کتنا نازک ہے وہ پری پیکر جس کا جگنو سے ہاتھ جل جائے بات اپنی وضاحتوں سے بڑھی ہم نے سوچا تھا بات ٹل جائے خان صاحب کی نازک مزاجیوں نے کہیں کا نہیں رکھا۔ اب وہ اورنج ٹرین پر لال پیلے ہو رہے ہیں کہ اسے کیسے چلایا جائے۔ وہ فرماتے ہیں اورنج ٹرین چلائیں‘ ہسپتال ‘سکول‘60روپے کا ٹکٹ رکھیں تو دس ارب کی سبسڈی دینا پڑتی ہے اور اربوں روپے قرض واپس کرنا پڑے گا۔ ان کا مقصد یہ بانسری اب بجانا پڑے کہ بانسری بجی تو اس کے چھیدوں پر انگلیوں کے آنے سے کئی راز پھوٹیں گے خاص طور پر وہ ہجر کا گیت جس کا ذکر مولانا روم نے کہا ہے کہ بانسری کو جنگل سے کاٹ کر ہجرکے دکھ میں ڈال دیا گیا آپ کہتے ہوں گے کہ میں کدھرکی بات کدھر لے گیا۔ قبلہ ان کے جوازہی اسی طرح کے ہیں۔ اورنج ٹرین پی ٹی آئی کی حکومت کے لئے تو کوڑھ کرلی بن گئی ہے کہ جسے نہ نگلا جا سکتا ہے اور نہ اگلا جا سکتا ہے۔ ایک حل رہ جاتا ہے کہ آپ یہ کام شہباز شریف کو سونپ دیں۔ کیا آپ تصور کر سکتے ہیں کہ اگر ن لیگ کی حکومت رہتی تو اورنج ٹرین ایسے ہی کھڑی رہتی۔ یہ تو اورنج ٹرین کی بات ہے ان سے تو پشاور والی میٹرو نہیں چلی کہ ابھی نامکمل ہے اور اس پر اخراجات روز افزوں ہیں۔وہ تو ایک مذاق بن کر رہ گئی ہے۔ چلے تھے لاہور کی میٹرو کا مقابلہ کرنے اور کئی گنا زیادہ خرچ کر کے بھی وہاں خاک اڑ رہی ہے۔ اس میں بدعنوانیوں کے تذکرے بھی عام ہیں۔ اونٹ رے اونٹ تیری کون سی کل سیدھی! باقی معاملات بھی تو چوپٹ پڑے ہیں: وہ یہ کہتا ہے کہ کیا میں نے بگاڑا تیرا ہم کبھی بیٹھ کے سوچیں گے سلامت کیا ہے اس وقت سرفہرست مہنگائی ہے کہ تسلیاں دینے والے خود بھی رو رہے ہیں’’رو پڑا وہ آپ مجھ کو حوصلہ دیتے ہوئے‘ اس غزل کا ایک اور شعر زیادہ اچھا ہے۔ریاض مجید کہتے ہیں: اس سے کب دیکھی گئی تھی میرے رخ کی مردنی پھیر لیتا تھا وہ مجھ کو دوا دیتے ہوئے جب عوام کی چیخیں نکلی ہیں تو خود خان صاحب بھی گھبرا گئے ہیں کہ معاملہ سنجیدہ ہو چلا ہے مگر وہ بھی کیا کر سکتے ہیں سوائے لارے لپے کے۔ ایک لوری سی وہ روز سنا دیتے ہیں کہ اشیائے ضرورت سستی کی جائیں گی۔ یہ گی گی کے سوا ابھی تک کچھ نہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اشیائے ضرورت 20فیصد سستی کر دی جائیں۔ اگر یہ یوٹیلیٹی سٹور پر ہوئیں تو ہر کوئی وہاں رسائی کیسے حاصل کرے گا۔ بار بار اس بات کا رونا رویا جا رہا ہے کہ مصنوعی مہنگائی سے نمٹا جائے گا۔ ذخیرہ اندوزوں کو نہیں چھوڑا جائے گا۔ میرا خیال ہے کہ کسی کو بھی نہیں چھوڑا جائے گا۔ کم از کم عوام کو تو بالکل نہیں۔خان صاحب تو ڈاکوئوں اور چوروں کے حوالے سے بھی تو یہی کہتے تھے’’چھوڑوں گا نہیں‘ بتائیے کہ جب پیٹرول‘ بجلی اور گیس سب کچھ آپ مہنگا کر کے آمدن آئی ایم ایف کی جھولی میں جانے دیں تو پھر چیزیں کیسے مہنگی نہ ہوں۔ یہ مہنگائی مصنوعی کیسے ہو گئی۔ غیر قانونی سٹاک کی بات کی جا رہی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ قانون سب کے لئے کب ہوتا ہے۔پیسے کا اپنا قانون ہے۔ نیب کی پکڑ دکڑ اور پھر پسپائی سب کے سامنے ہے: ایسا لگتا ہے کہ کمزور بہت ہے تو بھی جیت کر جشن منانے کی ضرورت کیا تھی کیا طرفہ تماشہ ہے کہ ایک طرف عمران خاں دبے دبے لفظوں میں کہہ رہے ہیں کہ بجلی اور گیس کو سستا کرنے کا سوچا جا رہا ہے اور دوسری طرف اسد عمر واشگاف الفاظ میں کہہ رہے ہیں کہ ان دونوں پیٹرول اور گیس کا سستا ہونا ممکن ہی نہیں۔ آپ لوگ تو سبسڈی دینے کو تیار نہیں جبکہ ٹرانسپورٹ پر تو پوری دنیا میں سبسڈی دی جاتی ہے اور یہ سبسڈی بھی تو عوام کے پیسوں ہی سے دی جائے گی۔ روز بروز لوگوں کی قوت خرید جواب دیتی جا رہی ہے خاص طور پر تنخواہ دار طبقے کا کوئی پرسان حال نہیں اور پھر جن کے پاس روزگار بھی نہیں‘ ان کا اللہ یہ حافظ ہے۔ لوگ اب ریلیف کے نام ہی سے خوفزدہ ہو جاتے ہیں۔سراج الحق غلط نہیں کہہ رہے کہ حکومت کو موقع دینے والے اب نجات کی دعائیں مانگ رہے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کے کردار پر انگلیاں اٹھ رہی ہیں۔ ویسے یہاں انگلی اور انگلیوں کی رعایت میں ایمائیت بھی ہے کہ لوگ امپائر کی انگلی کہاں بھولے ہیں۔ حیرت کی بات ہے کہ خان صاحب میڈیا پر برس رہے ہیں کہ ایک سازش کے تحت لوگوں سے جا کر پوچھا جاتا ہے کہ کیا مہنگائی ہے تو بے چارہ آگے سے کیا کہے۔ وہ کہتا ہے ہاں مہنگائی ہے۔ اس سوال اور جواب سے خان صاحب نے نتیجہ اخذ کیا کہ یہ ایک طے شدہ سازش ہے اب سوشل میڈیا بھی ان کو گوارا نہیں۔ کچھ زیادہ معصوم یا زیادہ بے خبر پوچھتے ہیں کہ آخر کیا ہوا ہے حالات کو: پوچھتے ہیں کہ کیا ہوا دل کو حسن والوں کی سادگی نہ گئی ویسے امید رکھنے میں حرج ہی کیا ہے کہ ریلیف آپشن پر غور تیز ہو گیا ہے اور 48گھنٹوں میں لائحہ عمل پر مبنی رپورٹس متعلقہ اداروں کو پیش کرنے کی ہدایت دی گئی ہے۔ اب آپ یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ خاک ہو جائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک‘ بات کم از کم خبر سے آگے پہنچ گئی ہے۔ کچھ آگے کی دشواریاں ہوں تو ہوں‘ ادھر سے تو احکامات جاری ہو چکے۔ لوگوں کو تشویش تو ہو گی کہ خان صاحب اکثر معاملات میں برہم ہوتے ہیں اور فوری نوٹس بھی لیتے ہیں مگر اکثر ان کی بھی نہیں سنی جاتی۔ ان کی صرف ایک مرتبہ سنی گئی جب انہوں نے اپنے گزارہ نہ ہونے کی شکایت کی۔ جو بھی ہے وقت کسی کا انتظار نہیں کرتا۔رو دھو کے وقت تو گزر ہی جائے گا۔ خان صاحب کا کچھ غصہ مولانا فضل الرحمن پر نکلنے لگا تھا کہ وہی کام انہوں نے کیسے کر لیا جو خان صاحب نے دھرنے کی صورت میں کیا تھا۔ ہر سمت سے لوگوں نے مصرع اٹھایا تو خان صاحب کی بات بے وقت ہو گئی۔ بات اصل میں یہ ہے کہ ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف جیسی جونکیں خون نچوڑ رہی ہوں تو بیماری یا فاسد خون کا صرف بہانہ ہی ہوتا ہے یہ جونکیں پھول کر کیا ہو جاتی ہیں۔ یہ جونکیں جس کی ہیں وہ اس خون سے فائدہ بھی اٹھاتا ہے۔ چلیے انہی بے ربط خوابوں سے کوئی تعبیر نکلے گی۔ویسے خورشید شاہ نے خان صاحب کو کتنا آسان اور سیدھا مشورہ دیا ہے کہ وہ جب ناکامی کا اعتراف کر چکے تو اب انہیں مستعفی ہو جانا چاہیے۔ مگر خان صاحب ناکامی سے کامیابی نکالنے کے حق میں ہیں چلیے منیر نیازی کے شعر سے کالم ختم کرتے ہیں: آواز دے کے دیکھ لو شاید وہ مل ہی جائے ورنہ یہ عمر بھر کا سفر رائیگاں تو ہے