پاکستان ریلوے کا پورا نظام بوسیدہ اور ناکارہ ہوچکا ہے جسے بہتر بنانے کیلیے عرصۂ دراز سے ضروری سرمایہ کاری نہیں کی گئی۔ ریلوے کا ادارہ بدانتظامی ‘ عملہ کی کام چوری اور کرپشن کا شکار ہے جو ہر سرکاری محکمہ کا طرۂ امتیاز ہے۔ یہ باتیں کئی دہائیوں سے ہر کسی کو معلوم ہیں اور بار بار دہرائی جاتی ہیں لیکن کوئی حکومت ان پر کان دھرنے کو تیار نہیں۔ جب ریل گاڑی کاکوئی بڑا حادثہ ہوجاتا ہے‘ حکومت کے اعلیٰ عہدیدار چند دنوں تک افسوس اور دُکھ کے بیانات جاری کرتے ہیں ۔ اسکے بعد ریلوے کا لُولا لنگڑا نظام اپنی پرانی ڈگر پرگھسٹ گھسٹ کر چلتا رہتا ہے حتیٰ کہ کچھ عرصہ بعد ایک نیا جان لیوا حادثہ رُونما ہوجاتا ہے۔اگلے روز گھوٹکی میں دو ریل گاڑیوں کے تصادم میں باون سے زیادہ جانیں چلی گئیں۔درجنوں مسافر زخمی ہوئے۔ ایک بار پھر میڈیا میں ہاہاکار مچی ہوئی ہے۔لیکن چند دنوں بعد بھول جائیں گے۔حکومت لواحقین کودس پندرہ لاکھ روپے ادا کرکے یہ سمجھتی ہے کہ اس نے اپنا فرض ادا کردیا۔ وہ اس خراب نظام کو ٹھیک کرنے کا بندوبست نہیں کرتی جس کے باعث ریل گاڑیوں کے حادثات تواتر سے ہورہے ہیں ۔گزشتہ چند دہائیوں میں ہزاروں معصوم افراد ٹرین حادثات کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ریل گاڑیاں آپس میں ٹکراجاتی ہیں۔ پٹری سے اتر جاتی ہیں۔ ان میں آگ لگ جاتی ہے۔ کھلے پھاٹکوں پرگاڑیوں‘ بسوں اور رکشوں سے ٹکرا جاتی ہیں۔ دنیا میں ریل گاڑی محفوظ ترین ذریعۂ سفر سمجھا جاتا ہے لیکن ہمارے ملک میں یہ انتہائی غیر محفوظ سواری بن چکی ہے۔ فوجی حکومت ہو یا کوئی سویلین حکومت ہر دور میں خوفناک ریل حادثات ہوئے ہیں۔ جو بھی سیاسی جماعتیں اقتدار میں رہیں وہ سب موجودہ صورتحال کی ذمہ دار ہیں۔ ریل گاڑیوں کے بڑھتے ہوئے حادثات کی ایک بڑی وجہ تو یہ ہے کہ گزشتہ ساٹھ ستّربرسوں میں ہر حکومت نے ریلوے کو نظر انداز کرکے سڑکوں کی تعمیر پر اپنی توجہ مرکوز رکھی۔ ریلوے کے نظام میںبہت کم سرمایہ لگایا ۔ انگریز کے بنائے ہوئے ریلوے کے نظام کی مناسب دیکھ بھال نہیں کی ۔آج سے پینتالیس سال پہلے جب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹوکی حکومت تھی تو انکے وزیرغلام مصطفی جتوئی نے قومی اسمبلی میں ریلوے کی حالتِ زار پر ایک طویل تقریر کی تھی جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ریلوے میں سرمایہ کاری نہ ہونے کے باعث یہ ناکارہ ہوچکی ہے۔ مصطفیٰ جتوئی نے جونقشہ کھینچا تھا آج تک کم و بیش وہی صورتحال ہے۔ کسی حکومت نے ریلوے کے فرسودہ ڈھانچہ کو بہتر بنانے پر توجہ نہیں دی۔ چھوٹے موٹے کام کیے گئے لیکن اسکو مکمل طور پر اوور ہال نہیں کیا گیا۔حقیقت یہ ہے کہ اسوقت ریلوے کا ٹریک اور سگنل نظام اس قدر خراب حالت میں ہیں کہ اصولی طور پر کوئی مسافر ٹرین سفر کیلیے محفوظ نہیں۔ گزشتہ تیس برسوں میں وفاقی حکومت ملک بھر میں موٹرویز بنانے میں ایک ہزار ارب روپے سے زیادہ خرچ کرچکی ہے۔ اگر اسکی نصف رقم بھی ریلوے کی تجدید میں لگائی جاتی تو ملک کو زیادہ معاشی فائدہ ہوتا۔ ہر برس چار سے پانچ کروڑ لوگ ریل گاڑیوں سے سفر کرتے ہیںاور لاکھوں ٹن سامان سڑک کے راستے کی نسبت مال گاڑیوں سے بہت کم نرخوںپر ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا جاتا ہے۔کارگو کے لیے ریل گاڑی سستا ترین وسیلہ ہے لیکن ہرحکومت نے سڑکوں کو اس پر ترجیح دی۔لاہور اورنج ٹرین پر تین سو ارب روپے خرچ کردیے گئے ۔تقریباً اتنی رقم سے کراچی سے پشاور تک کا نیا ریل ٹریک بچھایا جاسکتا تھا۔ اورنج ٹرین کی نسبت معیشت اور عوام الناس کو اس سرمایہ کاری سے زیادہ فائدہ ہوتا۔حکمرانوں کی غلط ترجیحات نے اس ملک کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ ریل گاڑیوں کے بہت سے حادثات سگنل نظام کے فرسودہ اور ناکارہ ہونے کے باعث ہوتے ہیں۔ گھوٹکی کے المناک واقعہ میں ایک ٹرین کی بوگیاں پٹری سے اتر کر ساتھ والی پٹری پر چڑھ گئیں۔ چند منٹ بعد دوسری ٹرین وہاں سے گزری تو پٹری سے اترے ہوئے ڈبّوں سے جاٹکرائیں۔ اگرجدید سگنل کا نظام ہوتا تو دوسری ٹرین کو فوراً اطلاع ہوجاتی ۔ اسے روک دیا جاتا۔ یہ تصادم نہ ہوتا۔ ریلوے کو جدید ترین الیکٹرانک سگنل نظام کی ضرورت ہے جو بہت مہنگا ہے۔ اگرموجودہ حکومت ملتان سے سکھر تک موٹر وے بنانے کے لیے ایک سو ارب روپے جاری کرسکتی ہے تو ریلوے کیلیے کیوں نہیں؟ بہت عرصہ سے شور مچا ہوا ہے کہ چین سے تقریباًسات ارب ڈالر قرض لیکر ریلوے کو مکمل طور پر جدید خطوط پر استوار کیا جائے گا ۔ اس منصوبہ کا نام’ ایم ایل ون‘ ہے۔ لیکن اب یہ خبریں گردش کررہی ہیں کہ چین اس منصوبہ کیلیے رقم دینے سے گریزاں ہے کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ پاکستان پہلے ہی اتنے بیرونی قرضے حاصل کر چکا ہے کہ نئے قرضہ کی واپسی اسکے لیے مشکل ہوگی۔ اگر ایسا ہے تو جب تک ایم ایل ون منصوبہ شروع نہیں ہوتا تو حکومت کو موجودہ نظام کو ٹھیک کرنے کے لیے ضروری کام تو کرنے چاہئیں۔ بڑے منصوبے کے انتظار میں موجودہ ڈھانچہ کی مرمت نہ کرنا اور لوگوں کی زندگی خطرہ میں ڈالنا دانشمندی نہیں۔ گزشتہ دس برسوں میں ریل گاڑیوں کے زیادہ تر حادثات رحیم یار خان او ر کراچی کے درمیان ہوئے۔ ریلوے کے افسران کے مطابق یہاں پر ٹریک خستہ حالت میں ہے۔ عملہ کی غفلت کے بھی مسائل ہیں۔ ایک غیر محفوظ پٹری پر مسافر ٹرین چلانا لوگوں کی جان سے کھیلنے کے مترادف ہے۔ ان معاملات کو حکومت آخر کب درست کرے گی؟ اب نیا وفاقی بجٹ آنے والا ہے ۔ اس میں ریلوے ٹریک کو بہتر بنانے کیلیے فنڈز مختص کیے جائیں۔ تاہم ریلوے کے ڈھانچہ کو بہتر بنانے سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ سرکار کے زیر سایہ چلنے والے کسی ادارہ کا حال اچھا نہیں۔ قومی ائیر لائن پی آئی اے کا خسارہ ساڑھے تین سو ارب روپے سے بڑھ چکا ہے۔ اسکی سروس کاخراب معیار بھی سب کے سامنے ہے۔ بجلی فراہم کرنے والی سرکاری کمپنیوں (ڈسکوز) میںتیس سے چالیس فیصد بجلی چوری ہوجاتی ہے جسکا خمیازہ گردشی قرضوںاور مہنگی بجلی کی صورت میں عوام کو بھگتنا پڑتا ہے۔ مالی بددیانتی ہمارے ملک میں طرز زندگی بن چکی ہے۔ ان حالات میں اس بات کا امکان کم ہے کہ ریلوے کے انتظام میں حکومت کی زیر نگرانی بہتری آسکے۔ اچھا یہی ہے کہ ریلوے کی مکمل نہ سہی جزوی نجکاری کردی جائے۔ جو کثیر سرمایہ ہرسال حکومت ریلوے کے خسارہ کو پورا کرنے میں لگاتی ہے وہ اسکے انفراسٹرکچر کو بہتر بنانے میں خرچ کرے اور نجی کمپنیوں سے ٹریک ‘ سگنل سسٹم‘ ویگنوں (ڈبوں) اور دیگر سہولتوں کو استعمال کرنے کا کرایہ وصول کرے۔