آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی صدارت میں ہونے والی 215ویں کور کمانڈر کانفرنس میں جغرافیائی دفاع‘ قومی سلامتی کے امور ‘ افغان سرحد پر باڑ کی تنصیب اور دہشت گردی کے خلاف جاری آپریشنز پر پیشرفت کا جائزہ لیا گیا ہے۔ جنوبی ایشیا عالمی طاقتوں کا میدان جنگ بن چکا ہے ان حالات میں افواج پاکستان کا دفاعی اور سٹریٹجک معاملات پر بدلتی صورت حال پر نظر رکھنا قومی سلامتی کے لیے ناگزیر ہے۔ کور کمانڈر کانفرنس کی جو تفصیلات آئی ایس پی آر نے جاری کی ہیں ان میں عسکری قیادت کا یہ عزم نمایاں ہے کہ ریاستی رٹ اور قانون کی حکمرانی برقرار رکھنے کے لیے ریاستی اداروں کی ہر ممکن مدد کی جائے گی۔ جدید ریاستوں کا استحکام اس کے اداروں کی مضبوطی سے مشروط ہے۔ جس ملک میں جمہوری ادارے، عدلیہ‘ مسلح افواج اور معاشی نظام کسی ایک ادارے کی بے جا مداخلت سے پاک ہوتا ہے وہاں پورا نظام مل کر قومی مسائل کا حل تلاش کرتا اور ایک ساتھ سماجی ترقی کی منزلیں طے کی جاتی ہیں۔ جمہوری عمل شعوری طور پر تربیت یافتہ سماج کا سیاسی رویہ ہے۔ سماج اور اس کے ادارے بنیادی تربیت سے محروم ہوں تو سارا نظام منہدم ہونے لگتاہے۔ ایک مدت تک سیاسی جماعتوں کو یہ شکائت رہی ہے کہ جمہوری عمل کو آزادانہ طور پر پنپنے نہیں دیا جاتا۔ ملک میں چار بار فوجی آمریتوں کی موجودگی میں یہ دلیل کسی حد تک درست معلوم ہوتی ہے مگر جب ہم سیاسی عدم استحکام یا جمہوریت اور آمریت کی بحث میں شامل ہوتے ہیں تو پھر ہمیں ان حقائق سے بھی رجوع کرنا پڑتا ہے جو سویلین اداروں کی کمزوری کا باعث ہیں۔ یہ بات بلا شک و شبہ کہی جا سکتی ہے کہ سیاسی جماعتوں نے اداروں کے استحکام کے لیے جتنے نعرے لگائے اس کی ایک چوتھائی توانائی عمل کی صورت میں خرچ نہیں کی۔ پاکستان میں عام آدمی آج سب سے زیادہ وقت سیاسی معلومات جاننے پر خرچ کر رہا ہے۔ دراصل یہ اس کی بطور فرد ایک کوشش ہے کہ وہ معاشرے کے سیاسی پہلوئوں کی خرابیاں جاننا چاہتا ہے۔ عام شہری کو معلوم ہوتا ہے کہ سیاسی جماعتوں کے داخلی ڈھانچے میں جمہوریت نہیں۔ اسے پتہ چلتا ہے کہ اکثر دولت مند افراد سیاست میں اس لیے آتے ہیں کہ ریاستی وسائل کو لوٹ سکیں۔ عوام کو جلد احساس ہو جاتا ہے کہ جمہوریت اور پارلیمنٹ کی بالادستی چند خاندانوں کے مفاداتی کھیل کا نام ہے اور اس کھیل میں عام آدمی کا کام صرف ووٹ دینا اور استحصال کا سامنا کرنا ہے۔ اس چلن نے عوام کا اداروں پر سے اعتبار کمزور کیا ہے۔ ہمارے ہاں یہ روائت رہی ہے کہ اپنی نالائقی اور نااہلی کا بوجھ کسی ایک ادارے پر ڈال کر جمہوریت پسندی شور مچا دیا جائے۔ سیاسی رہنمائوں نے ہر اس ادارے کو کمزور‘ کھوکھلا اور بدنام کرنے کی کوشش کی جس نے حقیقی جمہوریت متعارف کرانے کی بات کی۔ بلدیاتی انتخابات کو ہی لے لیجیے۔ سیاسی حکومتوں نے اپنے اختیارات نچلی سطح پر منتقل ہونے کے خوف سے بلدیاتی انتخابات کرانے سے گریز کیا۔ سابق حکومت نے سپریم کورٹ کی ہدائت پر جب انتخابات کرائے تو بلدیاتی اداروں کو کوئی اختیار نہ دیا۔ جب بالکل نچلی سطح پر جمہوری گورننس کی تربیت نہیں ہو سکے گی تو پارلیمنٹ میں بیٹھنے والوں سے کیا توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ ذاتی اغراض کی بجائے اجتماعی امور کو اہمیت دیں گے۔ 2013ء کے انتخابات پر دھاندلی کے الزامات لگے۔ تحریک انصاف، پیپلز پارٹی اور چند دیگر جماعتوں نے ان الزامات کو بار بار دہرایا۔ تحقیقات کا مطالبہ لے کر پہلے پارلیمنٹ اور پھر سڑکوں پر تحریک انصاف ہی آئی۔ سابق حکومت اس معاملے کو زیر بحث لا کر پارلیمنٹ کو مضبوط بنا سکتی تھی لیکن اس معاملے کو بعض اداروں کی کارروائی قرار دے کر سیاسی اتحادیوں کو اکٹھا کر کے یہ موقع ضائع کیا گیا۔ پھر پانامہ لیکس کا معاملہ ظاہر ہوا۔ اس بار تحریک انصاف نے پہلے دن سے پارلیمنٹ میں میاں نواز شریف اور ان کے خاندان کے آف شور اثاثوں کا معاملہ اٹھایا۔ آسان اور بہتر طریقہ یہی تھا کہ پارلیمنٹ کی کمیٹی بنا دی جاتی جو حقائق کی چھان بین کرتی اور جو نتیجہ برآمد ہوتا اسے پارلیمنٹ کے سامنے رکھ دیا جاتا۔ مگر سابق حکمران جماعت نے اپنی قیادت کو بچانے کے لیے اسے اداروں کی مداخلت قرار دینا شروع کر دیا۔ سپریم کورٹ نے اس معاملے کی تحقیقات جے آئی ٹی سے کروائیں پھر ان تحقیقات کی بنیاد پر احتساب عدالت میں مقدمہ چلا۔ احتساب عدالت نے میاں نواز شریف‘ ان کی بیٹی کو نااہل قرار دیدیا۔ اس فیصلے کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی گئی۔ اس اپیل کے فیصلے کے خلاف معاملہ سپریم کورٹ میں آ گیا۔ میاں نواز شریف اور ان کے خاندان پر کئی طرح کے الزامات ہیں۔ بہت سے الزامات کی تحقیقات جاری ہیں جنہیں سیاسی انتقام قرار دے کر سابق حکمران خاندان کو جمہوریت کا چمپئن بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف جس طرح سپریم کورٹ کے پانچ سینئر ججوں اور دیگر ریاستی اداروں پر الزام لگا کر عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں وہ خود کو قانون سے ماورا قرار دینے کی کوشش کے سوا کچھ نہیں۔ اس وقت حکومت‘ عدلیہ اور مسلح افواج کے مابین قومی سلامتی کے حوالے سے مکمل ہم آہنگی دکھائی دیتی ہے۔ کور کمانڈر کانفرنس میں ریاستی رٹ برقرار رکھنے کے لیے سویلین ریاستی اداروں کے ساتھ بھر پور تعاون کا اعلان بھی اسی تناظر میں جاری کیا گیا ہے کہ ملک میں انتشار اوربدامنی پیدا کرنے والے عناصر کو ریاست کو چیلنج کرنے کا موقع نہیں دیا جا سکتا۔