ہم ریت میں اگے ہوئے اس شہر کی جانب پرواز کرتے جاتے تھے جسے عرف عام میں دوبئی کہا جاتا ہے۔ ہم اپنی مرضی سے نہیں مجبوری سے اس شہر کی جانب چلے جاتے تھے جو اب بھی بہت سے لوگوں کے ،خوابوں کا شہر ہے۔ محنت مزدوری کے خواہش مندوں کا‘ سیاست دانوں کا جنہوں نے یہاں شاہانہ گولڈن گھر تعمیر کر رکھے ہیں تاکہ جب بھی برا وقت نازل ہو جائے تو وہ یہاں نزول فرما جائیں اور بیان دیں کہ دیکھئے ہم نے پاکستان کی سلامتی اور وقار کے لئے ملک بدری قبول کی ہے اور اس بیان کے بعد وہاں پلازوں اور فیکٹریوں کی تعمیر میں مشغول ہو جائیں۔ ڈکٹیٹر حضرات بھی دوبئی میں ہی پڑے رہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ میں کسی سے ڈرتا ورتا نہیں۔ ایک زمانے میں ٹیلی ویژن سے ایک مقبول عام سیریل’’ایک حقیقت ایک فسانہ‘‘ کے نام سے ٹیلی کاسٹ کیا جاتا تھا جس میں رپورٹر امجد کا مرکزی کردار میں ادا کیا کرتا تھا اور نثار قادری ’’ماچس ہے آپ کے پاس‘‘ اور ’’ارے بھئی امجد کیوں کنفیوژ کرتے ہو‘‘ ایسے فقرے مخبوط الحواس ہو کر ادا کرتا تھا اور بہت داد وصول کرتا تھا۔ اسی سیریز میں عارف وقار نے ایک شاہکار ڈرامہ ’’دوبئی چلو‘‘ نام کا پرڈیوس کیا جس میں علی اعجاز نے ایک معصوم دیہاتی نوجوان کا کردار ادا کیا جو سب کچھ دائو پر لگا کر دوبئی کی جنت میں جانے کے لالچ میں لٹ جاتا ہے۔ بعد میں اسی نام سے فلم بنائی گئی اور علی اعجاز ایسا سپر سٹار ہوا کہ ایک مدت تک پردہ سکرین پر ہر نوعیت کی فربہ ہیروئنوں کے ساتھ تقریباً رقص کرتا رہا۔ اس نے بے پناہ دولت کمائی اور پھر لُٹائی۔ ان زمانوں میں یہ رواج عام تھا کہ فلموںکی کوئی ایکٹرس یا کوئی ٹاپ ماڈل دوبئی جاتی تھی اور راتوں رات مالا مال ہو کر درہم کھنکھناتی اگلے روز واپس آ جاتی تھی اور یوں ہمارے زرمبادلہ میں دن دونی اور ظاہر ہے رات کو چوگنی ترقی ہوتی جاتی تھی۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ عزت مآب خواتین دراصل حب الوطنی کے جذبے سے سرشار تھیں اور وہ اپنا تن من وغیرہ نثار کر کے دھن لے آتی تھیں۔ لیکن ان دنوں تو الٹی گنگا بہنے لگی ہے۔ ماڈل خواتین پاکستان سے ڈالروں سے مالا مال ہو کر دوبئی جاتی ہیں اور مجال ہے کوئی پوچھ سکے کہ بی بی یہ جو الگ باندھ کے مال رکھا ہے یہ کیا ہے‘ کہاں سے آیا ہے اور کدھر جا رہا ہے اور اگر کوئی پوچھ لے اور پھر غائب ہو جائے تو اس کا نام گمشدہ افراد کی فہرست میں تلاش کیجیے اور یہ ماڈل خواتین دوبئی کے پھیرے کے پھیرے لگاتی ہیں اور وہاں جا کر جو مال الگ باندھ کے رکھا ہوتا ہے اسے کھول دیتی ہیں اور اس مال سے ہی تو پلازے اور فیکٹریاں تعمیر ہوتے ہیں۔ میں اور میری اہلیہ اس ادھیڑ عمری میں کیوں کشاں کشاں دوبئی کی جانب جا رہے تھے عرض کر چکا ہوں کہ مجبوری کے تحت جا رہے تھے۔ اولاد سے ملنے جانے کی مجبوری تھی اور بے ایمانی اور کرپشن کی مجبوری تھی۔ پچھلے برس تک پی آئی اے کی ایک پرواز لاہور سے ڈائریکٹ نیو یارک جاتی تھی۔ راستے میں مانچسٹر میں رکتی تھی اور پھر اڑ جاتی تھی۔ تب میرا بیٹا سلجوق یو این او میں سفارتی فرائض انجام دے رہا تھا۔ ہم چند روز نیو یارک میں اس کے پاس قیام کرتے اور پھر وہاں سے بیٹی عینی کے پاس آر لینڈ و فلورٹیا چلے جاتے۔ ہم بہت سکھی تھے۔ پھر پچھلے برس پی آئی اے کے وڈیرے نے کسی برسر اقتدار وڈیرے کے کہنے پر یکدم لاہور سے نیو یارک جانے والی پرواز ہمیشہ کے لئے منقطع کر دی اور جواز یہ دیا کہ اس پرواز کو مسافروں کی کمی کی وجہ سے بند کیا گیا ہے۔ پی آئی اے گھاٹے میں جا رہی تھی۔ یہ ایک بڑا دھوکا تھا۔ ایک جھوٹ تھا۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے کم از کم سات آٹھ بار لاہور سے نیو یارک کی اس پرواز میں سفر کیا ہے اور ہمیشہ مشکل سے نشست دستیاب ہوتی ہے اور جہاز ہمیشہ فل جاتا تھا اس پرواز کا گلا اس لئے گھونٹا گیا تاکہ کوئی اور ذاتی ایئر لائن فائدہ اٹھائے یا کسی بین الاقوامی ایئر لائن کے ساتھ مک مکا کیا جائے اب صورت حال یہ ہے کہ امریکہ جانے والے لوگ دھکے کھاتے پھرتے ہیں اور ان میں ہم دونوں میاں بیوی بھی شامل تھے۔ ایمرٹس کی فلائٹ صبح تین بجے روانگی۔ چھ بجے دوبئی اور پورے بیس گھنٹہ دوبئی میں امریکہ جانے والی فلائٹ کا انتظار اور وہ بھی صبح تین بجے مسافر تو رُل گئے ناں اور وہ بھی ایک بابا جی اور ان کی اہلیہ مائی جی سفید بگلا سروں والے لاچار مسافر۔ کیا اس نویں نکور پاکستان میں لاہور سے نیو یارک کی فلائٹ بحال نہیں ہو سکتی۔ اس کی بحالی سے بہتوں کا بھلا ہو گا۔ ایمرٹس کا نہ صرف جہاز بلکہ عملہ بھی صاف ستھرا تھا‘ کھانے کا معیار بھی پی آئی اے سے کہیں بہتر تھا۔ ایمرٹس کے ایئر اور گرائونڈ سٹاف کو میں نے بے حد مددگار پایا۔ یہ وہی ایئر لائن ہے جس کی تشکیل میں پی آئی اے نے مرکزی کردار ادا کیا یہاں تک کہ ایمرٹس کی پہلی جیٹ پرواز کے پائلٹ بھی پاکستانی تھے اور آج ایمرٹس دنیا کی سب سے اعلیٰ ایئر لائن ہے اور پی آئی اے۔ نہ کمال کے لوگ رہے اور نہ لاجواب پروازیں۔ بس زوال ہی زوال ہے اور وہ بھی کمال کا۔ ایمرٹس کا جیٹ بالآخر ایک جائنٹ پرندے کی مانند تقریباً بے آواز دوبئی ایئر پورٹ پر اُترا۔ ہمارا خیال تھا کہ یہ ایک بین الاقوامی پرواز ہے تو جب جہاز ساکت ہو گا تو ہاتھی کی سونڈھ ایسا ایک پائپ اس کے ساتھ منسلک ہو جائے گا اور ہم اس کی عافیت میں چلتے سیدھے ایئر پورٹ کی عمارت میں قدم رنجہ فرمائیں گے لیکن یہ نہ تھی ہماری قسمت۔ جہاز جانے کہاں جا اترا۔ ایئر پورٹ بھی ایک صحرا کی مانند ہے بے انت تھا۔ ہم اترے اور شٹل سروس کی گاڑی میں جا کھڑے ہوئے۔ یہ گاڑی ایک طویل سفر پر روانہ ہو گئی۔ چلتی گئی۔ دو تین کلو میٹر کا فاصلہ طے کرنے کے باوجود چلتی گئی۔ جب ایک لاہوری نے اپنے ساتھی سے ازراہ مذاق کہا’’یار پتہ کرو‘ ہم واپس لاہور تو نہیں جا رہے‘‘ دوبئی ایئر پورٹ اور شہر کی وسعت میں بس انیس بیس کا فرق ہو گا۔ یہ ایئر پورٹ ہم جیسے بزرگ مسافروں کے لئے سخت مضر ثابت ہو سکتا ہے کہ چلتے چلتے دم نکلنے یا مسمار ہو جانے کا قوی امکان بہر طور ہوتا ہے۔ (جاری) جب ہم دم لے لے کر بہت چل لئے اور پھر لگتا تھا کہ آخری دموں پر ہیں جب ایک مددگار فرشتہ نازل ہو گیا جس کا نام سرفراز تھا۔ پاکستان کے کونسل جنرل نے ازراہ مہربانی ہمارے استقبال کے لئے ایک عدد پروٹوکول افسر بھیج دیا تھا۔ سرفراز نے ہمارے پاسپورٹ وغیرہ اپنی تحویل میں لئے۔ ہمارا ہینڈ کیری تھاما اور چل دیا اس کے پیچھے پیچھے ہم دونوں بھی خوشی خوشی چل دئے۔ تمام دل آزار مراحل مثلاً کسٹم‘ پاسپورٹ چیکنگ اور ویزا کا حصول جسے خوش اسلوبی کہا جاتا ہے اس کے ساتھ طے ہو گئے ۔ ایئر پورٹ کے باہرقونصلیٹ کی گاڑی منتظر تھی جس نے ہمیں ہوٹل کیپ تھورن میں پہنچا دیا جہاں کے بیشتر مہمان ہماری طرح ٹرانزٹ میں تھے۔ ہوٹل مناسب تھا نہ اتنا آرامدہ کہ جی خوش ہو جائے اور نہ اتنا معمولی کہ جی بیزار ہو جائے۔ ڈائننگ روم میں بھانت بھانت کے جانور پھر رہے تھے ہم بھی پھرنے لگے ۔وادیٔ یاسین سے تعلق رکھنے والے ویٹر حیدر نے ہماری خوب خاطر کی کہنے لگا سر یہاں سے واپس جا کر یاسین میں ہوٹل کھولوں گا آپ نے ضرور آنا ہے۔ ناشتے سے فارغ ہو کر کمرے میں آئے۔ اب کیا کریں؟۔ ہمیں آرلینڈو کی فلائٹ کے لئے پورے بیس گھنٹے انتظار کرنا تھا۔ ہمیں دوبئی دیکھنے کی کچھ چاہت نہ تھی۔ ریت میں اگے ہوئے اس شہر میں ہمارے لئے کچھ کشش نہ تھی۔ ریت میں کھلے ہوئے کاغذ کے بنائوٹی پھول کو دیکھنے کی کچھ خواہش نہ تھی۔ تو پھر بیس گھنٹے کیا کریں۔