وزارت ریلوے کے فنانس ممبر نے سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے ریلویز کو بتایا ہے کہ ریلوے کی روزانہ آمدنی اور اخراجات میں 2کروڑ کا فرق ہے۔ کرپشن بدعنوانی اور حکام کی لاپروائی نے پاکستان ریلویز کو تباہی کے دھانے پر لا کھڑا کیا ہے۔ ہر دور میں ریلوے میں انقلابی تبدیلیوں کے دعوے تو کئے جاتے رہے مگر نظام جوں کا توں رہا۔ ماضی کی حکومتوںکی طرف سے قومی ادارے کی بہتری کے لئے ہر سال 38 سے 42 ارب روپے سالانہ بیل آئوٹ پیکیج دیا جاتا رہا مگر حکومتی بیل آئوٹ پیکیج کی خطیر رقوم ملازمین کی تنخواہوں کی ادائیگی اور نئے ملازمین کی فوج ظفر موج بھرتی کرنے پر اڑائی جاتی رہیں اس بندربانٹ کے نتیجے میں ریلوے کا انفراسٹرکچر تباہ ہوتا گیا۔ گزشتہ ایک سال میں ریکارڈ 80 ٹرین حادثات ہوئے ہیں ۔ ریلوے حکام حادثات کی وجہ بوسیدہ ٹریک بتا کر بری الذمہ ہو جاتے ہیںمگر ماضی کی حکومتوں نے اور نا ہی موجودہ حکومت نے انفراسٹرکچرکی بہتری کی طرف توجہ دی۔ موجودہ وزیر برائے ریلوے کی تمام تر توجہ بنیادی ڈھانچے میں بہتری کے بجائے نئی ٹرینیں چلانے پر مرکوز ہے۔نئے روٹس کی وجہ سے ٹرینوں کا شیڈول بری طرح متاثر ہو چکا ہے جس کے باعث عوام کا ریلوے پر اعتماد بری طرح متاثر ہورہا ہے۔ بہتر ہو گا حکومت وسائل کو نئے ملازمین بھرتی کرنے اور افسروں کے اللوں تللوں پر ضائع کرنے کے بجائے ریلوے ٹریک اور سگنل سسٹم کو جدید خطوط پر استوار کرنے پر صرف کرے تاکہ ریلوے نظام میں بہتری لا کر تباہی کی طرف گامزن ادارے کو بحال اور خسارے سے بچایا جا سکے۔