وزیر اعظم وطن واپس پہنچ چکے ہیں، میں آپ کو کل کی بات بتا دیتا ہوں جو میں نے ایک تقریب میں عرض کی تھی۔ سید فخر امام اس تقریب کے صدر تھے۔ میں نے دو ٹوک لفظوں میں عرض کیا کہ جب سے عمران خان برسراقتدار آئے ہیں میں ان کے کسی اقدام کی تعریف کرنے کی سعادت حاصل نہیں کر سکا۔ یہ نہیں کہ مجھے ان سے کوئی کد ہے، بلکہ ذاتی طور پر تو میں ان کا مداح بھی تھا، تا ہم جب قلم ہاتھ میں ہوتا ہے یا زبان کو اذن گفتار دینا ہوتا ہے تو وہی بات کرنا پڑتی ہے جسے سچ سمجھا جائے۔ اس سب کے باوجود میں نے عرض کیا، آج میں عمران کی دو باتوں کی تعریف کر رہا ہوں۔ ایک تو ان کی جنرل اسمبلی میں تقریر کی اور دوسری اس بات کی کہ انہوں نے سید فخر امام کو کشمیر کمیٹی کا چیئرمین مقرر کیا۔ یہ بات کہتے ہوئے بھی میں نے عرض کیا کہ منہ پر، بھری مجلس میں تعریف کرنا میرا شیوہ نہیں رہا، مگر جب ان کا نام سامنے آیا تو دل چاہتا تھا کہ عمران انہیں ہی یہ ذمہ داری سونپ دیں تو بہتر ہے اور اب ان سے عرض ہے کہ تاریخ کے اس نازک موڑ پر آپ پر بڑی ذمہ داری آن پڑی ہے اب شرمندہ نہ کیجیے گا۔ ہاں، ایک بات اور کہ یہ کشمیر کمیٹی کے چیئر مین کے طور پر آپ کو مولانا فضل الرحمن پر فوقیت دینے کی بات ہے، اگر آج بھی مولانا اسلام آباد کا رخ کر کے دھرنا مار کر بیٹھ جائیں تو میں ان کا ساتھ دوں گا۔ عمران خان کی اس تقریر کے بارے میں بہت کچھ کہا جا رہا ہے، اگر مگر بھی لگایا جا رہا ہے، مگر میں نے طے کیا ہے کہ غیر مشروط پر اس کی حمایت کروں گا۔ ان کے حامی اس پر اگر ان کا ویسا استقبال کریں جیسا وہ گویا ورلڈ کپ جیت کر آ رہے ہیں تو مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ قصیدہ شاعری کی ایک صنف کا نام ہے۔ اس کا آغاز غزل سے ہوتا ہے، پھر تشبیب آتی ہے۔ بہت سوں کو اس تقریر کی یہ غزل اور تشبیب ایک آنکھ نہیں بھائے، مگر مرا مسئلہ یہ ہے کہ عالمی سطح پر اس تقریر کا جو اثر ہونا تھا، وہ مرے مزاج اور قومی رویوں کے عین مطابق ہے۔ اس لیے منافقت نہیں کروں گا۔ اس کی تعریف کروں گا۔ جن اپوزیشن لیڈروں نے اس پر تبصروں میں منفی باتیں کیں، تو سچ پوچھئے تو میں ان کو بھی داد دیتا ہوں۔ الا بلاول کے۔ بلاول نے تو حد کر دی۔ یہ بات غلط نہیں کہ بے نظیر اور بھٹو نے بھی اقوام متحدہ میں بہت عمدہ تقریریں کی تھیں مگر اس موقع پر یہ کہنا کہ یہ تقریر ہی فضول ہے۔ بدذوقی اور سیاسی نا سمجھی کی بات ہے، البتہ خواجہ آصف، حنا ربانی کھر، احسن اقبال نے بڑے سلیقے سے درست باتیں کی ہیں۔ پر میں نے تو اس وقت اتنی بات بھی نہیں کرنا۔ اس وقت مجھے سمجھ نہیں آتا کہ میں تقریر پر بات کروں یا ان سرگرمیوں کا تذکرہ کروں جو ان دنوں کشمیر کاز کے سلسلے میں جا بجا برپا ہیں۔ یہ جس تقریب کا میں نے ذکر کیا، یہ قذافی سٹیڈیم والے الحمرا میں میڈیا کلب آف پاکستان نے منعقد کی تھی۔ حافظ حسان اس کے روہ رواں ہیں۔ وجہ اس کی یہ بتائی تھی کہ یہ سید علی گیلانی کی 90ویں سالگرہ ہے۔ سچ پوچھئے کہ اقبال نے جن معنوں میں یہ کہا تھا کہ نہایت اس کی حسینؓ ابتدا ہے اسماعیلؑ تو اگر کوئی تقابل کرنے نہ بیٹھ جائے تو عرض کروں کشمیر میں آزادی کی تحریک سید علی گیلانی سے برہان وانی تک ہے۔ یہ بزرگ رہنما اڑھائی ماہ کا ہو گا جب کشمیر کی تاریخ میں وہ واقعہ ہوا جسے ہم آج بھی کشمیر کی آزادی کے دن کے طور پر مناتے ہیں۔ 13جولائی 1931ء جب 22افراد گولیوں سے بھون دیئے گئے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ ان میں گولی کسی کی پیٹھ پر نہیں لگی تھی سب نے سینے پر وار سہے تھے۔ یہ کشمیر کا جلیانوالہ تھا۔ اس دن سے لے کر آج تک سید علی گیلانی کشمیر کی تحریک آزادی کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ وہ ایک بچے سے جوان ہو کر اب بوڑھے ہو چکے ہیں، مگر ان کے حوصلے جوان ہیں۔ یہی وہ وقت تھا جب اقبال بھی تحریک آزادی کشمیر اور فلسطین کے مسئلے سے منسلک ہوئے۔ یوں لگتا ہے کہ کشمیر تحریک پاکستان ہی کی نامکمل ایجنڈہ نہیں، اقبال کے خوابوں کی بھی تعبیر نہ پا سکنے والی آرزو ہے جو آج بھی زندہ و پائندہ ہے اور جسے ہر حال میں پورا ہونا ہے۔ اقبال کے خواب جھوٹے نہیں ہو سکتے۔ سید علی گیلانی کے حوالے سے امجد اسلام امجد، مجیب الرحمن شامی،سلمان غنی، عبدالشکور، نوید چوہدری سبھی شریک تھے۔ بلاشبہ یہ ایک قرض تھا جو ادا ہونا تھا، مگر کیا کشمیر صرف ان ہتھیاروں سے فتح ہو گا۔ سوچنے کی بات ہے کہ ہمیں کیا کرنا ہے۔ یہ ہتھیاروں سے فتح ہو گا نہ تقریروں سے جیتا جائے گا۔ برصغیر میں کیا ہو سکتا ہے، شاید ابھی کسی کو اس کا اندازہ نہیں۔ برصغیر کے 60کروڑ مسلمان جو تین ملکوں میں پھیلے ہوئے ہیں، آپ ان کے اندر سلگتی آگ کا اندازہ نہیں کر سکتے۔ یہ جو ہمیں بتایا جا رہا ہے کہ القاعدہ برصغیر بھی منظم ہو رہی ہے تو میرے لیے یہ بہت تشویش کی بات ہے۔ بنگلہ دیش میں پہلے روز ہی جو جلوس نکلا اس نے ہم پاکستانیوں کو شرمندہ کر دیا۔ ٹھیک ہے۔ حکمرانوں کی ہوس اقتدار طلب زر نے امہ کے تصور کو کمزور کر دیا ہے، مگر مسلمان عوام میں کسی وقت بھی کوئی چنگاری سلگ سکتی ہے۔ خواجہ آصف نے یونیورسٹی آف سیالکوٹ میں یہی بات اپنے خطبہ صدارت میں کہی۔ اس بار سلمان غنی کے ساتھ میں نے بھی سیالکوٹ کا سفر کیا۔ میں اس سے پہلے جب یہاں گیا تھا تو یہ یونیورسٹی آف گجرات تھی، اس کا سیالکوٹ کیمپس، مگر اب یہ یونیورسٹی آف سیالکوٹ بن چکی ہے۔ سیالکوٹ کے لوگ بڑے دور اندیش ہیں۔ یہاں کے صنعت کاروں نے اپنے وسائل سے ایک بین الاقوامی ہوائی اڈہ بنا رکھا ہے۔ اب وہ موٹروے سے لاہور اور گجرات سے منسلک ہو جائے گا۔ یہ نئی حکومت نہ آتی تو اب تک ہو چکا ہوتا۔ اس یونیورسٹی میں فیصل محمود اور ریحان یونس صاحب نے ہماری پذیرائی کی، وقت کم تھا، مگر ان کی باتوں سے اندازہ ہوتا تھا کہ وہ بڑے وژن کے ساتھ میدان میں اترے ہیں۔ سیالکوٹ تو ہے بھی کشمیر کے بارڈر پر۔ یہاں سرحد، ورکنگ بائونڈری ہے، دوسری طرف جموں ہے۔ شہر میں بھی کشمیر سے آئے ہوئے لوگ رہتے ہیں۔ مرے بڑے بھی جب وادی سے نکل کر پنجاب کے میدانوں میں آئے تھے تو اسی شہر کے نواح میں پناہ لی تھی۔ بعد میں وہ امرتسر کی طرف چل پڑے تھے۔ اس دن مقررین میں حریت کانفرنس کے محمد حسین خطیب، زاہد غنی ڈار اور کشمیر اسمبلی کے محمد اسحق چوہدری موجود تھے۔ کشمیر کی اصلی آواز، ان کے مقابلے میں اپنی آواز ثانوی لگتی ہے۔ سلمان غنی نے خوب سماں باندھا اور محفل بڑے سلیقے سے اپنا پیام چھوڑ گئی۔ مجلس چھوڑنے کو جی نہیں چاہتا تھا، مگر ہمیں واپس لاہور پہنچنا تھا۔ خواجہ آصف بھی اصرار کرتے رہے۔ انہیں عجیب لگ رہا ہو گا کہ ان کے شہر آئیں اور راستے ہی سے واپس ہو جائیں۔ مجھے یاد آیا کہ میں نے بات عمران خان کی تقریر سے شروع کی تھی۔ اس تقریر پر بہت باتیں ہو رہی ہیں اور ہوتی رہیں گی۔ اس کا مقابلہ ماضی کی دو تقریروں سے ہو رہا ہے۔ ایک سر ظفر اللہ خان کی تقریر سے، دوسرا ذوالفقار بھٹو کی تقریر سے۔ بھٹو کی جس تقریر کا حوالہ دیا جا رہا ہے، اس میں انہوں نے پولینڈ کی قرارداد پھاڑ دی تھی، ان کی آنکھوں میں آنسو آ گئے تھے اور پاکستان ٹوٹ گیا تھا۔ تقریریں اور بھی یاد آ رہی ہیں، بہت ساری تقریریں، چرچل، مارٹن لوتھر کنگ، چھوڑئیے، اپنے ضیاء الحق کی تقریر جو انہوں نے او آئی سی کے اجلاس میں فلسطین پر فی البدیہہ کی تھی اور احمد شاہ بخاری کی وہ تقریر جو انہوں نے تیونس کے مسئلے پر کی تھی، جس پر ان کا نمائندہ رو پڑا تھا کہنے لگا یوں لگتا تھا کہ کوئی ہم میں سے بول رہا ہے تا ہم صرف تقریروں سے تاریخ نہیں بنتی اور یہ بات بھی درست ہے کہ تقریریں تاریخ کا سنگ میل ثابت ہوتی ہیں۔ منزلیں قریب ہو جاتی ہیں یہاں تقریروں کا مقابلہ نہیں ہو رہا۔ دیکھنا ہمیں یہ ہو گا کہ اس تقریر کا اور ہمارے روز کی سرگرمیوں کا عالمی سطح پر سفارتی طور پر کیا اثر پڑا ہے۔ ہنوز دلی دور ہے۔ ہم نے لال قلعے پر جھنڈا نہیں گھاڑنا، مگر کشمیر کی آزادی کا خواب ضرور پورا کرنا ہے۔ تین نسلیں اس خواب کو دیکھتے دیکھتے یہاں تک آن پہنچی ہیں جس کے بعد آزادی کے سوا کوئی منزل نہیں۔ آزادی، صرف آزادی!