روزگار کے غم دلفریب ہوتے ہیں یہ تو فیض احمد فیض بھی کہہ گئے ہیں مگر غم روزگار کی دلفریبی خود فریبی بلکہ مستی اور پھر جنوں میں بدل جاتی ہے اس کا اندازہ اپنے ماضی کے حکمرانوں کی حالت کو دیکھ کر ہو جاتا ہے جن کا معاملہ مادھو رام جوہر کے مطابق پوری ہوتی ہیں تصور میں امیدیں کیا کیا دل میں سب کچھ ہے مگر پیش نظرکچھ بھی نہیں! ان کی اقتدار کے روزگار سے بچھڑنے کے بعد جو حالت ہے اس کومیر نے کچھ یوں بیان کیا ہے ع روتے پھرتے ہیں ساری ساری رات اب یہی روزگار ہے اپنا مولانا کا روزگار بھی آج کل کرسی کو رونا ہی رہ گیا ہے۔ حضرت دھرنے اور آزادی مارچ سے دل بہلانے کے جتن کرنے میں مصروف ہے جس کا دوہرا فائدہ یہ بھی ہے کہ ایک توامید اور ڈھارس بندھی رہتی ہے دوسرے ان کو 35,35برس کے حکمرانوں کو اقتدار کی دیوی کے خواب دکھانے کا روزگار مل گیا ہے۔ جن سے اقتدار سے بچھڑنے کے بعد کسی کا ملاپ دیکھا نہیں جا رہا مگر کیونکہ خود’’ سسرال‘‘ میں ہیں اس لئے دونوں رقیبوں نے مل کر اقتدار کے شجر سے پرندے اڑانے کا کام مولانا کے ذمہ لگا رکھا ہے : بچھڑ کے تجھ سے نہ دیکھا گیا کسی کا ملاپ اڑا دیئے ہیں پرندے شجر پہ بیٹھے ہوئے مولانا تو پہلے ہی ایک پنتھ سے دو کاج کے ماہر ٹھہرے ۔آزادی مارچ اور دھرنے سے پہلے ہی دونوں پارٹیوں سے دام کھرے کر چکے ہیں کسی کو یقین نہ آئے تو میاں صاحب کا برخوردار کے نام خط پڑھ کر دیکھ لے۔ جس میں بقول داماد اول حکومت سے نجات کے لئے لندن سے پارٹی چلانے کی ہدایات درج ہیں۔ شنید ہے کہ اسی طرح کا ایک خط مولانا کو بھی لکھا گیا ہے کہ مولانا بے فکر رہیں پاکستان سے پیار کرنے والے لاکھوں آپ کے مارچ میں نہ صرف شامل ہوں گے بلکہ ان کے لئے بریانی کی دیگوں کے ساتھ خشک میوہ جات کے اخراجات بھی لندن فراہم کرے گا۔پاکستان سے پیار کا معیار بھی گزشتہ روز میاں صاحب کی احتساب عدالت میں پیشی کے دوران مقرر کر دیا گیا۔ اس کی تشہیر بھی عدالت میں نعروں کی صورت میں ہوئی۔ ایک نعرہ ماضی میں پی ٹی ایم نے دہشت گردی کے حوالے سے لگوایا تھا۔ ایک میاں صاحب کی موجودگی میں ان سے اور ’’پاکستان سے پیار کرنے والوں‘‘ سے لگوایا گیا جس میں کوئی ایک کرنل یا جرنل نہیں سب کے سب ایک ہی صف میں کھڑے کر دیے گئے ہیں۔ ایسے میں جب مولانا کو دوہری نہیں تہری نوکری مل چکی ہے چھوٹے میاں کی حالت کا اندازہ خود لگا لیجیے جو بقول شاعر : اسی امید پر تو جی رہے تھے ہجر کے مارے کبھی تو رخ سے اٹھے گی نقاب آہستہ آہستہ زندگی بھر بڑے بھائی کو تحمل، دور اندیشی اور وفاداری کا یقین دلانے والے چھوٹے میاں پارٹی میٹنگ میں دل کے پھپھولے ہی پھوڑتے رہ گئے اور بڑے میاں نے ہدائت نامہ لندن پہنچا دیا۔ چھوٹے میاں کی تمنائوں کا خون ہوا ہے اور ان کی حالت کا اندازہ علامہ اقبال کے اس شعر سے ہوتا ہے: قصاص خون تمنا مانگیے کس سے؟ گناہ گارہے کون’ اور خوں بہا کیا ہے؟ چھوٹے میاں صاحب کے لئے ہی شاید کلیم عاجز نے کہا تھا: بھلا آدمی تھا پر نادان نکلا سنا ہے کسی سے محبت کرے ہے چھوٹے میاں تو اس لئے بھی بھلے آدمی ہیں کہ جس سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا اور جس اقتدار کی سیڑھی پر قدم رکھنے کی پہلی شرط ہی تخت کے وارثوں کا قتل ہو موصوف اس کھیتی میں وفا کے بیج بوتے رہے اور بازی مولانا کی سیاست لے گئی ۔ مولانا لندن اور زرداریوں کے زر کی بدولت سیاست کے دلہا بن گئے۔ ہینگ لگی نہ پھٹکڑی رنگ چوکھا کے مصداق ’’حقیقی اور وڈے‘‘ اپوزیشن لیڈر بن چکے ہیں۔ لانگ مارچ اور دھرنا ہو نہ ہو نتیجہ کچھ بھی نکلے مولانا نے یہ ثابت کر دیا کہ عدالتوں سے نااہل ہونے والے سیاست کے بھی اہل نہیں اگر کسی کو ڈیل کرنا ہے یا ڈھیل دینا ہے یا متبادل خدمات درکار ہوں تو ان سے رابطہ کیا جائے۔ اب مستقبل کی سیاست کی طنابیں دونوں بڑی جماعتوں کے ہاتھوں سے نکل کر مولانا کے ہاتھ میں آ چکی ہیں۔ واقفان حال تو یہ مخبری بھی کر رہے ہیں کہ مولانا سیاست کی بساط پرہوشیاری سے مہرے چل رہے ہیں۔ نوکری بھی دو کی نہیں تیسرے کی کر رہے ہیں دونوں کو بہلایا جا رہا ہے، ہلانا تو کسی اور کو مقصود ہے۔ اگر غیروں کے مال کے زور پر نظام کی بساط پلٹنے میں کامیاب ہوئے تو تاریخ میں وزیر اعظم کے ناموں میں ایک اور اضافہ مولانا کا ہو جائے گا اور اگر ناکام ہوئے تو یہ عشق کی بازی مات اس لئے نہ ہو گی کہ تیسرا اپنے اہداف حاصل کرے گا۔ سیاسی پنڈت تیسرے کا پتہ تو نہیں نشانیاں ضرور بتا رہے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان نے اقوام متحدہ میں تقریر کر کے نہ صرف کشمیر کی سفارت کاری کا حق ادا کیا بلکہ عالمی سطح پر بھارت کو خاک چاٹنے پر بھی مجبور کر دیا ہے۔ چین کے علاوہ پہلی بار ترکی ملائشیا اور ایران کھل کر پاکستان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ بھارتی دبائو کو خاطر میں لانے کو تیار نہیں۔ امریکی صدر بھارت کو ثالثی پر مجبور کر رہے ہیںتو خلیج کے حکمران مالی امداد فراہم کرکے بھارت کے پاکستان کو معاشی طور پر تباہ کرنے کے حوالوں کو چکنا چور کر رہے ہیں۔ پاکستان اور عمران خان کے پائوں اکھیڑنے کے لئے بھارت باہرسے تو حملہ نہیں کر سکتا اس صورت میں داخلی کمزوریوں کی آگ کو ہوا دی جا سکتی ہے اور یہ کام دھرنے اور مارچ سے بہتر ہو ہی نہیں سکتا۔ مولانا یہ کام اس انداز سے کر رہے ہیں کہ کلیم عاجز کے بقول: کرے ہے عداوت بھی وہ اس ادا سے لگے ہے جیسے محبت کرے ہے یہی وجہ ہے کہ مولانا نے سیاست سے چنگیزی مٹانے کے لئے بے روزگاری، مہنگائی، نااہلی کے ساتھ سیاست کو ناموس رسالت اور مذہب کو اک مک کر دیا ہے۔ مولانا کی سیاست کثیر الجہتی سیاست کے یہ چند ایک پہلو ہی ماہرین سیاست ڈی کوڈ کر سکے ہیں۔ ایک مقصد اور بھی ہو سکتا ہے کہ مقتدر حلقوں کے سامنے بے غیرت بے غیرت کے نعرے اور اینٹ سے اینٹ بجانے والوں کے چہرے بے نقاب کرکے خود کو ملک کا واحد متبادل آپشن تسلیم کروا لیا جائے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو بھی مولانا مستقبل کے وزیر اعظم ہوئے!!!!