ریاض کا مطلب باغ ہوتا ہے ، ریاض کے نام سے وسیب کی دو شخصیات ایسی تھیں جن کو علم و ادب کا باغ اور پاکستان کا سرمایہ افتخار کہا جا سکتا ہے ۔ یہ دو شخصیات ریاض انور اور ریاض ہاشمی کی تھیں ۔ دونوں کی وسیب کے ساتھ ساتھ ملک و قوم کیلئے بے پناہ خدمات ہیں ۔ یہ ٹھیک ہے کہ وہ ریاست کے بڑے عہدوں تک نہ پہنچ سکے لیکن کسی بھی شخص کے بڑا ہونے کیلئے یہ ضروری نہیں کہ وہ صدر یا وزیراعظم ہو ، یا بڑی جاگیروں اور بڑی کوٹھیوں کا مالک ہو ۔ انسان اپنی سوچ کے ساتھ بڑا ہوتا ہے ۔ ریاض انور اور ریاض ہاشمی دو ایسی ہی شخصیات تھیں جن کے ذکر سے آج بھی دل باغ باغ ہو جاتا ہے ۔ وہ آج ہم میں موجود نہیں مگر وہ ہمیشہ زندہ رہیں گے ، اپنے کارناموں کے حوالے سے ۔ جشن فرید کے بانی ، ثقافتی تنظٰموں، ادارہ فکر و فن اور بزم ثقافت کے سر گرم عہدیدار سرائیکی اور اردو کے معروف شاعر، دانشور اور ماہر قانون ریاض انور کی 27 ویں برسی 3 فروری کو منائی گئی۔ان کی یاد میں ہم نے جھوک سرائیکی میں فکری نشست کا اہتمام کیا مگر یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ دکھ کی بات یہ ہے کہ ریاض انور کو ملتان کے ان ادبی حلقوں اور دوستوں نے بھلا دیا ہے ، جوان سے وہ فیض حاصل کرتے رہے۔ ریاض انور 1931ء میں دائرہ دین پناہ میں پیدا ہوئے ۔ ان کے والد اور بھائی محکمہ تعلیم سے وابستہ تھے ۔ ریاض انور نے ایمرسن کالج سے ایف ایس سی کے بعد نامور بھارتی دانشور گوپی چند نارنگ کے ہمراہ زرعی کالج فیصل آباد میں داخلہ لیا ۔ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کا تعلق لیہ سے تھا، قیام پاکستان کے بعد وہ انڈیا چلے گئے اور ان کا ادب کے حوالے سے اتنا کام ہے کہ ان کو ہندوستان کا سب سے پڑا ایوارڈ پدم جی دیا گیا ۔ ہندی و دیگر زبانوں کے بڑے بڑے اسکالر ان کو اپنا گرو مانتے ہیں ۔ اسی طرح ریاض انور نے بھی اتنے بڑے کارنامے سر انجام دیئے کہ ان کو ان گنت ایواڈ اور اعزازات حاصل ہوئے ۔ سب سے بڑا ایوارڈ یہ ہے کہ وہ آج بھی وسیب کے کروڑوں عوام کے دل میں بستے ہیں ۔ ریاض انور تعلیم مکمل کرنے کے بعد 1952ء میں زراعت آفیسر بھرتی ہوئی ۔ 1958ء میں ایل ایل بی کے بعد وکالت سے منسلک ہو گئے اور پھر لاہور چلے گئے ۔ انجمن ترقی پسند مصنفین ، رائٹر گلڈ سمیت مختلف ادبی تنظیموں کے عہدیدار رہے ۔ 1960ء سے 70ء کے درمیان ملتان میں جشن فرید کا اہتمام کیا جو ملتان میں بڑی سرائیکی ادبی و ثقافتی سرگرمی تھی۔ ریاض انور نے اس خطے میں سیاسی شعور بیدار کیا ۔ وہ متعصب نہیں تھے ،انہوں نے میلوں کے ذریعے اس خطے کی ثقافت کو اجاگر کیا۔ 3 فروری 1993ء کو لاہور میں انتقال کر گئے۔ اب میں دوسری شخصیت کا ذکر کروں گا کہ ریاض ہاشمی ہی وہ شخصیت ہیں جن کی انگریزی کتاب '' Brief of bahawalpur province''، 1972ء میں شائع ہوئی۔ تو کتاب کے آخر میں سرائیکی صوبے کا نقشہ انہوں نے پہلی مرتبہ شامل کیا ۔ اس نقشے میں صادق آباد سے ڈی آئی خان تک سرائیکی خطے کی جغرافیائی شناخت کے مطابق صوبے کی ڈیمانڈ کی گئی ۔ریاض ہاشمی اس شخصیت کا نام ہے جو براہ راست مولانا عبیداللہ سندھی کے شاگرد ہیں ، ان کے والد فیض الحسن المعروف ڈاکٹر بگا مرحوم نے ان کو تعلیم کے لئے کراچی کے مدرسے میں داخل کرایا لیکن 1939ء میں مولانا عبیداللہ سندھی جلا وطنی کے بعد کراچی پہنچے اور ان کا اسی مدرسے میں خطاب تھا جہاں ریاض ہاشمی پڑھ رہے تھے ۔ ریاض ہاشمی بتاتے ہیں کہ خطاب کے بعد میں مولانا عبید اللہ سندھی کوملا اور ان سے اپنا تعارف کرایا کہ میں خان پور سے آیا ہوں اور ڈاکٹر بگا کا بیٹا ہوں ۔ مولانا عبید اللہ سندھی نے مجھے گلے لگایا اور کہا کہ تم مدرسے کی تعلیم چھوڑو کالج میں داخلہ لو اور وکیل بنو، چنانچہ انہوں نے ایسا کیا ۔ ریاض ہاشمی بتاتے تھے کہ جب مولانا عبیداللہ سندھی دو تین سال بعد خان پور آئے تو بہت بیمار تھے ، میں اپنے والد کو روزانہ سائیکل پر دین پور شریف لے جاتا اور حضرت سندھی سئیں کا میڈیکل چیک اپ کراتا ۔ اس دوران مولانا عبیداللہ سندھی سے مجھے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا ، مجھ میں سیاسی و انقلابی سوچ پیدا ہوئی ۔ مولانا عبید اللہ سندھی 1944ء میں رحلت فرما گئے تو میں نے بھی اپنا شہر چھوڑ دیا اور کراچی چلا گیا۔ وہاں میں نے تعلیم مکمل کی اور وکالت کا پیشہ اختیار کیا۔ لیکن میرا جھکاؤ سیاست کی طرف رہا ۔ ریاض ہاشمی بتاتے ہیں کہ اس دوران میرے ریاض ہاشمی سئیں جی ایم سید ‘ باچا خان ‘ عبدالصمد خان اچکزئی ، غوث بخش بزنجو ، حیدر بخش جتوئی ، رسول بخش تالپور ، ممتاز بھٹو ، ذوالفقار علی بھٹو اور دوسرے سیاسی رہنماؤں سے ذاتی مراسم استوار ہوئے ۔ یادوں کے حوالے سے عرض کروں کہ ریاض ہاشمی رہتے تو کراچی میں تھے مگر ان کا گھر خانپور تھا ۔ سینما روڈ پر ان کے والد کا کلینک اور کوٹھی تھی ۔ ریاض ہاشمی کی ایک بیوی ان کی کراچی سے اردو سپیکنگ تھی اور ایک شادی بہاولپور ان کے اپنے خاندان میں ہوئی تھی ‘ اس لحاظ سے بہاولپور بھی ان کا گھر تھا ۔ میں 1974ء میں کراچی میں اپنے استاد محترم مقبول دھریجہ سے کتابت سیکھتا تھا ۔ اس دوران میری ملاقات ریاض ہاشمی صاحب سے نہ ہو سکی ۔ البتہ کراچی میں لوگ بتاتے تھے کہ ریاض ہاشمی صاحب کا آفس سرائیکی کا مرکز ہے ‘ وہ کراچی میں مقیم سرائیکی بولنے والوں کی قانونی مدد بھی کرتے ہیں اور ان کو سرائیکی صوبے کا درس بھی دیتے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ ریاض ہاشمی اس شخصیت کا نام ہے جس نے قیام پاکستان کے بعد نواب آف بہاولپور سر صادق محمد خان کے خلاف رٹ دائر کی کہ چونکہ بہاولپور کی ریاستی اسمبلی موجود تھی اسمبلی کی منظوری کے بغیر امیر آف بہاولپور کو اس بات کا اختیار نہیں تھاکہ وہ ریاستی عوام کی تقدیر کا فیصلہ کریں ‘ انہوں نے لکھا ریاست کے مالک وہاں کے باشندے ہوتے ہیں۔ سربراہِ مملکت کی حیثیت محض ایک امین کی ہوتی ہے ۔ مالکوں کی اجازت اور رضا مندی کے بغیر اگر ریاست کا امین کوئی فیصلہ کرتا ہے تو یہ امانت میں خیانت ہے۔ریاض ہاشمی نے عوام کے اختیار کی بات کی اور بادشاہوں کے آمرانہ مزاج کی مخالفت کی۔ یہ ٹھیک ہے کہ ریاض ہاشمی کی استدعا نہ سنی گئی مگر انہوں نے اپنا تاریخی اور اصولی موقف تاریخ کے صفحات پر ریکارڈ کرا دیا ۔ وہ ایک دور اندیش اور دیدہ ور سیاستدان تھے ، وہ صرف خانپور نہیں پورے وسیب کا فخر تھے ۔