جب میں صحافت میں نیا نیا آیا تو ایک بار میری ڈیوٹی کچھ مہینوں کے لئے اخبار کے مضافاتی ایڈیشن پر لگ گئی، اس زمانے میں بڑے اخبارات کے تین تین چار چار ایڈیشن نکلا کرتے تھے، پہلا ایڈیشن شام پانچ بجے تک آؤٹ ہو جایاکرتا تھا، جسے دور دراز مضافات کیلئے تیار کیا جاتا، زیادہ تر خبریں ڈاک یا تارکے ذریعے آیا کرتی تھیں، کبھی کبھار کسی بڑے قصبہ سے فون پر بھی نامہ نگارکوئی اہم خبر لکھوا دیتے، زیادہ تر خبریں جرائم سے متعلق ہوتیں، عورتوں اور بچیوں کیخلاف جرائم کی بھر مار تھی، ہر دوسرا جرم شک کی بنیاد پر ہوتا، باپ، بھائی، خاوند یا رشتہ داروں کے ہاتھوں خواتین پرتشدد اور قتل کی وارداتیں، شک، شک،شک، جرم، جرم، جرم… میں تو دوسرے تیسرے مہینے ہی نفسیاتی مریض بن گیا، ان خبروں کا مجھ پر اتنا زیادہ اثر ہوا کہ خود مجھے ہر عورت مشکوک لگنے لگی، ایسا محسوس ہوتا تھا گویا ہمارا سارا سماج ہی شک کی بنیادوں پر کھڑا ہے، زیادہ تر جرائم غریبوں کی بیٹیوں کے خلاف ہوتے،ہمارا طبقاتی نظام اور اس نظام میں طاقتوروں کا کردار، پولیس سے عدالتوں تک ہر جگہ طاقت اور دولت کی حکمرانی… یہ صرف دیہات اور مضافات میں ہی نہیں ہوتا، چھوٹے بڑے شہروں میں بھی ظلم کا یہ نظام پہلے بھی موجود تھا اور آج بھی قائم ہے، پھر جوں جوں وقت گزرتا گیا میرے پاس داستانوںکے ڈھیر لگتے گئے، حسن اور غربت کا کوئی جوڑ نہیں بنتا اور اس کے لئے کوئی جائے پناہ نہیں ہے۔ ٭٭٭٭٭ ندیم شبلی لاہور کے معروف سینئر وکیل ہیں، دس سال پہلے وہ فیصل آباد کی ایک لڑکی کی کہانی میرے سامنے لائے، وہ اس کا مقدمہ لڑ رہے تھے، مگر مایوس تھے، پھر ایک دن انہوں نے مجھے ایک ویڈیو بھجوائی جو اس مظلوم لڑکی نے ریکارڈ کرائی تھی، خود اور لا متناعی تشدد کے گرداب میں پھنسی ہوئی اس لڑکی کی ’’اپنی کہانی، اپنی زبانی،، نے مجھے لرزا کر رکھ دیا تھا، میں جس ادارے میں اس وقت کام کر رہا تھا، اس کا ہیڈ کوارٹر کراچی میں تھا، مجھے کہا گیا کہ اس ویڈیو کو ہیڈ کوارٹر بھیج دیتے ہیں تاکہ اس لڑکی کی کہانی کو معاشرے کے سامنے لایا جا سکے، وہاں جو صاحب کرائمز سیل کے انچارج تھے اور جنہوں نے اس ویڈیو کو دیکھ کر اپنے عملے سے اس پر کام کرانا تھا، انہیں اسے دیکھنے کا وقت ہی نہ ملا، میں کئی مہینے انہیں فون کرتا رہا، یاد دہانی کراتا رہا اور بالآخر مجھے پتہ چلا کہ موصوف نے نہ صرف یہ کہ ویڈیو دیکھی ہی نہ تھی بلکہ گم بھی کردی تھی، میں اس کہانی کو پھر بھی سامنے لایا تھا مگر کہانی میں جو طاقت ویڈیو ڈال سکتی تھی وہ موجود نہ رہی تھی، اس مظلوم غریب کی بیٹی کی کہانی کا لب لباب یہ تھا کہ وہ فیصل آباد میں اپنی ایک سہیلی کی شادی میں شریک تھی کہ بارات کے ساتھ آنے والے اس شہر کے ایک بڑے صنعت کار نے اسے دیکھ لیا، دو دن بعد ہی وہ صنعت کار اس لڑکی کے گھر پہنچ گیا اس کی ماں کو دولت کی چمک سے رام کیا، اور اس سے نکاح کرکے اسے ساتھ لے گیا، چند دن اسے کسی گھر میں عیش و عشرت سے رکھا، اپنی جنسی ہوس پوری کرتا رہا، جب جی بھر گیا تو اس لڑکی سے سوال کرنے لگا کہ اس سے پہلے وہ اس جیسے کتنے اور لوگوں کی محبوبہ رہ چکی ہے؟وہ لڑکی اسے یقین دلاتی تھی کہ اس کی زندگی میں آنے والا وہ پہلا مرد ہے، وہ صنعتکار یہ ماننے کو تیار ہی نہ تھا، اس کا کہنا تھا کہ وہ کیسے مان لے کہ غریب کی بیٹی شہزادیوں جیسی حسین و جمیل ہو اور وہ اس جیسے اوروں سے بچی رہی ہو؟ اس نے اس لڑکی پر تشدد کا ہر بھیانک ہتھکنڈاآزمایاتھا، تشدد کے وہ گر جو ہم کہانیوں میں بھی کم ہی پڑھتے ہیں، کچھ سال بعد میں نے اپنے دوست ایڈووکیٹ ندیم شبلی سے فون پر پوچھا، اس فیصل آباد والی لڑکی کا انجام کیا ہوا تھا؟ جواب ملا، اسے اس صنعت کار نے فائرنگ کرکے مار دیا تھا اور اس امیر و کبیر عیاش کے خلاف مقدمہ تک درجنہیں ہوا تھا۔ میں نے الیکٹرونک میڈیا میں فرائض کے دوران اگر اس ویڈیو کے علاوہ کوئی دوسری اندوہناک ویڈیو دیکھی تو وہ تھی سیالکوٹ کے ان دو بھائیوں کی ویڈیو جنہیں کئی گھنٹوں تک اجتماعی تشدد کا نشانہ بنا کر وحشیانہ انداز میں موت سے ہمکنار کیا گیا تھا، اس جرم میں ایک دو نہیں درجنوں ایسے لوگ بھی شریک تھے، جنہیں یہ تک معلوم تھا کہ وہ جن دو جوان بھائیوں کو سنگسار کر رہے ہیں ان کا جرم کیا ہے؟ یہ سب کچھ ایک اعلیٰ باوردی پولیس افسر کی موجودگی میں ہوتا رہا، جو سزا سے بچ گیا تھا اور شاید اب بھی اس مملکت پاکستان کی پولیس میں ٹھاٹھ سے نوکری کر رہا ہوگا۔ ٭٭٭٭٭ اب میں آتا ہوں آج کی تازہ ترین اسی قسم کی کہانی کی جانب… منزہ یوسف نامی انتیس سالہ لڑکی اس وقت لاہور کے ایک اسپتال میں داخل ہے، لڑکی کہتی ہے کہ گیارہ اپریل کواس پر اس کے شوہر جہانگیر نے اس وقت تیزاب پھینکا جب وہ صدر کے علاقہ میں پیدل اپنی ماں کے گھر جا رہی تھی، منزہ ایک موٹر سائیکل مکینک کے گھر میں پیدا ہوئی تھی، ماں کسی ہاسپیٹل میں آیا تھی، ماں باپ نے محنت مزدوری کرتے کرتے اسے وکالت تک تعلیم دلوائی، منزہ بھی کزن شمائلہ کے دیور کی شادی میں گئی تھی جہاں اسے جہانگیر نے دیکھا اور پسند کر لیا، اس سے راہ و رسم بڑھائے، اسے پوری طرح جال میں کھینچا اور پھر اسکے گھر شادی کا سندیسہ بھجوادیا، موٹر مکینک کی اس بیٹی کا جرم بھی اس کا حسن و جمال بنا، وہ بائیس سال کی تھی جب اس کی جہانگیر کے ساتھ شادی ہوئی، تین بچے پیدا ہوئے، بیٹا بڑا ہے اور اس وقت آٹھ سال کا ہے، بیٹیوں کی عمریں چھ اور سات سال ہیں، چار پانچ سال پہلے جہانگیر نے ایک رقاصہ سے شادی کرنے کے لئے اس پر تشدد کا سلسلہ شروع کر دیا، وہ منزہ سے کہتا تھا کہ وہ اس رقاصہ سے شادی کر چکا ہے، منزہ بتاتی ہے کہ اس رقاصہ کا پہلا شوہر بھی موجود ہے جو اسی کے ساتھ رہتا ہے۔ منزہ پر شوہر کا تشدد بڑھتا ہی چلا گیا، ایک دن جہانگیر نے اپنی دوست یا دوسری رقاصہ بیوی کے ساتھ مل کر بیچ سڑک کے پانی کے پائپ کے ساتھ مارا، اسے مجبور کردیا گیا کہ وہ خود طلاق لے لے، شوہر نے منزہ سے چھٹکارا تو پالیا، مگر بچے اس کے حوالے نہیں کئے، طلاق کے بعد منزہ نے دوسال پہلے خود وکالت شروع کر دی اور بچوں کی تحویل کیلئے فیملی کورٹ میں مقدمہ داخل کر دیا ، اکیس مارچ کو جہانگیر نے منزہ کو فون کیا کہ وہ کیس واپس لے ورنہ وہ اسے مار دیگا، منزہ نے جو اب خود وکالت کر رہی ہے اس دھمکی کو پولیس کو آن لائن شکایت درج کرائی لیکن اس کی شکایت پر کوئی کارروائی نہیں ہوئی، اگر اس کی شکایت پر نوٹس لے لیا جاتا تو شاید وہ تیزاب گردی سے بچ جاتی، فیملی جج نے جہانگیر کو حکم دیا تھا کہ وہ نو اپریل کو عدالت میں بچے لے کر آئے اور انہیں ماں سے ملوائے، وہ نو اپریل کو بچے لے کر عدالت میں تو نہ پہنچا البتہ گیارہ اپریل کو بچوں کی ماں پر تیزاب ڈال گیا، اسپتال میں پڑی ہوئی منزہ کہہ رہی تھی ہماری عدالتیں انصاف نہیں دیتیں، وہاں پیسے کو سلام کیا جاتا ہے، شمالی چھاؤنی تھانہ کے ڈی ایس پی اشتیاق احمد خان نے جہانگیر کے خلاف دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کرکے اسے گرفتار تو کر لیا ہے، ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج نے منزہ کے وکیل خواجہ خوشدل فہیم کی درخواست پر کیس گارڈین جج نمبر ایک کو منتقل کرتے ہوئے فوری فیصلے کی بھی ہدایت تو کردی ہے، مگر جہانگیر کو سزا اور منزہ کو انصاف کب ملتا ہے؟ یہ میں نہیں جانتا۔