میں چھانگا مانگا جنگل کے اس حصے میں جانکلا تھا جس کی کہانیاں ابا جی سنایا کرتے ہیں۔ کبھی یہاں موسم بہار امنڈتا تھا۔ شاخوں سے پتے پھوٹتے مگر سبز رنگ آسمان سے گویا برس رہا ہوتا۔ یہاں جاپان کے تعاون سے ایک سو ایکڑ رقبے پر توت کے درخت لگے ہیں۔ ڈیوٹی پر سریکلچر ڈیپارٹمنٹ کا ایک اہلکار موجود تھا۔ وہ مجھے اپنا شہری بابو سمجھ چکا تھا جو اپنے درختوں اور ان کے استعمال سے ناواقف ہو۔ چھانگا مانگا جنگل اور توت کے درختوں کے بعد میں ریشم کے کیڑوں کے موضوع کی طرف آیا تو اسے یقین ہو گیا کہ میں اس کے محکمے کا کوئی افسر ہوں۔ میں نے اسے بتایا کہ شہر میں رہتا ضرور ہوں مگر میرے اندر دیہات رہتے ہیں۔ میں وہ پرندہ ہوں جسے شہر نے بند کر رکھا ہے۔ میں نے پوچھا کہ اب چھانگا مانگا اور اس کے نواحی دیہات میں ریشم کے کیڑوں کے انڈے کتنی تعداد میں آتے ہیں سریکلچراہلکار بتانے لگا کہ پندرہ برس قبل ضلع قصور کے اس چھوٹے سے قصبے میں انڈوں کے دس سے بارہ ہزار پیکٹ آیا کرتے تھے۔ عموماً ایک خاندان ایک پیکٹ ریشم کے کیڑے پالتا گندم کی بوائی سے فارغ کاشتکاروں کے لئے ڈیڑھ مہینے کا یہ کام ایک کمیٹی جیسا تھا۔ اتنے پیسے منافع مل جایا کرتا کہ گھر کا نیا کمرہ تعمیر ہو جاتا۔ ایک بھینس نئی خرید لی جاتی۔ بیٹی کے لئے تھوڑا بہت زیور بنوا لیا جاتا یا قرض چکا دیا جاتا۔ میں نے پوچھا 2008ء میں شہباز شریف وزیر اعلیٰ بنے اس کے بعد کتنے پیکٹ آنے لگے۔ اس نے بتایا کہ اس سال 200پیکٹ آئے ہیں۔ ہم جنگل سے نکلے تو رائو افضل ہمیں ریشم کے کوئے سے ریشم الگ کرنے والی بھٹی پر لے گیا۔ دو کاریگر کھولتے پانی میں کوئے ڈال کر ان سے ریشم کے تار پھرکیوں سے گزار کر ایک چرخے پر لئے جا رہے تھے۔ بتایا گیا کہ پورے قصبے میں دو سو بھٹیاں ہوا کرتی تھیں جن پر ایک ہزار لوگ کام کرتے۔ اب صرف تین بھٹیاں چالو ہیں۔ جہاں ہم کھڑے تھے وہاں دو بھٹیاں تھیں جبکہ ایک بھٹی کسی دوسری جگہ پر تھی۔ چھانگا مانگا میں توت کے درخت 1854ء میں انگریز حکومت نے لگوائے۔ یہ علاقہ پچھلے ایک سو سال سے ریشم اور ہلدی کا بڑا مرکز رہا ہے۔ کئی عشروں سے وزیر ریلوے شیخ رشید کا خاندان یہاں ریشم کی صنعت کا سرپرست تھا۔ پھر یہاں دوبارہ ن لیگ کی حکومت آئی تو کاروبار کے حالات بگڑ گئے۔ افغانستان اور وسط ایشیا سے خام ریشم سستا ملنے کی وجہ سے پاکستان میں اس کی صنعت دم توڑنے لگی۔ ایک ایسا قصبہ جہاں کے لوگوں کی خوشحالی ریشم کے کیڑے پالنے اور ریشم کی فروخت پر تھی وہاں غیر معیاری انڈوں کی درآمد کے باعث کیڑے مرنے لگے۔ لوگوں نے دو چار سال خسارہ اٹھانے کے بعد کیڑوں کی افزائش روک دی۔ اب جنگل میں لگے توت کے درخت مقامی سیاستدانوں کا ہدف تھے۔ سینکڑوں اور ہزاروں درخت کاٹ کر ایندھن بنا دیے گئے۔ پاکستان میں شیخ رشید کی شہرت کے حوالے عوامی مقامات پر کھانا پینا‘ ریلوے ‘ ثقافت‘ میڈیا اور سیاسی گپ بازی ہے۔ وہ ہر بات ایسے یقینی لہجے میں کرتے ہیں کہ لگتا ہے ابھی سب کچھ ویسا ہی ہو جائے گا جیسا شیخ جی فرما رہے ہیں۔ کئی سال تک اقتدار اور اختیار سے دور رہنے کے بعد شیخ رشید پھر سے وزارت پر فائز ہو چکے ہیں مجھے معلوم ہے کہ عمران خان کے رفقا میں سے شیخ رشید کے سوا کوئی ریشم کی صنعت اور اس کے معاشی دائرے سے واقف نہیں۔ چھانگا مانگا کے لوگوں کا خیال ہے کہ شیخ رشید کو ان کی مدد کرنا چاہیے۔ معیاری بیج کی درآمد‘ جنگل میں توت کے درختوں کی افزائش‘ پتے توڑنے کے لائسنس میں سہولت اور ریشم کے کارخانوں اور بھٹیوں کو چالو کرنا شیخ رشید کی ذمہ داری ہے۔ صدیوں تک ہمارے کسانوں کے پاس نقدی نہیں رہی۔ فصل تیارہوتی تو کچھ لڑائی جھگڑوں پر خرچ ہو جاتی۔ کچھ میلوں ٹھیلوں میں کام آتی اور باقی سال بھر کی ضروریات کے لئے گھر کے بھڑولوں میں ذخیرہ کر لی جاتی۔ اس وقت گھر کی مالیاتی ضرورتیں کم ہوتیں۔ کسان کو اگر کبھی پیسے کی ضرورت پڑتی تو گھر کی مرغیاں‘ بھیڑ بکریاں‘ گھوڑے ‘ بھینسیں فروخت کر دیتا۔ کھیتوں میں صرف غلہ نہیں اگایا جاتا بلکہ کچھ پھلوں کے باغات بھی متبادل ذریعہ آمدن کے طور پر موجود ہوتے۔ یوں روپیہ جمع نہ ہونے کے باوجود کسان خوشحال تھا۔ شہری زندگی دیہی معیشت سے مختلف ہے۔ شہر میں پیداوار کی جگہ خدمات سے روپیہ کمایا جاتا۔ آٹھ گھنٹے کی ملازمت میں گھر نہیں چلتا تو چار گھنٹے کہیں پارٹ ٹائم کام کر لیا۔ شہروں میں وقت اسی لئے کمیاب ہے کہ یہ بکتا ہے۔ دہشت گردی اور سابق حکومتوں کی کھوکھلی پالیسیوں کے باعث شہری معیشت کو دیہی معیشت سے ہم آہنگ نہیں کیا گیا۔ گویا شہر اور دیہات نے ایک دوسرے کا ہاتھ نہیں پکڑا۔ دونوں میں تال میل ہوتا تو چھانگا مانگا سے جمع کیا گیا ریشم 80کلو میٹر دور لاہور کے کارخانوں میں کپڑا بن رہا ہوتا۔ کئی سال پہلے میں نے سمیڈا کے لئے 100 کے قریب چھوٹے کارباروں کی فزیبلٹی رپورٹیں ترجمہ کی تھیں۔ چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار کے لئے بینک ایس ایم ای کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔ بہت سی این جی اوز نے ایس ایم ای سیکٹر کی ترقی کے لئے کام کیا ہے۔ بنگلہ دیش کے نوبل انعام یافتہ محمد یونس اور ہمارے ڈاکٹر امجد ثاقب نے ایس ایم ای سیکٹر کو مالیاتی مدد دینے کے لئے بہت کام کیا ہے۔ ہمارے ہاں پیشہ ورانہ تعلیم کے اداروں نے ہنر سکھانے کے دوران وظیفہ دینا شروع کیا۔ پھر تربیت یافتہ افراد کو اپنا کام شروع کرنے کے لئے چھوٹے چھوٹے قرض دیے جاتے ہیں۔ پاکستان کے شہری سماج نے روائتی طور پر ’’چھوٹا‘‘ اور ’’استاد‘‘ پیدا کئے ہیں۔ غریب اور محروم خاندانوں کے بچے کم سنی میں کوئی ہنر سیکھنے لگتے ہیں اور پھر اپنے کام میں ماہر ہو جاتے ہیں۔ ان کے ہنر کو ریاست نے کبھی ڈگریوں اور سندوں کی سطح پر تسلیم نہیں کیا۔ ایسے ہنر مندوں کو معمولی سی مزید تربیت دے کر چھوٹے کارخانوں کا سلسلہ شروع کیا جا سکتا ہے۔ کوئی کرنا چاہے تو کرنے کے سینکڑوں کام ہیں۔ وزیر اعظم نے مرغی پال اور کٹا پال سکیم کا ذکر کر کے مائیکرو فنانس کی دیہی شکل زندہ کرنے کا منصوبہ دیا ہے۔ ایس ایم ای سیکٹر کو فعال کر دیا گیا تو پاکستان میں مڈل کلاس کا حجم بڑھے گا۔ غربت میں کمی لانے کے لئے یہ منصوبہ اچھے نتائج دے سکتا ہے۔