گزشتہ روز صحافت کا عالمی دن خاموشی سے گزر گیا، کورونا لاک ڈائون کے باعث نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا میں کہیں بھی تقریبات کا اہتمام نہ کیا جا سکا، غیر جمہوری ملکوں میں اظہار رائے کی آزادی نہیں ہوتی وہاں سرکاری میڈیا درباری میڈیا بن جاتا ہے۔ زیادہ دور نہ جائیں برصغیر جنوبی ایشیاء کی تاریخ ہمارے سامنے ہے، ہندوستان میں 800 سالہ بادشاہت میں اظہار رائے کی آزادی کا مفقود ہونا سمجھ آتا ہے مگر ہندوستان پر قبضے کے بعد ان انگریزوں نے بھی صحافت کا گلا دبائے رکھا ۔ پاکستان میں میڈیا کو جو آزادی حاصل ہے ‘ کسی نے پلیٹ میں رکھ کر نہیں دی بلکہ اس کیلئے صحافیوں نے بے مثال قربانیاں دی ہیں اور اس مقصد کیلئے قید و بند کی صعوبتوں کے ساتھ ساتھ کوڑے بھی کھائے ہیں ۔ہر آمر کا دور صحافیوں کیلئے عذاب کا موجب ہوتا ہے مگر جنرل ضیا الحق کے دور میں صحافیوں کو بہت مشکلات سے گزرنا پڑا ۔ جنرل ضیا کی حکومت نے اپریل 1978ء میں الفتح کا ڈیکلریشن منسوخ کیا ۔ ایم آر ڈی کی تحریک کے دوران سندھی اخبار مہران پر سنسر شپ لگائی گئی ۔ سندھ میں 15روزہ دو جریدوںکے ڈیکلریشن کینسل کئے گئے ۔ 10 جنوری 1985ء کو مساوات کا پرنٹنگ پریس نیلام کر دیا گیا ۔ فیض احمد فیض کی نظم ’’ محنت کش ‘‘ شائع کرنے پر ہفت روزہ عوامی جمہوریت کو نوٹس بھیج دیا گیا ۔ ضیاء الحق دور میں بلوچستان کے دو اخبارات قاصد اور اعتماد کے ڈیکلریشن منسوخ کئے گئے ۔ 13 مئی 1978ء آزادی صحافت کیلئے بد ترین دن تھا ، اس روز فوجی عدالتوں نے چار صحافیوں کو کوڑے لگانے کا حکم دیا ، ان میں مسعود اللہ خان ، اقبال احمد جعفری ، خاور نعیم ہاشمی اور نثار زیدی شامل تھے ۔ جنگ کے عبدالحمید چھاپرہ کو 6 ماہ قید بامشقت ، ڈان کے فتح محمد کو 6 ماہ قید با مشقت ، سید محمد صوفی (مساوات ) اور خواجہ نثار احمد ( جنگ ) 6 ماہ قید با مشقت ۔ اسی طرح آزادی صحافت کے لئے ضیا الحق دور میں ظلم و ستم سہنے والے صحافیوں کی تعداد زیادہ ہے۔ یہ تھی ضیا الحق دور کی ہلکی سی جھلک ، جس میں ان کا کہنا تھا کہ ماؤں سے بھی بڑھ کر خیال رکھا ۔ قیام پاکستان کے بعد صوبہ سرحد کے وزیراعلیٰ عبدالقیوم خان نے سرخ پوش رہنما غفار خان کے جریدے پختون کا ڈیکلریشن کینسل کر کے غفار خان کو گرفتار کر لیا ۔ 1948ء میں پنجاب حکومت نے تین رسالے نقوش ، سویرا اور ادب لطیف کو بند کر دیا ۔ اسی سال کوئٹہ سے ہفت خورشید اور الاسلام کے ڈیکلریشن کینسل کر کے ایڈیٹر فضل احمد کو گرفتار کیا گیا ۔ سبی کے صحافی ملک رمضان کو گرفتار کر کے ان کا رسالہ الحق بند کر دیا گیا ۔ 1948ء میں ہی امروز میں ایک خبر چھاپنے کے الزام میں فیض احمد فیض کے وارنٹ گرفتاری جاری ہوئے ۔ اسی سال میر حسن نظامی کا ہفت روزہ بولان بند ہوا ۔ 1949ء میں سندھ حکومت نے صوبے کی حدود میں ڈان کی تقسیم و فروخت ممنوع قرار دے دی ۔ 1950ء میں استقلال کوئٹہ بند کرکے عبدالصمد خان درانی کو گرفتار کر لیا گیا ۔ 1951ء میں مخدوم زادہ حسن محمود نے اپنی وزارت پر تنقید کرنے والے بہاولپور کے دو اخبارات ستلج اور انصاف سے ڈیکلریشن منسوخ کر دیئے اور ایڈیٹر علی احمد رفعت اور حیات ترین کو گرفتار کر لیا ۔ 1952ء میں ڈھاکہ کے انگریزی اخبار ابزرور کا ڈیکلریشن کینسل اور ایڈیٹر کے ساتھ پرنٹر، پبلشر کو گرفتار کر لیا گیا ۔ 9جون 1952ء کو آغاشورش کشمیری کے ہفت روزہ چٹان کو بند کیا گیا ۔ مئی 1954ء میں ہلال پاکستان ،1953ء میں ڈان ، نوائے وطن ، نوائے مسلم ، مسلمان وغیرہ پر پابندیاں عائد ہوئیں ۔ قیام پاکستان کے ابتدائی 11 سال صحافت پر عذاب کی طرح گزرے ، اس کے بعد ایوب خان نے 8 اکتوبر 1958ء کو مارشل لا نافذ کر دیا ، پاکستان ٹائمز ، امروز اور لیل و نہار کے ایڈیٹر فیض احمد فیض ، احمد ندیم قاسمی اور سید سبط حسن کو گرفتار کر کے سی کلاس جیل میں ڈال دیا گیا ۔ فوجی عدالت نے کائنات بہاولپور کے مدیر ولی اللہ احد اور رپورٹر کو گرفتار کر کے 15 ماہ قید مامشقت کی سزا دی ۔ 1963ء میں کوہستان کا ڈیکلریشن منسوخ کرکے مدیر نسیم حجازی کو گرفتار کر لیا گیا ۔ ایوب خان کے بعد یحییٰ خان کا دور بھی صحافیوں کے لئے بہتر ثابت نہ ہوا ، مشرقی پاکستان میں 26مارچ 1971ء کو اتفاق ڈھاکہ بند کیا گیا ۔ 16 دسمبر 1971ء کو سقوط ڈھاکہ ہوا ، 20 دسمبر 1971ء کو ذوالفقار علی بھٹو نے اقتدار سنبھالا مگر ان کا دور بھی صحافیوں کے لئے بہتر ثابت نہ ہوا ، ڈیکلریشن کی منسوخی اور صحافیوں کی گرفتاریوں کا سلسلہ جاری رہا ، اس دوران صحافیوں نے 1963ء کا پریس اینڈ پبلیکیشن آرڈیننس منسوخ کرنے کا مطالبہ کئے رکھا اور آزادی صحافت کیلئے بھی جدوجہد جاری رہی اور اب تک جاری ہے۔ غیر جمہوری ملکوں میں اظہار رائے پر پابندیوں کے باعث 1993ء میں اقوام متحدہ نے 3 مئی کو آزادی صحافت کا عالمی دن قرار دیا۔ بار دیگر کہوں گا کہ اظہار رائے کی آزادی بنیادی حق ہے 1973ء کے آئین میں بھی اس حق کو تسلیم کیا ہے مگر اظہار رائے کی آزادی کا مطلب مادر پدر آزادی نہیں، پروپیگنڈہ، جھوٹ اور بہتان درازی کو کسی بھی صورت اظہار آزادی کا نام نہیں دیا جا سکتا۔ ’’میرا جسم میری مرضی‘‘ کی طرح میرا قلم میری مرضی والا فارمولا بھی درست نہیں، وفاداریاں تبدیل کرنے والے اور بیکائو مال سیاستدانوں کے بارے میں صحافی تنقید ضرور کریں مگر خود ویسے نہ بن جائیں صحافت شیوہ پیغمبری ہے اس کو سب سے زیادہ بدنام ٹی وی اینکرز نے کیا ہے کیا ہم گریبان کھول کر اپنے ضمیر سے پوچھنا گوارہ کریں گے کہ ایسا کیوں ہے؟