دنیا کے یہ اعلیٰ دماغ معیشت دان‘ عالمی اقتصادی منظر نامے کے ذہین ترین افراد اور آئی ایم ایف کی بہترین معاشی و اقتصادی ماہرین کی لسٹ کے جگمگاتے ستارے ‘ اگر کسی قابل ہوتے تو دنیا 2008ء کے بدترین معاشی اور مالی بحران کا شکار نہ ہوتی اور اگر ہو بھی گئی تھی تو یہ ذہین ترین افراد اسے اب تک نکال چکے ہوتے۔ جبکہ حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ سب کے سب بحرانوں کے خالق ہیں۔ انہیں کی معاشی پالیسیوں کی وجہ سے آج دنیا جس بدترین معاشی بدحالی‘ استحصال اور دولت کے چند ہاتھوں میں ارتکاز جیسا کریہہ المنظر چہرہ رکھتی ہے‘ ایسا گھنائونا روپ اس کا پہلے اس قدر نہ تھا۔ جدید مغربی معاشی نظام کے پروردہ ان لوگوں کے بارے میں قائد اعظم نے اپنی زندگی کی آخری تقریر جو یکم جولائی 1948ء میں انہوں نے سٹیٹ بنک کے افتتاح پر کی تھی‘ فرمایا تھا۔ '' The economic system of the west has created almost insolvable Problems for humanity and to many of us it appears that only a miracle can save it from disaster that is now facing the world-- The adoption of western economic theory and practice will not help us in achieving our goal of creating a happy and contended people.'' ’’مغرب کے معاشی نظام نے انسانی کے لیے لاینحل مسائل پیدا کئے ہیں اور ہم میں سے بہت سے لوگ یہ یقین رکھتے ہیں کہ اسے کوئی معجزہ ہی اس تباہی سے بچا سکتا ہے جس کا سامنا آج کی دنیا کو ہے۔ مغربی معاشی نظریات اور ان پر عملدرآمد کسی طور پر بھی ہمیں اس مقصد کے حصول میں مدد نہیں دے سکتا جو ہم نے ایک خوشحال اور قناعت پسند قوم بنانے کے لیے ٹھان لیا ہے‘‘ قائد اعظم کا مغربی معاشی نظام پر تبصرہ بہت طویل ہے۔ جس کے دو اقتباسات میں نے یہاں درج کئے ہیں۔ یہ تبصرہ اس وقت کیا گیا جب یہ جدید معاشی نظام 1945ء کے بریٹن ووڈز ''Braton Woods''معاہدے کے بعد اپنے پنجے گاڑ چکا تھا۔ کاغذ کی جعلی کرنسی کو عالمی قانونی حیثیت مل چکی تھی۔ ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف وجود میں آ چکے تھے۔ ایسے میں یہ ’’دیدہ بینائے قوم‘‘ قائد اعظم محمد علی جناح ان مغربی معیشت دانوں کو پاکستان کے لیے زہر قاتل سمجھتے تھے۔ یہی نہیں بلکہ قائد اعظم کی اس تقریر سے چالیس سال قبل مفکر پاکستان‘ شاعر مشرق علامہ محمد اقبال 1905ء میں اپنی پہلی کتاب علم الاقتصاد لکھتے ہیں ‘جسے اس وقت کوئی پبلشر چھاپنے کو تیار نہیں ہوتا، خود چھاپتے ہیں۔ کتاب کے سرورق پر مصنف کے سامنے لکھا ہے۔’’شیخ محمد اقبال ایم اے اسسٹنٹ پروفیسر گورنمنٹ کالج لاہور۔ اس کتاب میں اقبال نے جس طرح مغرب کے اقتصادی‘ معاشی اور بینکاری نظام کی دھجیاں اڑائی ہیں اور جس طرح آنے والی صدیوں میں اٹھنے والے سوالوں کا جواب دیا ہے وہ کسی صاحب بصیرت کے قلم سے ہی ممکن تھا۔ آج بھی کسی معاشی مسئلے کا جواب ڈھونڈنا ہو تو اقبال کی یہ کتاب رہنمائی کرتی ہے۔ جدید مغربی معاشی نظام کو انسانی تہذیب کی تباہی کا پیش خیمہ اقبال نے یوں اپنی اس رباعی میں کس وضاحت سے بیان کر دیا ہے یہ رباعی اقبال کی اس کتاب علم الاقتصاد کے فلسفے کا نچوڑ ہے۔ ؎ ایں بنوک ایں فکر چالاک یہود نور حق از سینۂ آدم ربود تاتہہ و بالا نہ گردو ایں نظام دانش و تہذیب و دیں سودائے خام ترجمہ:یہ بینکاری نظام دراصل یہودیوں کی مکار فکر کی پیداوار ہے۔ یہ نظام انسان کے سینے سے نور حق کا خاتمہ کرتا ہے۔ جب تک اس نظام کو تباہ و برباد نہیں کیا جاتا۔ دانش‘ تہذیبی خوبصورتی اور دین سب کے سب بے معنی ہیں۔ مغرب کے اسی معاشی نظام کے یہ معاشی غارت گر جنہیں دنیا بھر میں عالمی معیشت کے عظیم دماغ تصور کیا جاتا ہے‘ ان سب کی ناکامیوں کی فہرست اس قدر طویل ہے اور پوری دنیا میں ان کی معاشی پالیسیوں کی وجہ سے جس طرح قحط ‘ بے روزگاری‘ غربت‘ افلاس اور بھوک پھیلی ہے اس کی نظیر گزشتہ کئی ہزار سال کی انسانی تاریخ میں نہیں ملتی۔ یہ عاطف میاں‘ عاصم اعجاز خواجہ اور عمران رسول اسی نظام کے علمبردار‘ اس کے پروردہ اور نابغے ہیں جس نے ان معیشت دانوں کے ذریعے اس دنیا کے لاتعداد ممالک کو تباہ و برباد کیا۔ انہی لوگوں کی قبیل کا فرد جان پرکنز (John Parkins)اپنی دو کتابوں ’’معاشی غارت گر کے اعترافات‘‘ Confession of a Econimic hitmanاور دوسری امریکی بادشاہت کی خفیہ تاریخ۔'' the secret History of Amrican Empire''میں ان تمام ممالک کی کہانیاں لکھتا ہے جہاں وہ حکمرانوں کی ٹاسک فورس کا حصہ بن گیا۔ ان کو قرضوں کی دلدل میں جکڑا‘ پھر جب ان کے قرضے ان کی سالانہ پیداوار سے پچاس فیصد سے زیادہ ہو گئے تو پہلے ان کے وسائل پر قبضہ کیا جو حکمران نہ مانے‘ ان کو قتل کیا اور اگر قتل ممکن نہ ہو سکا تو وہاں اپنی فوجیں اتار دی گئیں ۔ یہ تمام عظیم معیشت دان جن کا ذکر ایڑیاں اٹھا اٹھا کر کیاجاتا ہے‘ ان کی معاشی پالیسیوں کی وجہ سے دنیا 2008ء کے معاشی بحران میں ایسی گرفتار ہوئی کہ آج تک نہ نکل سکی۔ پوری دنیا کی جی ڈی پی کا چھٹا حصہ یعنی 10ہزار ارب ڈالر اسی معاشی کساد بازاری کی نذر ہو گیا۔ امریکی وال سٹریٹ ایسی ڈوبی کہ امریکی حکومت کو عام آدمی کے پیسوں سے 787ارب ڈالر اسے دینے پڑے کہ دوبارہ اپنے پائوں پہ کھڑی ہو سکے‘ لیکن آج دن تک امریکی معیشت ’’آئی سی یو‘‘ میں پڑی ہوئی ہے۔ بے روزگاری اور عوام کو شہری سہولیات کا فقدان گزشتہ دس سال سے امریکی معیشت کی علامت ہے۔ دنیا کے ہر معاشی ہیڈ کوارٹر میں اس قدر ہنگامے پھوٹے تھے کہ لوگوں نے کاغذی کرنسی کے نوٹوں کے عوض سودا دینے سے انکار کر دیا تھا۔ دنیا کے تمام بنکوں نے سود کو یکسر ختم کر دیا تھا اور آج بھی ایسا ہے۔ صرف ایک فیصد تک سروس چارجز وصول کئے جاتے ہیں ۔صرف ایک معاشی سیکٹر یعنی پراپرٹی کا بلبلہ پھوٹا تھا تو دنیا کی حالت ایسی ہو گئی تھی۔ دبئی جسے کتنی محنت سے ان تمام معیشت دانوں نے آئندہ آنے والے مستقبل کے لیے جنت کے طور پر بنایا تھا۔ وہاں عالم یہ ہوا کہ لوگ گاڑیوں میں چابیاں لگی اور گھروں میں سامان دھرے کا دھرا چھوڑ کر بھاگ گئے تھے۔ صرف پاکستانیوں کے چھ ارب ڈالر دبئی میں ڈوبے تھے۔ یہ ٹاسک فورس کے عظیم معیشت دان جس نظام کی بقا کے خواہاں ہیں‘ وہ نظام ریاست مدینہ کی ضد ہے اور قائد اعظم نے آج سے ستر سال پہلے اس نظام کو پاکستانی معیشت کے لیے زہر قاتل قرار دیا تھا۔ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ یہ خود بھاگ گئے اور مزید بھی بھاگیں گے۔ اس لیے کہ بھاشا ڈیم کے لیے چندہ جمع کرنے اور اپنے وسائل سے ڈیم بنانے کا اعلان ان معیشت دانوں کے علم و تجربے کے مذہب میں حرام ہے۔ان کے ورلڈ بنک اور ایشین ڈویلپمنٹ بنک نے تو اس ڈیم کے لیے قرضہ دینے سے انکار کر دیا تھا۔ یہ کیا راستہ نکالتے‘ اس گروہ کے ہر معیشت دان کو علم ہے کہ یہ لوگ معیشت کو ایک بار پھر بیساکھیوں کے سہارے کھڑا کرواتے اور تالیاں بجواتے اور ملک کو ایک نئی دلدل میں پھینک جاتے۔ عاطف میاں کی قادیانیت اور اس کے خلاف اٹھنے والی آواز نے عمران خان کو ایک بڑے جال میں گرنے سے بچا لیا‘ ورنہ اس کا بھی وہی حشر ہوتا جو نکارا گوا‘ نائجیریا اور انڈونیشیا جیسے ملکوں کے معاشی زوال سے عیاں ہے۔ کاغذی کرنسی‘ سودی بینکاری اور استحصالی معیشت کے معاشی جادوگر ریاست مدینہ کے خواب کو چکنا چور کر دیتے۔