پاکستان ویڈیو اور آڈیو سکینڈلوں کی زد میں ہے ، عدلیہ پر بھی حرف آیا ہے، لاہور کے حلقہ این اے 133کے ضمنی انتخاب کے سلسلہ میں انتخابی مہم کے دوران ایک ویڈیو وائرل ہوئی ہے ۔ میز پر نوٹ سجا کر اور ماسک پہن کر دو افراد بیٹھے ہوئے ہیں ،پیچھے (ن) لیگی امیدوار کے پینا فلیکس لگے ہوئے ہیں ، میز کے ساتھ ایک کرسی پڑی ہے ، باری باری خواتین آتی ہیں، اپنا شناختی کارڈ دکھاتی ہیں ، ایک شخص شناختی کارڈ کا اندراج کرتا ہے، دوسرا شخص خواتین سے مقدس کتاب پر ہاتھ رکھوا کر حلف لیتا ہے کہ ’’5 تاریخ کو مسلم لیگ ن ، شیر کو ووٹ دوں گی‘‘پھر اُسے ایک ایک ہزار کے دو نوٹ دے کر روانہ کر دیتا ہے۔ اچھی بات ہے کہ الیکشن کمیشن نے این اے 133لاہور کے 5دسمبر کو ہونے والے ضمنی انتخاب کیلئے انتخابی مہم کے دوران ووٹروں سے پیسوں کے عوض ووٹ خریدنے کی مبینہ ویڈیوز سوشل میڈیا کے ذریعے سامنے آنے پر چیئرمین پیمرا اور چیئرمین نادرا کو فوری طور پر اس ویڈیو کی فرانزک انکوائری کراکے اصل حقائق پر مبنی رپورٹ بنانے اور اس میں موجود لوگوں کی شناخت کرنے کی ہدایات جاری کر دیں۔الیکشن کمیشن نے نوٹس لیا ، عدلیہ کو بھی اس کا ازخود نوٹس لینا چاہئے ۔ اسلام آباد ہائیکورٹ میں ثاقب نثار آڈیو سکینڈل کی سماعت ہوئی ، چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دئیے کہ ثاقب نثار کی لیک آڈیو جن کے کیس سے متعلق ہے انہوں نے عدالت آنے میں دلچسپی نہیں لی ، جوڈیشل ایکٹیو ازم کے باعث پہلے ہی عدلیہ کو بہت نقصان ہو چکا، چیف جسٹس کا یہ بھی کہنا ہے کہ فرض کریں آڈیو درست بھی ہے تو اصل کلپ کس کے پاس ہے؟،سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی کس کس چیز پر آپ انکوائری کریں گے ، مختلف سیاسی قوتیں سیاسی بیانیے بناتی ہیں مگر عدالت نہیں آتیں ، جب وہ عدالت نہیں آتے تو کورٹ کو یہ بھی دیکھنا ہے نیت کیا ہے۔ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کو کیس میں دلچسپی لینی چاہئے اور اپنے اوپر لگنے والے الزامات کا سامنا کرنا چاہئے ، اگر وہ کہتے ہیں کہ ویڈیو جعلی ہے تو اسے عملی طور پر جھوٹا ثابت کرنا ضروری ہے اور دیکھنا یہ ہوگا کہ آڈیو ٹیپ کس نے ریلیز کی اور کیسے ریلیز کی؟ ۔ سیاسی جماعتوں کو بھی صرف الزامات کی حد تک نہیں رہنا چائیے، عدلیہ میں آکر اپنی بات کو ثابت بھی کرنا چاہئے تاکہ انصاف کے تقاضے پورے ہو سکیں۔ عدلیہ کے حوالے سے ایک اچھی خبر یہ ہے کہ رجسٹرار پشاور ہائیکورٹ نے ضلع لوئر دیر میں سینئر سول جج کو ڈینٹل سرجری کی طالبہ کے ساتھ زیادتی کے الزام میں گرفتار کرنے کا حکم دیا۔ سینئر جج جمشید کنڈی کو معطل کرتے ہوئے کہا کہ قانون سب کیلئے برابر ہے ، واضح ہو کہ خیبرپختونخواہ پولیس نے مقامی جج کے خلاف 376پی پی سی کے تحت مقدمہ درج کر کے جج کو گرفتار کیا اور اُسے جوڈیشل مجسٹریٹ کے حکم پر جیل منتقل کر دیا ۔ ایک اور خبر کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ نے لاپتہ صحافی و بلاگر کے کیس میں وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری اور سیکرٹری داخلہ کو ذاتی حیثیت میں طلب کر لیا ، چیف جسٹس اطہر من اللہ نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر ایک بڑے آدمی کا بیٹا غائب ہوتا تو ریاست کا ردعمل کچھ اور ہوتا، اگر کوئی شہری لاپتہ ہو جائے تو یہ سنگین جرم ہے، یہ تو کوئی طریقہ نہیں کہ متاثرہ خاندان کمیشن کے پاس مارے مارے پھریں۔ حقیقت یہی ہے کہ لاپتہ افراد کا معاملہ حساس ہے ، اس معاملے کے سلسلے میں بلوچستان کے ماما قدیر نے چند سال قبل بلوچستان سے اسلام آباد تک پیدل مارچ کیا تھاجس کی عالمی میڈیا میں کوریج ہوئی اور پاکستان کا امیج متاثر ہوا، حکومت کو چاہئے کہ وہ لاپتہ افراد کا معاملہ حل کرے۔ ایک خبر یہ بھی ہے کہ منڈی بہائو الدین کے کنزیومر کورٹ کے جج اور ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج راو عبدالجبار نے ایک شہری کی درخواست پر توہین عدالت کا مجرم قرار دیتے ہوئے ڈپٹی کمشنر طارق بسرا اور اسسٹنٹ کمشنر امتیاز علی کو تین ماہ قید کی سزا سنائی ۔ کہا جاتا ہے کہ پولیس نے مجرموں کو جیل لے جانے کی بجائے ڈی سی ہائوس منتقل کر دیا تھا جس کے بعد دونوں افسران لاہور چلے گئے اور ہائیکورٹ سے ضمانتیں کرائیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ڈپٹی کمشنر طارق بسرا نے ذاتی طور پر جج کو فون کر کے ان سے بدتمیزی کی جبکہ اے سی امتیاز علی نے عدالت میں پیش ہو کر جج سے بدتمیزی کی تھی ۔ایک خبر یہ بھی ہے کہ جج کو پرس مارنے پر خاتون کو 5سال قید کی سزا ہوئی ہے، تفصیل میں بتایا گیا ہے کہ راولپنڈی کے سول جج سردار عمر حسن کو ہینڈ پرس مارنے والی خاتون کو جرم ثابت ہونے پر انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت کے جج شوکت کمال ڈار نے 5 سال قید اور جرمانے کی سزا سنائی دی ، ملزمہ ضمانت پر رہا تھی، لیڈیز پولیس نے خاتون کو کمرہ عدالت سے گرفتار کر کے اڈیالہ جیل بھیج دیا ۔ بڑا صوبہ ہونے کے باعث پنجاب میں جہاں انتظامی معاملات میں مشکلات در پیش ہیں وہیں عدلیہ میں بھی مسائل سامنے آتے ہیں، گزشتہ روز لاہور ہائیکورٹ نے 400سے زائد سول ججوں کے تقرر اور تبادلے کئے ہیں، اتنی بڑی تعداد میں تقرریاں اور تبادلے اس بات کی دلیل ہیں کہ مسائل بہت ہیں ، اسی بنا پر علیحدہ صوبے کی بھی ضرورت ہے اور الگ ہائیکورٹ کی بھی ۔ شہباز شریف دور میں پنجاب میں وسیع پیمانے پر سول ججوں کی بھرتیاں ہوئیں تو اس میں سرائیکی وسیب نظر انداز تھا، سابق چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس قاسم خان کے دور میں عدلیہ کی ملازمتوں میں سرائیکی وسیب نظر انداز ہوا، رحیم یار خان بار اور کچھ دیگر علاقوں میں بھی اس پر باقاعدہ احتجاجی مظاہرے ہوئے۔ ان مسائل کا حل یہی ہے کہ حکومت اپنے انتخابی وعدے اور اپنے منشور کے مطابق علیحدہ صوبے کا قیام عمل میں لائے تاکہ وسیب کو انصاف مل سکے اور وفاق پاکستان مضبوط و متوازن ہو سکے ۔بار دیگر عدلیہ سے درخواست کروں گا کہ وہ اس بات کا بھی نوٹس لے کہ آئین ساز ادارے سینیٹ سے دو تہائی اکثریت کے ساتھ پاس ہونے والے علیحدہ صوبے کے بل کو درمیان میں کیوں لٹکا دیا گیا ہے: ظلم بچے جن رہا ہے کوچہ و بازار میں عدل کو بھی صاحب اولاد ہونا چاہئے