ریاست مدینہ کے داعی۔ وزیر اعظم پاکستان نے جنگی جنون میں مبتلا، ہندوستان کو باور کرایا ہے ،کہ اگر اس نے پاکستان پر حملہ کیا تو ہم اس کا فوری اور بھرپور جواب دیں گے۔ جنگ کے خواہاں نہیں، اگر مسلط کی گئی تو پیچھے نہیں ہٹیں گے۔انہوںنے مزید کہاکہ جنگ کسی مسئلہ کا حل نہیں ،جنگ شروع کرنا تو آسان ہے ،مگر اس کا اختتام انسان کے بس میں نہیںہوتا ،جنگ کے کیا نتائج نکلیں گے ،یہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے …بہرحال وزیر اعظم نے توبھارت کو امن کا راستہ ہی دکھانے کی کوشش کی ہے۔ قبیلہ بنوحارث بن کعب ، جو اپنی شجاعت و بہادری کے سبب پورے عرب میں مشہور تھا، نے دس ہجری میں حضرت خالد بن ولید کی دعوت پر، اسلام قبول کیا اور ایک نمائندہ وفد نبی کریم ﷺ کی خدمت میں بھیجا ، آپ ﷺ نے ان سے پوچھا کہ:"زمانہ جاہلیت میں جو تم سے لڑا وہ ہمیشہ مغلوب رہا، اس کا کیا سبب تھا۔؟"انہوں نے عرض کیا یارسول اللہ ﷺ اس کے تین سبب ہیں :۔ i۔ہم اپنی طرف سے کسی پر ظلم یا زیادتی نہیں کرتے تھے ۔ ii۔ہم خود کسی پر چڑھ کر نہیں جاتے اورنہ لڑائی میں پہل کرتے تھے۔ iii۔جب ہم پر کوئی لڑائی تھوپ دیتا تو پھرمیدان جنگ میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جاتے اور کبھی منتشر نہ ہوتے ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم سچ کہتے ہو، جو فوج یاجماعت ان اصولوں پر عمل پیرا ہوگی ، ہمیشہ غالب رہے گی۔ نبی اکرم ﷺ نے اپنی دس سالہ مدنی زندگی میں داخلہ اور خارجہ سیاست کے ان تمام اصولو ں، قاعدوں اور ضابطوں کا عملی نمونہ پیش کیا ،جس سے جہانبانی اور جہانداری کی دنیا قیامت تک رہنمائی حاصل کرسکے۔ "ریاست مدینہ "از خود دو دشمنوں کے درمیان گری ہوئی تھی، شمال میں غطفان او خیبر کے یہو د اور جنوب میں اہل مکہ۔ بدترین دشمن ۔مخالفت میں ہر حد تک جانے کے لیے ہمہ وقت تیار۔ خیبر سے بھی جنگ اورمکہ والوں سے بھی جنگ ۔ مستزادیہ کہ مسلمانوں کے یہ دونوں دشمن، آپس میں بھی اکٹھے تھے ، کہ اگر مسلمان مکہ کی طرف بڑھیں ،تو خیبر والوں کے حملہ آور ہونے کا خطرہ اور اگر خیبر کی طرف جائیں تو مکہ والے حملہ آور ہو جائیں ۔ صاحب ِ فراست کمانڈر اور صاحب بصیرت سربراہ کی حیثیت سے لازم تھا کہ دونوں میں سے کسی ایک کے ساتھ "پُر امن بقائے باہمی "کامعاہدہ اور عدم جنگ کا ماحول پیدا ہو، تاکہ اس "نیٹ ورک"کو توڑا جاسکے ۔ خیبر کی بجائے ترجیح ، فطری طور پر مکہ ہی ہوسکتی تھی، کہ مہاجرین کے قریبی رشتہ دار بھی تھے اور کعبہ کو بتوں سے پاک کرنے کا اہتمام …بہر حال ابھی باقی تھا۔ چنانچہ مکہ والوں سے باہمی روابط کو انسانی ہمدردی کی بنا پر، مضبوط کرنا "خارجہ پالیسی "کا اہم حصہ بنا ، اہل مکہ کی بیرونی تجارت، شمال میں شام کی طرف اور جنوب میںیمن کی طرف تھی ۔ یمن کے ساتھ "تجارتی حجم "نہ ہونے کے برابر تھا ،ساری درآمدات وبرآمدات مدینے کے راستے شام کی طرف تھی ،مسلمانوں نے مدینہ کے آس پاس اور بحیرہ عرب کے ساحلی علاقوں میں بسنے والے عرب قبائل کے ساتھ "دفاعی معاہدے "کیے ،جن کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ مستقبل میں ،کسی جنگ کی صورت میں ، یہ قبائل اگر مسلمانوں کا ساتھ نہ دیں ، تو دشمن کا بھی نہ دیں ،یہ غیر جانبدار رہیں ،چنانچہ اس منصوبہ بندی سے اہل مکہ کو اپنی تجارتی شہ رگ کٹتی محسوس ہونے لگی۔ دوسری طرف …مسلسل جنگوں سے مکہ والے شدید مالی دبائو میں آگئے ، غزوئہ خندق 5ہجری کے اختتام پرنبی اکرم ﷺنے فرمایا: " مکہ والوں میں حملہ کی سکت نہیں رہی ، اب دشمن ابتداء نہیں کر ئے گا ، بلکہ ہم کریں گے ، چنانچہ اب "عوام دوست پالیسی "اپنانے کی ضرورت تھی ،جس کا تعلق جنگ یا فوج سے تو نہ ہو ،لیکن اثر جنگی نتائج پر پڑے ۔ اسی اثنا میں مکہ میں قحط پڑا ،جس نے انہیں بُری طرح متاثر کیا، مکہ میں زراعت نہ تھی ،وہ غلہ درآمد کرتے ۔نجد واحد علاقہ تھا جس کی پیداوار قحط سالی میں بچ گئی ، وہاں سے غلہ مکے کو برآمد ہو سکتا تھا۔ مسلمانوں کے فوجی دستے روایتی گشت پر تھے ، نجد کاسردار ثُمامہ بن اُثال مشتبہ حالت میں گرفتار ہو کر ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدموں میں لایا گیا ،یہ وہ تھا جس نے کبھی مکی دور میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قتل کی دھمکی دی تھی ، ثمامہ نے کہا :"اگر فدیہ چاہتے ہو تو جتنا مال چاہو دے سکتا ہوں ، اگر قتل کرو تو تم حق بجانب ہو۔"تین دن کے بعد ،بغیر فدیے کے اس کی رہائی عمل میں آجاتی ہے ۔ثمامہ اسلام قبول کرکے ،اعلان کرتا ہے ،یار سو ل اللہ ﷺ ،آپ کے حکم کے بغیر اہل مکہ کو غلّہ نہیں دیا جائے گا ،مکہ والوں کا وفد آنحضرت ﷺکی خدمت حاضر ہو کر عرض گزار ہوتا ہے : "یا رسول اللہ !آپ نے ہمیشہ نیکی ،مہربانی اور محبت کی تعلیم دی ہے ، اپنے ہم وطنوں پر رحم کریں جو بھوک سے مرر ہے ہیں۔"حضور کے حکم پر ثمامہ مکہ والوں کو غلہ فراہم کرتا ہے۔ اس شفقت ومحبت کا مکہ والوں پر اثر ہونا ، ایک فطری بات تھی ۔ مزید برآں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پانچ سو اشرفیاں بھی مکے کے غربااورمتاثرین کی مالی امداد کے لیے بھجوائیں ،جواس زمانے میں ایک بڑی رقم تھی ۔ ابوسفیان بھانپ گیا ، مگر بے بسی کے سوا کوئی چارہ نہ تھا ،دشمنی کی شدت میںکمی آنے لگی اور مکہ والے دل ہی دل میں سوچنے لگے کہ محمدﷺ انہی کے شہرکی ایک شخصیت ہیں ،جو ایک بستی کے حکمران بن گئے ہیں ۔افواج کے ساتھ ، عوام کھڑے ہوں ، تو نتائج برآمد ہوتے ہیں ،مکہ کے لوگوں کے دل پھِر رہے تھے ،حالات اس سمت جارہے تھے کہ اگر مسلمان حملہ کریں تو آگے سے بھر پورمدافعت نہ ہو۔ 6ہجری کو حدیبیہ کے مقام پرہونے والے معاہدہ کی صورت میں ، مکہ والوں کے ساتھ دس سالہ جنگ بندی اور کسی تیسرے فریق سے لڑائی کی صورت میں ،فریقین کی غیرجانبداری نے ،مسلمانوں کو خیبر والوں کی قوت توڑنے کا موقع فراہم کردیا ، چنانچہ حدیبیہ سے واپس آکر ،صرف دو ہفتوں میں ہی ،یہود اور اہل خیبر کی قوت کو نیست ونابود کردیا گیا ،اور پھر اس کے ساتھ ہی اسلام کی فتح مندیوں کا وہ عظیم عہد شروع ہوا ،جس کی تابنا کیاں آج بھی انسانیت کو ورطۂ حیرت میں ڈالے ہوئے ہیں ۔ اسی تسلسل میں 8ہجری میں اللہ نے مسلمانوں کو "فتح مکہ "سے سرفراز کیا ، جس کی ظاہری اہمیت اگرچہ تاریخِ عالم میں بہت زیادہ ہے ، مگر معنوی اعتبار سے "صلح حدیبیہ "کی اہمیت اس سے بھی زیادہ ہے ،جس کو قرآن نے "فتح مبین "کہا ۔