اسلام آباد(خبر نگار) سپریم کورٹ نے پنجاب کے ٹریفک وارڈنز کی اضافی بنیادی تنخواہ اور الائونس کیس میں سیکرٹری وزارت خزانہ پنجاب پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے انہیں ذاتی حیثیت میں طلب کر لیا ۔ کیس کی سماعت قائم مقام چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں3 رکنی بنچ نے کی۔ تحریری جواب پر سیکرٹری خزانہ کے دستخط نہ ہونے پر جسٹس گلزار احمد نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کیوں نہ دستخط کرنے والے جونیئر افسر کو توہین عدالت کا نوٹس دیکر جیل بھیج دیں۔ انہوں نے کہا چیف ٹریفک آفیسر نے ٹریفک وارڈنز کی مراعات کو عدالت میں تسلیم کیا ،اس مد میں 50 ارب کی ادائیگیاں کون کریگا؟ سرکار کو یہ پیسے دینے نہیں ہو نگے کیایا چیف ٹریفک آفیسر اپنی جیب سے د یگا ؟پنجاب حکومت کے وکیل نے کہا سی ٹی او نے عدالت میں جواب آئی جی کی رضامندی کے بغیر جمع کرایا، ٹریفک وارڈنز کی مراعات کے معاملہ کا کابینہ کی سپیشل کمیٹی میں جائزہ لیا جائیگا۔ مختصر سماعت کے بعد عدالت نے آئی جی پنجاب کو ہدایت کی کہ سی ٹی او طیب حافظ چیمہ کیخلاف کریمنل انکوائری کر کے رپورٹ پیش کرے اورطیب حافظ چیمہ بھی آئندہ سماعت پر پیش ہوں ۔عدالت نے وزارت خزانہ پنجاب کے ادارہ جاتی معاملات پر چیف سیکرٹری سے رپورٹ طلب کرتے ہوئے سماعت 4 ہفتوں کیلئے ملتوی کردی ۔ جسٹس شیخ عظمت سعیدکی سربراہی میں3 رکنی بینچ نے 731.28 ایکٹر سرکاری اراضی ڈی ایچ اے کو منتقل کرنے کے کیس میں 18 نامزد ملزمان کی ضمانتوں کی درخواستوں پر سماعت کی تو جسٹس شیخ عظمت سعید کا کہنا تھا کہ حالات بہت خراب ہیں مال غنیمت او ر مال مادر وطن میں فرق کرنا ہوگا ۔جسٹس سجاد علی شاہ نے سوال اٹھایا کہ سرکاری اراضی ڈی ایچ اے کو کیسے منتقل ہوئی؟ ریونیو افسران کے وکیل نے بتایا کہ ریونیو افسران نے صرف تصدیق کی۔نیب کی جانب سے ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل نیئر رضوی نے بتایا کہ ریونیو افسران نے اراضی منتقل کی جو کہ ہائی وے کی تھی ، جعلی زمین مالکان نے قومی خزانے کو 2 اعشاریہ 84 ارب کا نقصان پہنچایا، 18 نامزد ملزمان ہیں جبکہ ایک ملزم نے پلی پارگین کی درخواست دی ہے ۔ عدالت نے دیگر ملزمان کو بھی پلی بارگین کیلئے مہلت دیتے ہوئے سماعت عید کے بعد تک ملتوی کردی۔