لاہور سے کوئٹہ جانے والی اکبر ایکسپریس صادق آباد کے قریب دلہار سٹیشن سے ٹکرانے کے نتیجے میں متعدد ہلاک جبکہ 100سے زائد زخمی ہو گئے ہیں۔ اگست 2018ء سے جولائی 2019ء تک ٹرینوں کے چھوٹے بڑے79حادثات میں بھاری جانی اور مالی نقصان ہوا ہے ۔ ہر حادثے کے بعد ریلوے کے وزیر شیخ رشید میڈیا پر ذمہ داری قبول کرنے کے ساتھ عہدہ سنبھالنے کے بعد ریلوے میں بہتری کے لئے کئے گئے اقدامات گنوانا شروع کر دیتے ہیں۔ 24نئی ٹرینیں چلانے، خسارے میں 4ارب کمی اور مسافروں کی تعداد بڑھانے کے دعوے تو کئے جاتے ہیں مگر حادثات کی وجوہات کی تحقیقات اور اس کے نتیجے میں ریلوے نظام میں بہتری کے لئے اقدامات سے مسلسل غفلت برتی رہی ہے۔ ناقدین آئے روز کے حادثات کی کڑیاں بھی سیاسی مخاصمت سے جوڑ رہے ہیں کہ وفاقی وزیر نے سیاسی وجوہ کی بنا پر ریلوے کا نظام جونیئر اور ناتجربہ کار لوگوں کے سپرد کر رکھا ہے اسی طرح ایک تاثر نئی حکومت کو ناکام کرنے کے حوالے سے بھی موجود ہے۔ تکنیکی طور پر حادثات کی وجہ ریلوے ٹریکس کا بوسیدہ ہونا اور انتظامی غفلت بتائی جاتی ہے۔ وجوہات جو بھی ہوں اس سے مفرممکن نہیں کہ تحریک انصاف کے دور میں ٹرین حادثات میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ بہتر ہو گا حکومت بالخصوص وزیر ریلوے نئی ٹرینیں چلانے اور بلند و بانگ دعوئوں کے بجائے ریلوے ٹریک کی مرمت اور سگنل سسٹم میں بہتری پر توجہ دیں تاکہ نظام میں بہتری لا کر حادثات میں بے گناہ جانوں کے ضیاع سے بچا جا سکے۔