افضل عاجز سے ہمارا رشتہ اُتنا ہی پُرانا ہے،جتنا تھل پُرانا ہے۔ اس کے تخلیق کردہ گیت جب عطاء اللہ خاں عیسیٰ خیلوی کی درد بھری آواز کا رُوپ دھارتے تو ٹاہلی کی بلند وبالا چوٹیوں پر بیٹھی فاختائوں کے آنسوچھلک پڑتے۔ یہ اُس زمانے کی بات ہے ،جب لوگ پیدل سفر کرتے ،سفید اُجلالباس پہنتے ۔ یہ اُسی زمانے کی بات ہے جب راتیں جاگتی تھیں۔ تب ہمیں معلوم نہیں تھا کہ عطاء اللہ خاں عیسیٰ خیلوی ،کہاں رہتا ہے اور لطیف جذبوں کا ترجمان شاعرکا گھر کندیاں میں ہے۔البتہ مسافر یہاں سے گزرتے تواُن کے دِل دھڑک اُٹھتے۔ او پھر مَدت بعد ، جب ساز و آواز کا رشتہ ٹوٹاتو کئی خواب چکنا چور ہوئے۔ یہ کندیاں کا ریلوے اسٹیشن ہے۔رات کی گاڑی سیٹی بجاتی آتی اور چلی جاتی ہے۔ ریلوے اسٹیشن کے قرب میں جو ایک گھر ہے ،جس میں شاعر رہتا ہے، اُس میں نقب لگ چکی ہے۔