سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں از خود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران پاکستان ریلویز سے متعلق فرانزک آڈٹ رپورٹ پیش کر دی گئی‘ جس میں ریلوے کا خسارہ 40ارب روپے بتایا گیا ہے۔ اس موقع چیف جسٹس صاحب نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ اگر ادارے نہیں چل رہے تو سمجھ سے بالا ہے کہ ملک کیسے چل رہا ہے‘ سماعت کے دوران پاکستان ریلوے کے آڈٹ افسر کی جانب سے اس امر کا اعتراف کیا گیا کہ گزشتہ پانچ سال میں ریلوے کے خسارے کو دور کرنے کی کوشش نہیں کی گئی‘ حقیقت یہی ہے کہ قیام پاکستان کے بعد سے70ء کے عشرے تک پاکستان ریلوے انتہائی منافع بخش ادارہ رہا‘ بعد میں آنے والی حکومتوں نے نہ صرف اسے دونوں ہاتھوں سے لوٹا بلکہ بڑے پیمانے پر اقربا پروری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس میں بڑے پیمانے پر بھرتیاں کی گئیں‘ اس کی نفری میں تو اضافہ ہوتا رہا لیکن ریلوے رجعت قہقری کی طرف سفر کرتا رہا۔ اس دوران ریلوے اراضی اور پراپرٹیز پر بھی ہاتھ صاف کئے گئے۔ نتیجتاً ادارہ دن بدن زوال پذیری کا شکار ہوا۔ لیگی حکومت نے بھی گزشتہ پانچ سال کے دوران اس کے خسارے کو دور کرنے کی کوشش نہیںکی‘ چیف جسٹس کا دوران سماعت سابق وزیر ریلوے سعد رفیق کا نام لیے بغیر یہ استفسار کرنا بالکل بجا تھا کہ چنے والا کدھر ہے‘ ؟سابق وزیر ریلوے اپنی حکومت کی حمایت میں اعلیٰ عدلیہ کے معزز جج صاحبان کو لوہے کے چنے چبوانے کی بات کر تے رہے لیکن انہوں نے اپنے محکمہ کے اربوں روپے کے خسارے کو کم کرنے کی طرف توجہ نہیں کی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ عدالت میں پیش کردہ آڈٹ رپورٹ کو بنیاد بنا کر اس معاملہ کی بھر پور تحقیقات کی جائیں اور جو افسر اس خسارے کے ذمہ دار ہیں ان کے خلاف کارروائی کی جائے اور انہیں سزائوں کے عمل سے گزارا جائے۔ آنے والی حکومت کو چاہیے کہ وہ پاکستان ریلوے کی طرف خصوصی توجہ دے اور اس کے خسارے کو منافع میں بدلنے کے لیے نیا لائحہ عمل تیار کرے۔