مولانا فضل الرحمن کا آزادی مارچ اسلام آباد میں اتر چکا ۔ سوال یہ ہے اب آ گے کیا ہونے والا ہے؟ اس سول پر بات کرنے سے پہلے ایک وضاحت ضروری ہے کہ میرے پاس کبھی بھی ’’ اندر کی خبر‘‘ نہیں ۔خواہش کو خبر بنانے کی ہمت ہے نہ تمنا۔ اس لیے ’’ باخبر ذرائع‘‘ کے لشکروں سے بھی اپنی کوئی راو ہ رسم نہیں۔دستیاب شواہد کی بنیاد پر ایک تجزیہ ہوتا ہے جو آپ کے سامنے رکھ دیتا ہوں اور اس تجزیے کی صحت پر پورے اعتماد کے باوجود اس میں غلطی کے امکان کی نفی نہیں کر سکتا۔ آزادی مارچ کا جہاں پڑائو ہے ، وہاں سے ابھی لوٹا ہوں۔ یہ ایک جم غفیر ہے۔ کراوئڈ کائونٹنگ کی سائنس کی مبادیات بتاتی ہیں جب تعداد 50 ہزار سے تجاوز کر جائے تو اسے بآسانی لاکھوں کا مجمع کہا جا سکتا ہے۔سوال اب یہ ہے کہ کیا اتنا بڑا مجمع شکست خوردگی کا احساس لے کر منہ لٹکا کر واپس چلا جائے گا ؟ اس سوال کا جواب ظاہر ہے کہ نفی میں ہے۔ مولانا نے یہ سارا میلہ اس لیے نہیں سجایا کہ اپنی سیاست اسلام آباد جی نائن کے اتوار بازار کے پہلو میں دفن کر کے اپنے گائوں عبد الخیل چلے جائیں اور باقی کی عمر درس و تدریس میں گزار دیں۔ تو کیا ریاست پاکستان، دنیا کی واحد مسلم ایٹمی قوت ، اس بات کی متحمل ہو سکتی ہے کہ اس کے بارے میں عمومی تاثر یہ بن جائے کہ پچاس ہزار یا لاکھ لوگ دارالحکومت میں جمع ہو جائیں تو حکومت کو گھر بھیجا جا سکتا ہے؟ ظاہر ہے کہ اس بات کو جواب بھی نفی میں ہے۔ جدید دنیا کی ایک قومی ریاست اس چیز کا تصور بھی نہیں کر سکتی۔اگر آج ایسا ہو جاتا ہے تو یہ آئندہ کے لیے ایک مثال بن جائے گی اور ہر دوسرے سال ہم کسی مذہبی ، لسانی یا علاقائی گروہ کو اسلام آباد کی جانب یلغار کرتے دیکھیں گے۔ ایک ریاست یہ کیسے قبول کر سکتی ہے کہ اس دور میں اسے دو صدی پہلے کی دہلی جیسا بنا دیا جائے جس مہاراجے کا جی چاہے لشکر لے اس پر چڑھ دوڑے۔ ایسی روش یہاں قدم جما گئی تو شام، عراق افغانستان اور پاکستان میں فرق کیا رہ جائے گا؟سیاسی ہیجان کے ماحول میں آج بھلے عصبیت یہی تقاضا کرتی ہو کہ حکومت کو گھر بھیج کر واپس جانا چاہیے ، عقل انسانی مگر اس رویے کو قبول نہیں کر سکتی۔ یہ ایک انتہائی خطرناک ااور مہلک روایت ہو گی اور میرا نہیں خیال کوئی اس روایت کو قدم جمانے کا موقع دے۔ سوال یہ ہے کہ پھر کیا ہو گا؟ اس سوال اور اس کے جواب کے بیچ بہت سے مقامات ہیں۔ کسی حتمی منظرنامے کا تعین یہی مقامات کریں گے۔ایک امکان یہ ہو سکتا ہے کہ آخری تجزیے میں یہ جلسہ ، یہ مارچ اور یہ دھرنا صرف جے یو آئی کا ہی ثابت ہو۔ دیگر قومی جماعتیں اس سے دوری اختیار کر لیں یا اس میں شریک تو ہوں لیکن یہ شرکت محض علامتی اور واجبی سی ہو۔اس صورت میں مولانا یہاں مہینوں بھی قیام فرما لیں تو حکومت تبدیل نہیں ہونے والی۔ اس کی دو وجوہات ہیں : ایک خارجی اور ایک داخلی۔ خارجی سطح پر ریاست دنیا کے سامنے اپنا یہ تاثر ہر گز قاائم نہیں ہونے دے گی کہ ایک مکتب فکر کے لوگ اکٹھے ہوئے اور حکومت ختم ہو گئی۔ داخلی سطح پر بھی بہت پیچیدگیاں ہیں۔ جس ملک میں فکری ، مذہبی ، علاقائی ، لسانی اور ثقافتی تنوع ہو وہاں کسی ایک مکتب فکر کے دبائو پر حکومت کی تبدیلی دیگر گروہوں کی نفسیات پر بہت تباہ کن اثر ڈال سکتی ہے۔ اس سے لاتعلقی اور مایوسی پھیلے یا وہ بھی اس سے ترغیب پا کر جارحانہ حکمت عملی اپنا لیں ،دونوں صورتیں ریاست کے لیے خطرناک ہوں گی۔اور ایک قومی ریاست کبھی بھی اس بات کی اجازت نہیں دے گی۔ دوسرا امکان یہ ہے کہ مسلم لیگ ن ، پیپلز پارٹی ، اے این پی ، پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی سمیت اپوزیشن کی غالب اکثریت مولانا کے مارچ کا عملی حصہ بن جائے اور یہ تاثر قائم ہو جائے کہ کسی ایک گروہ ، کسی ایک جماعت ، کسی ایک مکتب فکر کا احتجاج نہیں بلکہ یہ اپوزیشن کا نمائندہ احتجاج ہے۔اس صورت میں اس مارچ کو دیکھنے اور پرکھنے کا سارا زاویہ نظر بدل جائے گا۔ غیر معمولی افرادی قوت دارالحکومت میں موجود ہو اور اپوزیشن اس کا عملی طور پر حصہ ہو تو پھر عمران خان کے لیے سنگین مشکلات پیدا ہو جائیں گی اور ان کے لیے اپنے منصب پر فائز رہنا ممکن نہیں رہے گا۔ مولانا کی ابتدائی پیش قدمی میں دو تاثر ابھرے ہیں۔ منفی تاثر یہ ہے کہ قومی سیاسی جماعتوں نے ان سے تھوڑا فاصلہ رکھا ، اخلاقی حمایت ضرور کی لیکن عملی تائید نہیں کی۔ اور مثبت تاثر یہ ہے کہ مولانا نے اس مارچ کو مسلکی عصبیت سے بالاتر رکھا اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ انس نورانی اور ابتسام الہی ان کے ساتھ رہے۔ ابھی جب میں یہ سطور لکھ رہا ہوں ، کچھ واضح نہیں کہ مولانا کی حتمی حکمت عملی کیا ہو گی اور مارچ کا حتمی تاثر کیا ہو گا ۔ لیکن اگر یہ محض مولانا کا اجتماع رہا تو فیس سیونگ لے کر مولانا کو واپس جانا ہو گا اور اگر یہ اپوزیشن کا اجتماعی مارچ بن جاتا ہے تو عمران خان کوجانا ہو گا۔ عمران خان کو جانا پڑا تو میری رائے میں اس کا بھی ایک اہتمام کیا جائے گا اور یہ تبدیلی دھرنے کے دوران نہیں ہو گی ، یہ دھرنے کے نتیجے میں ہو گی۔اور آخری فیصلہ پارلیمان کے اندر کیا جائے گا ، آئینی بند و بست کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے۔ اس کے علاوہ اگر کوئی صورت بنتی ہے تو اس کا انجام صرف تصادم ہے اور تصادم کی طرف مولانا نہیں جائیں گے۔