امریکہ اور یورپ نے یوکرین پر رُوس کی فوج کشی کی راہ ہموارکی اور جب جنگ چھڑ گئی تو بی جمالو کی طرح خود باہر سے بیٹھ کر تماشا دیکھ رہے ہیں۔ کئی برسوں تک ماسکو مطالبہ کرتا رہا کہ مغرب اسے ضمانت دے کہ اسکے ہمسایہ ملک یوکرین کو نیٹو کے فوجی اتحاد میںشامل نہیں کریگا۔ لیکن ان ممالک نے یہ گارنٹی نہیں دی۔ امریکہ نے اپنے تزویراتی مقاصد کی خاطریوکرین کی سوا چار کروڑ آبادی کوتباہ و برباد ہونے کیلئے روس کے سامنے پھینک دیا۔ تین ہفتوں کی جنگ کے بعد سولہ لاکھ یوکرینی ملک سے مہاجر ہوچکے۔ ان کی تعداد میںروز بروزاضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ملک کے انفراسٹرکچر کی تباہی اور ہلاکتیں اسکے سوا ہیں۔ امریکہ نے دنیا پراپنا غلبہ اور برتری قائم رکھنے کیلئے رُوس کو مجبور کیا ہے کہ وہ یوکرین پر حملہ کرے۔ براعظم یورپ کو غیرمستحکم کرکے امریکہ نے ایک بار پھر باور کروادیا کہ اسے اپنی سلامتی کی خاطر امریکہ کی عسکری چھتری درکار ہے۔ امریکہ اور یورپ جنہوں نے یوکرین کو تھپکی دیکر اس جنگ میں دھکیلا لیکن اس کی عملی عسکری مدد کرنے کو تیار نہیں۔ امریکی صدر کا کہنا ہے کہ اگر امریکہ نے فوجی مدد کی تو تیسری جنگ عظیم چھڑ جائے گی۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل یوکرین پر کوئی قرارداد منظور کرنے کی پوزیشن میں نہیں کیونکہ ماسکو کو ویٹو کا حق حاصل ہے۔مغربی ممالک کو پہلے سے معلوم تھا کہ یوکرین کے معاملہ پر ان کی کیا مجبوریاں ہیں۔ وہ کس حد تک یوکرین کی مدد کرسکتے ہیں۔ وہ ماسکو کا جائز مطالبہ مان لیتے تویہ جنگ شروع ہی نہ ہوتی لیکن امریکہ اور یورپ نے جان بوجھ کر روس کو اشتعال دلایا۔ مقصد یہ تھا کہ روس جارح ملک ہونے کے باعث عالمی برادری سے کٹ جائے۔ اس پر سخت معاشی پابندیاں عائد کی جاسکیں ۔اس کے اسلحہ اور جنگی ہتھیاروں کا ذخیرہ کم ہوجائے۔ معاشی پابندیوں کے باعث اس کی عسکری صلاحیت کمزورہو۔ اسکے معاشی مسائل اتنے سنگین ہوجائیں کہ روسی عوام صدر پیوٹن کے خلاف سڑکوں پر نکل آئیں۔پیوٹن کے مخالف ‘ امریکہ نواز سیاستدانوں بالخصوص نوالنی کو حکومت سنبھالنے کا موقع ملے جیسے ماضی میں صدر یلسن تھا۔امریکہ کی دیرینہ خواہش ہے کہ ماسکو میں مغرب نواز حکومت بنے جو امریکہ اوریورپ کیساتھ مل کر چین کے مدمقابل آجائے۔روس آبادی اور رقبہ کے اعتبار سے یورپ کا سب سے بڑا ملک ہے ۔ تیل اور قدرتی گیس سے مالا مال ہے جو چین کی بڑھتی ہوئی توانائی کی ضروریات پوری کرسکتا ہے۔فوجی ٹیکنالوجی میں یہ امریکہ کا ہمسر ہے۔ اس کے میزائیل ‘جنگی طیارے ‘ ہیلی کاپٹر اور خلائی پروگرام امریکہ کے ہم پلہ ہیں۔ چین ملٹری ٹیکنالوجی اور ایران ایٹمی پروگرام میں ماسکو کی مدد سے آگے بڑھے۔صدر پیوٹن روسی قوم پرست ہیں جوکمیونسٹ سوویت یونین کے زمانے کے رُوس کی شان و شوکت اورخود مختار حیثیت بحال کرنے میں یقین رکھتے ہیں۔ انہوں نے امریکہ کے جونیئر پارٹنر بننے سے انکار کیا اور چین کے ساتھ قریبی تعلقات استوار کیے۔ کریملن کے حکمرانوں کو معلوم تھا کہ وہ یوکرین پر جنگ کریں یا نہ کریں ان کے ملک کا گھیراؤ کیا جارہا ہے۔ شمال میں ہمسایہ ملک فن لینڈ کو امریکہ جدید ترین اسٹیلتھ جنگی طیاروں ایف پینتیس فراہم کررہا ہے۔یوکرین کو مسلسل جدید ہتھیار اور اسلحہ فراہم کیا گیا۔ اگر روس حملہ کرنے میں دیر کرتا تو چند روز بعد یوکرینی صدر زیلنسکی مشرقی یوکرین کے علاقہ دونباس میں روسی نژاد آبادی پر بڑا فوجی آپریشن کرنے جارہے تھے۔ مشرقی یوکرین میں روس سے ملحق علاقہ میں امریکہ نے جراثیم پر تحقیق کے لیے تجربہ گاہیں قائم کررکھی تھیںجن کے بارے میںماسکو کا دعویٰ ہے کہ وہاںممنوعہ حیاتیاتی جراثیم تیار کیے جارہے تھے۔ کریملن کو اندازہ تھا کہ وہ یوکرین پرفوج کشی نہ کرے تب بھی امریکہ اور اسکے اتحادی ممالک کسی نہ کسی بہانہ رُوس پر سخت معاشی پابندیاں لگانے والے ہیں جیسے کریمیا کی آزادی کے بعد جزوی پابندیاں لگائی گئیں تھیں۔اس لیے انہوں نے بہتر جانا کہ یوکرین کو اپنے لیے محفوظ بنایا جائے۔ تاکہ اس طرف سے کوئی فوجی خطرہ نہ ہو۔ یوکرین جنگ کے بعد امریکہ نے رُوس پر سخت معاشی پابندیاں لگانے پر اکتفا کیا کیونکہ عسکری صلاحیت کے اعتبار سے امریکہ کے پاس ایسا کوئی ہتھیار نہیںجوماسکو کے پاس نہ ہو۔ بلکہ چین‘ پاکستان‘ ایران اور شمالی کوریا کے پاس بھی ایسے ہتھیارہیں کہ کوئی ملک مکمل تباہی کو دعوت دیے بغیر ان پر حملہ نہیں کرسکتا۔معاشی پیداوار میں چین اور یورپ امریکہ کے ہمسر ہیں۔ انکل سام کو دنیا کے باقی ممالک پرصرف ایک برتری حاصل ہے وہ ہے عالمی مالیاتی نظام پر کنٹرول۔ کیونکہ امریکی ڈالر سونے کی جگہ عالمی کرنسی کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔اسکے بینک دنیا بھر کے بینکوں کا نظام کنٹرول کرتے ہیں۔اب امریکہ اسی ہتھیار کا بے دریغ استعمال کررہا ہے۔ امریکہ نے روس کو عالمی بینکنگ نظام سے کاٹ دیاہے۔اسکی بین الاقوامی تجارت کو بلاک کردیاہے۔اس کے نتیجہ میں رُوس کا چین پر انحصار بڑھ گیا ہے۔اس کے بینک چینی کرنسی میں اکاونٹ کھول رہے ہیں۔ماسکو امریکی ڈالر کی بجائے چینی کرنسی میں تجارت کی حوصلہ افزائی کررہا ہے۔ دنیاکے دیگر ممالک کو بھی پتہ چل گیا ہے کہ امریکی بینکنگ نظام پر کلی انحصار کرنا خطرناک ہے۔ وہ کسی وقت پابندیاں لگا کر ان کا گلا گھونٹ سکتا ہے۔ اب چین کا متبادل بینکنگ نظام زیادہ تیزی سے فروغ پائے گا۔ واشنگٹن نے دھمکی دی ہے کہ جو چینی کمپنیاں رُوسی اداروں سے کاروبار کریں گی اُن پر پابندیاں عائد کی جاسکتی ہیں۔واشنگٹن میں پاکستان پر بھی معاشی پابندیاں لگانے کی مہم چل رہی ہے۔اس مقصد کی خاطر ایک بل بھی امریکی کانگریس میں پیش کردیاگیا ہے۔روس کا مکمل بائیکاٹ کرکے امریکہ دنیا پر اپنا غلبہ قائم رکھنے کی آخری جنگ لڑ رہا ہے۔ اگرماسکو امریکی پابندیوں کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوگیا تو امریکی سامراج کو نئی زندگی مل جائے گی۔لیکن اگر کریملن کے حکمران معاشی سختیاں برداشت کر کے استقامت سے کھڑے رہے تو دنیا میں دو بڑے بلاک بن جائیں گے۔ ایک طرف امریکہ اور دوسری طرف رُوس اور چین کا اتحاد۔