ہمیں گزشتہ ستر سال سے معاشرتی علوم کی درسی کتابوں‘ سیکولر ‘ لبرل اور ترقی پسند دانشوروں کی مرتب کردہ تاریخوں سے یہ سب پڑھایا جاتا رہا ہے کہ پاکستان دراصل پانچ اکائیوں‘ بنگال‘ سندھ‘ پنجاب‘ اس دور کا برٹش بلوچستان اور اس دور کے شمال مغربی سرحدی صوبے نے مل کر بنایا ہے۔ یہ تاثر گزشتہ ستر سالوں میں اس لئے لوگوں کے ذہن میں کوٹ کوٹ کر بھرا گیا کہ کہیں پاکستان میں بسنے والے تحریک پاکستان کی اصل روح یعنی مسلمان ایک قوم یا ایک امت کو بھولے سے بھی یاد نہ کرلیں۔ کیا یہ پانچوں اکائیاں رنگ‘ نسل‘ زبان یا علاقے کی بنیاد پر وجود میں آئی تھیں؟ کیا یہ اکائیاں صدیوں سے ایسی تھیں؟ اور کیا ان اکائیوں نے رنگ‘ نسل یازبان کی بنیاد پر پاکستان میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا تھا؟ ان تین بنیادی سوالوں میں سے آخری سوال سب سے اہم ہے۔ پاکستان صرف اور صرف ایک فرق کی بنیاد پر وجود میں آیا تھا کہ بنگالی‘ سندھی‘ پنجابی‘ بلوچ اور پشتونوں میں کون ہے جو کلمہ طیبہ پڑھ کر خود کو مسلمان کہتا ہے اور کون ہے جو اس کلمے سے انکار کرتا ہے۔ جو کلمہ پڑھتا ہے اس کا وطن پاکستان ہے۔ سندھ نے سب سے پہلے پاکستان کی حمایت کا اعلان کیا تھا۔ یہ سندھیوں نے نہیں کلمہ گو سندھیوں نے کیا تھا۔ انہوں نے اپنے مسلمان ہونے کا پرچم اٹھایا تھا اور سندھی ہونے کا انکار کیا تھا۔ ورنہ آج بھی بھارت کے گجرات‘ مہاراشٹر‘ راجستھان اور مدھیہ پردیش میں 2001ء کی مردم شماری کے مطابق 25لاکھ 71ہزار 5سو 26سندھی آباد ہیں۔ اگر سندھی زبان ایک اکائی ہوتی تو وہ سندھی بھی آج پاکستان کا حصہ ہوتے۔ پنجاب نے تو سگے رشتہ داروں کو اپنے دیہاتوں اور شہروں سے نکال باہر کیا۔ چٹھہ قوم کے ایک دادا کی اولاد محمد حسین چٹھہ اور ارجن داس چٹھہ ایک ساتھ نہ رہ سکے۔ انہوں نے اعلان کر دیا کہ جو کلمہ گو نہیں ہے وہ میرا بھائی نہیں ہے۔ خواہ وہ ساگ اور مکئی کی روٹی میری طرح کھائے‘ہیرگائے اور بھنگڑا ڈالے۔ اس مملکت خداداد پاکستان میں صرف سیدالانبیاء ؐ کے ماننے والے پنجابی ہی ہوں گے۔ اگر پنجابی زبان ایک اکائی ہوتی تو اس وقت بھارت میں تقریباً تین کروڑ پنجابی بولنے والے آباد ہیں۔ سب سے اہم مثال تو بنگالیوں کی ہے۔ سب سے پہلے 16اکتوبر 1905ء میں مشرقی بنگال کے مسلمانوں نے مغربی بنگال کے ہندوئوں کی بالادستی اور استحصال کے خلاف علیحدگی اختیار کی۔ ایک نسل‘ ایک رنگ اور ایک زبان بولنے والے بنگالی اگرچہ 1905ء میں انتظامی بنیاد پر تقسیم ہوئے لیکن اصل میں وہ مذہبی بنیاد پر تقسیم کئے گئے تھے، یہی وجہ ہے کہ جب زبان اور نسل کی بنیاد پر بنگلہ دیش کی تحریک چلی تو 1971ء میں بھارت کے بنگالی ہندوئوں نے اپنے ان نسلی بنگالی بھائیوں کو ساتھ نہیں ملایا بلکہ بقول ہندو مت’’ملیچھ‘‘ مسلمانوں کا علیحدہ بنگلہ دیش بنا دیا گیا۔ بنگلہ دیش بننے نے ایک دفعہ پھر دو قومی نظریے کو زندہ کیا۔ بلوچ اور پشتونوں کا تو معاملہ ہی اور تھا۔ یہ تقریباً سوفیصد مسلمان تھے۔ لیکن ان کے پشتون اور بلوچ بھائی افغانستان اور ایران میں رہتے تھے۔ ان دونوں اقوام نے اپنی نسلی اکائی کے حق میں فیصلہ نہیں کیا بلکہ اس ملک کا پرچم اٹھایا جو کلمہ طیبہ کے نام پر وجود میں آ رہا تھا۔ اگلا سوال یہ ہے کہ موجودہ پاکستان کی یہ چار اکائیاں کیا کسی نسل یا زبان کی بنیاد پر وجود میں آئی تھیں۔ یہ چاروں لکیریں تو انگریز نے کھینچیں تھیں۔ بلوچستان میں واضح طور پر پشتون‘ بلوچ اور براہوی علاقوں کی تقسیم ہے اور تینوں اپنی اپنی قومیتوں کو ایک علیحدہ نسلی اکائی تصور کرتے ہیں۔ خیبر پختونخواہ میں ایک وسیع علاقہ ہند کو اور ہزارگی بولنے والوں کا ہے۔ پنجاب کا تو کیا کہنا‘ ڈیرہ غازی خان میں بلوچی‘ رحیم یار خان میں سندھی‘ ایک وسیع علاقے میں سرائیکی‘ ایک اور وسیع علاقے میں پوٹھو ہاری‘ یہ سب کے سب ایک اکائی کس نے بنائے؟ انگریز نے وہ بھی ایک انتظامی ضرورت کے تحت۔ سندھ کا عالم ذرا سا مختلف ہے۔ لیکن اب اگر کوئی سندھ میں موجود دوسری اقوام کو تسلیم نہیں کرے گا تو حقیقت سے انکار کرے گا، بالکل ویسے ہی جیسے آج سے ہزاروں سال پہلے ہندو کش کے راستے آریائی اقوام سندھ میں داخل ہوئیں۔ انہوں نے موہنجوداڑو کی تہذیب کو تباہ و برباد کر کے کھنڈرات میں تبدیل کیا اور آج وہ اور ان کے بعد آنے والوں کے ملاپ سے ایک سندھی زبان بولنے والی قوم تشکیل پا گئی ہے جو نسلی عرب بھی تھی‘ آریائی بھی اور بلوچ بھی۔ انگریز کی کھینچی ہوئی سندھ‘ پنجاب‘ بلوچستان اور صوبہ سرحد کی یہ لکیریں عوام کے لئے نہیں بلکہ ان طاقتور سیاسی طبقوں کے لئے مقدس ہیں جنہیں انگریز نے مراعات دے کر عوام پر مسلط کیا اور ان کی باقاعدہ ’’سلطنتیں‘‘"Constituencies"تخلیق کیں۔ جس کا دادا پنجاب کا 1900ء کے آغاز میں وزیر اعظم تھا یا جس کا دادا سندھ میں 1900ء میں وزیر اعلیٰ تھا وہ آج بھی سندھ اور پنجاب کی لکیر کو اپنی راجدھانی تصور کرتا ہے۔عام آدمی کے لئے ان لکیروں کی کوئی اہمیت نہیں۔ پشاور سے کراچی تک اور کوئٹہ سے گلگت تک پشتون اپنے ٹرک چلاتے ہیں اور جا بجا ہوٹل کھولتے ہیں۔ پنجاب کا کاشتکار سندھ کی منڈی میں سبزی بیچتا ہے اور سندھ کا کاشتکار پنجاب میں فصل لاتا ہے۔ لاہور اور کراچی دو ایسے شہر میں جہاں بڑے بڑے پلازوں اور شاپنگ مالز کے مالکان کی فہرست مرتب کی جائے تو ان میں سے اکثریت دوسرے صوبوں سے تعلق رکھتی ہے۔ لیکن ان صوبوں کو رنگ ‘ نسل اور زبان کی اکائی بنا کر پیش کرنے کا بنیادی مقصد ہی اس بالادست طبقے کی اس علاقائی حکمرانی کا تحفظ ہے جسے انگریز نے زمینیں ‘ جائیدادیں اور نوکریاں دے کر قائم کیا تھا۔ ان خاندانوں کی ایک طویل لسٹ ہے جنہیں انگریز نے بنایا‘ مسلط کیا اور وہ آج بھی مسلط ہیں۔ پاکستان کی اصل روح ان اکائیوں اور نسل‘ رنگ و زبان کی بنیاد پر تقسیم سے انکاری تھی‘ ورنہ یہ تمام اکائیاں اپنے ساتھ پنجابیوں‘ سندھیوں بلوچوں اور پشتونوں کو ملاتیں تو چار بہت بڑے ملک بن سکتے تھے لیکن بدقسمتی سے پہلے دن سے معاشرتی علوم کے مفکرین نے عوام کے دلوں سے اسلام کی اکائی کو محو کرنے کے لئے ان پانچ اور پھر چار اکائیوں کا پرچار کیا اور اب پاکستان کی اسلامی اور نظریاتی اساس پر اٹھارویں ترمیم کی صورت میں ضرب کاری لگائی گئی۔ اب یہ چاروں اکائیاں اپنے ان مراعات یافتہ مفاد پرست حکمرانوں کے لئے چار مختلف ممالک کی طرح ہوتی جا رہی ہیں۔سندھ کا بچہ پٹنہ کا چندر گپت بکرما جیت پڑھتا ہے اور پنجاب کا بچہ رنجیت سنگھ۔ حالت یہ ہے کہ چاروں صوبوں کے سنسر بورڈ بھی علیحدہ ہیں۔ ایک صوبے میں جو چیز فحش ہے وہ دوسرے صوبے میں روا ہے۔ لوگ آج بھی لاکھوں کی تعدادمیں ایک صوبے سے دوسرے صوبے سفر کرتے ہیں‘ منتقل ہوتے ہیں‘ کاروبار کرتے ہیں‘ رشتے داریاں کرتے ہیں‘ لیکن مسئلہ یہ تو نہیں ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ وہ کہیں سندھی‘ بلوچی‘ پشتون اور بلوچ شناخت بھول کر ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے‘ والی شناخت اختیار نہ کر لیں۔ یہ تدبیریں بہت ہو چکیں۔ پوری دنیا نے مسلمانوں کو ایرانی‘افغانی‘ عراقی‘ پاکستانی کے حوالے سے پہچاننا شروع کیا۔ ایک گیارہ ستمبر ہوا‘ سب کے سب مغرب کی نظروں میں مسلمان ہو گئے۔ یہاں بھی ایک بیرونی حملے کی دیر ہے۔ ساری اکائیاں موم کی طرح پگھل جائیں گی اور میرے اللہ کا وہ پرچم لہرانے لگے گا جو 14اگست 1947ء کو لہرایا تھا۔ بتانِ رنگ و بو کو توڑ کر ملت میں گم ہو جانے کا پرچم۔