کا ناجائز فائدہ اٹھایا بلکہ زندگی بھر کے لئے اپنے اوپر میڈیکل مراعات کے دروازے بھی کھول لئے۔ سابق اراکین اسمبلی پر بھی کھل کر مفت میڈیکل کی نوازشات کیں۔ تحریک انصاف اگر مانگے تانگے کے لوگوں سے گریز کرتی اور صرف نظریاتی کارکنوں کو ہی سرمایہ سمجھتی تو آج اسے ایسی جگ ہنسائی کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ بھان متی کا کنبہ بنانے کے لئے جب اینٹ کہیں سے اور روڑے کہیں سے لئے جائیں گے تو پھر ایسی شرمناک قراردادوں کا سامنے آنا کوئی اچنبے کی بات نہیں۔24گھنٹے گزرنے کے باوجود وزیر اعلیٰ پنجاب نے اس پر کوئی بیان دیا نہ ہی اپوزیشن جماعتوں نے اس قرار داد کی مذمت کی۔ کیونکہ بہتی گنگا میں سبھی اشنان کے لئے بیتاب بیٹھے تھے۔ لاہور میں گھر نہ ہونے پر وزیر اعلیٰ کے لئے تاحیات گھر کا اعلان پھر سابق وزراء اعلیٰ پر بھی مراعات کی بارش۔ کپتان کی ٹیم سے غریب عوام کو یہ توقعات نہیں تھیں۔ اگر انہوں نے بھی کھا کراپنے پیٹ پر ہاتھ ہی پھیرنا ہے تو پھر ماضی کے حکمرانوں اور ان میں کیا فرق ہے؟ عوام نے تبدیلی کے لئے عمران خان کو ووٹ دیے تھے۔ مہنگائی کا سیلاب آیا تو بھی عوام نے صبر و تحمل سے کام لیا۔ وزیر اعظم نے عوام سے آزمائش کے دنوں میں صبر سے کام لینے کی اپیل کی۔ عوام نے اپنی مشکل مستقبل کے سنہرے دنوں کے لئے برداشت کی۔ لیکن کپتان کے وسیم اکرم اور انضمام ہمت ہار بیٹھے ہیں۔ عمران خان نے بروقت ایکشن لیا ،جس پر عوام نے ان کے اس اقدم کو سراہا۔ ریاست مدینہ والوں کا طرز زندگی ہمیں یہ سبق دیتا ہے۔ رسول اکرمؐ نے آخری وقت پر بھی 40غلاموں کو آزاد کیا اور کاشانۂ نبویؐ میں پڑے سات دینار غریبوں میں تقسیم کر نے کا حکم دیا۔ سیدنا صدیق اکبرؓ نے ریاست مدینہ کی تعمیر کے لئے بدن کے کپڑے دے کر ٹاٹ کا لباس پہن لیا۔ سیدنا عمر فاروقؓ نے فرمایا اگر فرات کے کنارے ایک کتا بھی بھوکا مر جائے تو مجھ عمرؓ سے اس کا حساب ہو گا۔ لیکن ہمارے ارکان اسمبلی تو ریاست مدینہ کی تعمیر کے لئے عوام سے جینے کا حق بھی چھیننے پر تلے ہوئے ہیں۔ حضرت عمر بن عبدالعزیزؓ نے شاہی خاندان کی مراعات کم کیں۔ شاہی اصطبل کی سواریاں فروخت کر کے بیت المال میں پیسہ جمع کرایا، اپنی مراعات کم کیں۔ غریب رعایا کو ریلیف فراہم کیا۔ انصاف کا ایسا بول بالا کیاکہ ہر کوئی پکار اٹھا کہ آپ عمر ثانی ہیں۔ عمران خان نے اگر ملک کو ریاست مدینہ بنانے کا اعلان کر کے خلفائے راشدینؓ کی تقلید شروع کی، عوام کے دکھ اور درد کو اپنی تکلیف جانا تو پھر ارکان اسمبلی اپنے ہی لیڈر کو ناکامی سے دوچار کرنے پر کیوں تلے ہوئے ہیں۔ ارکان اسمبلی رضا کارانہ طور پر پہلے سے موجود اپنی مراعات میں کمی کا اعلان کریںاور جب ملک میں خوشحالی آئے تو پھر تنخواہوںمیں اضافہ کرنا کوئی مضائقہ نہیں۔ لیکن یاد رکھیں ریاست مدینہ بنانے کے لئے پیٹ پر پتھر باندھ کر بھوک اور پیاس برداشت کرنا پڑتی ہے۔