مکرمی !آئے روز دہشت گردی کے ہونے والے نئے واقعات نے پاکستان کی پْرامن ہوتی فضاؤں کو دوبارہ سوگوار کردیا ہے۔ پہلے پشاور پھر بنوں اور پھر مستونگ میں سینکڑوں بے گناہ اور وطن پرست پاکستانیوں کو موت کی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔ سب سے اہم بات ان دھماکوں میں ہونے والے نامی گرامی سیاستدانوں ہارون بلور اور سراج رئیسانی کی شہادتیں ہیں جو کہ کوئی معمولی بات نہیں ہے کیونکہ عام پاکستانی شہری تو پچھلے کئی سالوں سے شہید ہو ہی رہے ہیں مگر اب کی بار الیکشن کی وجہ سے دہشت گردوں نے پاکستان پرست سیاسی رہنماؤں کو خاص طور پر نشانہ اسی لیے بنانا شروع کیا ہے کہ جو بھی پاکستان میں معمول کی زندگی واپس لانے کی کوشش کرے گا اسکا انجام خطرناک ہوگا۔ بدقسمتی سے ایک طرف تو دہشت گردی کے اتنے بڑے بڑے واقعات ہورہے ہیں تو دوسری طرف سابق وزیراعظم کی سزا اور وطن واپسی پہ بحث ہورہی ہے۔ ان کو جیل میں فراہم کردہ سہولیات کو زیر بحث لایا جارہا ہے ، مگر کسی بھی چینل کو توفیق حاصل نہیں ہوئی کہ مستونگ دھماکے کے شہیدوں اور زخمیوں کے گھروں میں جا کر انکے اہل خانہ کا حال ہی معلوم کرلیا جائے کہ وہ کس کرب سے گزر رہے ہیں۔ یوں تو پچھلے کئی سالوں سے پاک آرمی کی جانب سے مختلف آپریشن بھی جاری ہیں اور ان کے نتیجے میں حاصل ہونے والی کامیابیاں بھی خاطر خواہ ہیں مگر جونہی کچھ عرصہ سکون سے گزرتا ہے تو دشمن پھر سے گہرے گھاؤ لگا دیتا ہے۔ دشمن کون ہے ؟ سب سے اہم سوال ہے جو عام پاکستانی کے دماغ میں ابھرتا ہے۔ ہم پاکستانیوں کو ایک بات ذہن نشین کرنی پڑے گی کہ جب سے پاکستان معرض وجود میں آیا ہے ہندوستان سمیت کئی ممالک نے پاکستان کو دل سے تسلیم نہیں کیا ، جن میں اسرائیل ، امریکہ اور برطانیہ سرفہرست ہیں۔ ہمیں ایک اور اہم بات ذہن میں بٹھا لینی چاہیے کہ بھارت کبھی بھی پاکستان کا دوست اور اچھا ہمسایہ نہیں بن سکتا بے شک ہم لاکھ خیر سگالی ، دوستی اور ہمدردی جتلاتے رہیں ، بلکہ اسے جب بھی موقع ملتا ہے وہ ہم پر بزدلانہ وار ضرور کرتا رہا ہے اور کرتا رہے گا۔ (امجد طفیل بھٹی،سیالکوٹ)