پاکستان کے معاشی بحران کی کئی وجوہ ہوسکتی ہیں لیکن ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہماری عوام اور ریاست میں اجنبیت کا رشتہ ہے۔ لوگوں کو ملک کے معاشی بحران میں اپنے کردار کا ادراک نہیں۔ پاکستانی روپیہ کی قدر دو سال میں پچاس فیصد کم ہوچکی۔ زرمبادلہ کے ذخائر اتنے کم ہیں کہ کبھی دوست ملکوں سے قرض مانگنا پڑتا ہے کبھی عالمی مالیاتی ادار ہ کے سامنے ناک رگڑنا پڑتی ہے۔ حکومت کے اخراجات اسکی آمدن سے اتنے زیادہ ہیں کہ وہ اسٹیٹ بنک سے قرضے لیکر کام چلاتی ہے۔ لیکن بازاروں میں چہل پہل ہے‘ سڑکوں پر چمچماتی کاروں کا ہجوم ہے‘ شہروں میں عالیشان بنگلے بن رہے ہیں۔ آج کا پاکستان پچیس تیس سال کے پہلے پاکستان سے بہت زیادہ خوشحال ہے۔ لیکن ثروت مند افراد ریاست کو ٹیکس نہیں دینا چاہتے۔ صرف سات لاکھ افراد ہی ریاست کو براہ راست انکم ٹیکس دیتے ہیں۔ یہ تعداد ملک کے کل ساڑھے تین کروڑ خاندانوں کا محض دو فیصد بنتی ہے۔ گویا 98 فیصد پاکستانی گھرانے ریاست کو براہ راست ٹیکس ادا نہیں کرتے۔ اردگرد دیکھیں تو کیا ہمارے ہاں صرف دو فیصد خاندان ہی خوشحال نظر آتے ہیں؟ ہرگز نہیں۔ کم سے کم بیس پچیس فیصد پاکستانی خوشحال زندگی گزار رہے ہیں‘ ان کی آمدن اتنی ہے کہ وہ ریاست کو براہ راست ٹیکس ادا کریں۔ ملک میں کم سے کم 43 لاکھ صاحب ثروت خاندان ہیں جو عیش کی زندگی گزار رہے ہیں لیکن ریاست کو اسکا حق ادا نہیں کررہے۔ لاکھوں تاجر اور دکاندار‘ بڑے زمیندار اور پروفیشنلز جیسے ڈاکٹرز‘ آرکیٹیکٹ‘ وکیل وغیرہ ایک پائی بھی انکم ٹیکس میں ادا نہیں کررہے۔ بائیس کروڑ کے اس ملک کو چلانے کے لیے 80 فیصد ٹیکس صرف تین سو کمپنیاں ادا کرتی ہیں۔ پاکستان میں حکومت کو مجموعی قومی دولت یا جی ڈی پی کے 11 فیصد کے برابر ٹیکس وصول ہوتا ہے جبکہ دنیا کے ان ملکوں میں جنہوں نے زبردست معاشی ترقی کی ٹیکس اور جی ڈی پی کا تناسب تقریبا تیس فیصد ہے۔بعض فلاحی ریاستوںجیسے ڈنمارک‘ فن لینڈ‘ فرانس وغیرہ میں اس سے بھی زیادہ۔ ہماری ریاست کو کم سے کم جتنا ٹیکس ملنا چاہیے اس سے آدھا ملتا ہے۔صاحب حیثیت لوگوں کی بہت بڑی تعداد یا تو سرے سے ٹیکس دیتی ہی نہیں یا بہت کم دیتی ہے۔ جب ثروت مند لوگوں سے کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے حصہ کا ٹیکس ادا کریں تو ایک دلیل یہ دی جاتی ہے کہ ریاست نے ہمیں کیا دیا ہے جو ہم اسے ٹیکس دیں؟ حالانکہ آج ہمارے لوگوں میں روپے پیسے کی جو بھی ریل پیل ہے وہ اسی ملک کی مرہون منت ہے۔ 71برس پہلے جب ملک بنا تو یہاں افلاس اور مفلوک الحالی تھی۔ لاہور جیسے بڑے شہر کی سڑکوں پر چند گاڑیاں چلتی تھیں۔ آج لاکھوں گاڑیاں ہیں۔ انارکلی بازار میں مسلمانوں کی پانچ چھ دکانیں تھیں۔ باقی سب غیر مسلموں کے قبضہ میں تھیں۔آج سب دکانیں مسلمانوں کی ہیں۔برصغیر کی تقسیم سے پہلے شہری اور زرعی جائیداد کا بڑا حصہ ہندووں اور سکھوں کی ملکیت تھا۔ زیادہ تر مسلمان مزدوری کرتے تھے۔ تناسب کے اعتبار سے دولتمند مسلمانوں کی تعداد بہت کم تھی۔ پاکستان بننے کے بعد مسلمانوں کو بڑے پیمانے پر دولت منتقل ہوئی۔دولت کا یہ انتقال اور ریاست کے وسائل پر دسترس مسلمانوں کیلیے بہت بڑا انقلاب تھا جس کی صدیوں میں مثال نہیں ملتی۔ 71برسوں میں معاشی ترقی کے باعث نئے دولتمند اور متوسط طبقات بھی وجود میں آئے۔ موازنہ کے طور پر بھارت میں رہنے والے بیس اکیس کروڑ مسلمانوں کی زبوں حالی اور افلاس دیکھیے۔ ان کی حالت شودروں سے بدتر ہے۔ دلی ہائی کورٹ کے جسٹس راجندر سچر کی سربراہی میں بننے والے کمیشن نے مسلمانوں کی حالت زار کا نقشہ اپنی رپورٹ میں بیان کیا ہے۔ جس ملک نے آپ کو دولتمند بنایا‘ آسودگی بخشی اسکے حقوق ادا نہ کرنا کفران نعمت نہیں تو اور کیا ہے؟ بعض لوگ دلیل دیتے ہیں کہ حکومت ٹیکسوں کی رقوم عوام کے مفاد میں خرچ کرنے کی بجائے ضائع کرتی ہے اسلیے وہ کیوں ٹیکس ادا کریں؟ جزوی طور پر تو یہ سچ ہے۔ تاہم تصویر کا دوسرا رخ بھی ہے۔ اسوقت تیس لاکھ لوگ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے ملازم ہیں۔ ریاستی وسائل کی بدولت ان تیس لاکھ افرا د کے گھرانے ایک معقول اور معاشی طور پر محفوظ زندگی گزار رہے ہیں۔ یہ حکومتیں ہی ملک بھر میں ڈیمز اور نہروں پر مشتمل دنیا کا سب سے بڑا نہری نظام چلارہی ہے اور اس میں توسیع کرتی رہتی ہے۔ یہ نہری نظام اتنی زرعی پیداوار دیتا ہے کہ بائیس کروڑ لوگوں کی خوراک کی ضرورت پوری ہوتی ہے اور کپاس سے ہماری ٹیکسٹائل صنعت چل رہی ہے۔ اسی ریاست نے ملک میں موٹرویز‘ سڑکیں اور پل بنائے ہیں۔ ریلوے کا نظام چلا رہی ہے۔ سرکاری اسکولوں۔ کالجوں‘ یونیورسٹیوں اور ہسپتالوں سے آپکو شکایات ہوسکتی ہیں لیکن کروڑوں لوگ ان سے فائدہ بھی اٹھا رہے ہیں۔ اصل میں کچھ لوگوں نے اسے وطیرہ بنا لیا ہے کہ اپنی ذمہ داریوں اور فرائض سے بچنے کیلیے پاکستانی ریاست اور حکومتوں کے بارے میں بہت منفی تاثر پیدا کریں‘ اسکے مثبت پہلووں کو بالکل بھلا دیں۔ پاکستانی عوام کے ٹیکس ادا نہ کرنے کی ایک وجہ یہ ہے کہ ہمارے عوام میں اپنی ریاست سے ایک خاص طرح کی مغائرت پائی جاتی ہے۔ وہ ریاست کو اجنبی سمجھتے ہیں۔ ماضی قریب میں ہم سو ڈیڑھ سو سال انگریزوں کی غلامی میں رہے تو یہ خیال ہمارے اندر پختہ ہوگیا کہ ریاست ہم سے الگ ایک غیر شے ہے۔ اس سے ہمارا رشتہ دوستی اور تعاون کا نہیں بلکہ مجبوری اور زور زبردستی کا ہے۔ ریاست زبردستی ٹیکس لے سکے تو ٹھیک ہے ورنہ ہم رضاکارانہ طور پر اسے ٹیکس دینے کو تیار نہیں۔ ہمارا آزاد ملک تو بن گیا لیکن ہم ذہنی طور پرمکمل آزاد نہیں ہوسکے۔ ہر شخص کا پاکستان اس کے گھر کی دہلیز پر ختم ہوجاتا ہے۔ ہم اپنا خوبصورت مکان بنانے کیلیے لاکھوں‘ کروڑوں روپے لگانے کو تیار ہیں لیکن حکومت کو چند لاکھ روپے سالانہ ٹیکس دینے پر آمادہ نہیں۔ ہم مہمانوں کی پر تکلف دعوتوں پر ہزاروں‘ لاکھوں روپے خرچ کرتے رہتے ہیں لیکن اتنی رقم ٹیکس میں نہیں دینا چاہتے۔ ہم ریاست سے وفاداری کو اپنی اقدار کا حصہ نہیں بنا سکے۔ ہمارا معاشی بحران جبھی حل ہوگا جب عوام ریاست کو غیر کی بجائے اپنا سمجھے گی اور اس کے فرائض ادا کرنے کو اپنے اقدار کا لازمی حصہ تصور کرے گی۔