میڈیا کے ایک انتہائی قابل عزت بزرگ نے کل ایک واٹس ایپ بھیجا جس میں کچھ نمبر اور ہندسے اور ضرب تقسیم کی تفصیل تھی جس کے مطابق جمعیت کا اسلام آباد مارچ جو آج جی 9-کے میدان میں لنگر انداز ہو رہا ہے کن روز مرہ کی انسانی ضروریات سے دو دو ہاتھ کر رہا ہو گا اور کیا مشکلات ان کے سامنے ہوں گی۔ مثلاً یہ بات سامنے آئی کہ مارچ والوں نے حکومت سے 600ٹوائلٹ لگانے کا مطالبہ کیا ہے تاکہ شرکا اپنے ہاضمے کے نظام کو کنٹرول میں رکھ سکیں۔ تو کہا گیا کہ 600ٹوائلٹ اگر 15لاکھ لوگ استعمال کریں گے تو 2500لوگوں کو ایک دفعہ رفع حاجت کا موقع ملے گا اور اس طرح 208گھنٹے یا 8دن درکار ہوں گے کافی گھمبیر حساب کتاب کی باتیں ہیں لیکن بات کام کی یہ نکلی کہ نہ 15لاکھ آدمی ہونگے نہ 600حاجت کدے اور نہ یہ مشکلات۔ جو لوگ اسلام آباد آ گئے ہیں وہ اس بات کے عادی ہیں کہ سڑک کے کنارے کھڑے ہو کر اپنی ہر حاجت کو پوری کرنے کے کیا کیا طریقے ہیں۔ مطلب یہ کہ مولانا صاحب نے ایک لشکر جمع کرنا تھا اور مختلف پینترے بدل بدل کر وہ اسلام آباد کچھ ہزار لوگوں کو لے کر پہنچ گئے ہیں ۔ کھیل اب شروع ہو گا۔ دھمکیاں اور الٹی میٹم دیے جائیں گے۔ دھواں دار تقریریں ہوں گی اور پھر آہستہ آہستہ کنٹینر آگے سرکنا شروع ہو گا کیونکہ خالی ہوائی فائر سے تو کوئی نہیں ڈرتا۔ بات جھڑپوں تک آئے گی اور حکومت پر لعنت بھیج کر بھڑکایا جائے گا کہ کوئی دو چار گولیاں چلا کر ایک دو شہید ان کے لئے تحفے کے طور پر بھیج دے اور پھر یہ لاشیں سڑکوں پر گھومتی پھریں۔ مقصد یہ ہو گا کہ اتنا ہڑ بونگ مچا دیا جائے کہ امپائر انگلی اٹھانے پر مجبورہو جائے۔ یہ امپائر کی انگلی تو ایک پرانی تھی جو عمران خان صاحب کو نظر آئی تھی اور پی ٹی آئی کے دھرنے میں امپائر سے ملاقات بھی ہو گئی تھی لیکن اس مارچ میں یہ بات جناب اعتزاز احسن نے ٹی وی انٹرویو میں کہی ہے کہ امپائر ہمیشہ اپنی انگلی تیار رکھتا ہے اور فضل الرحمن صاحب کی پوری کوشش ہو گی کہ وہ فوراً آئوٹ کا اشارہ دے نہ کہ نوبال کا۔ مگر خبریں تو چھپ بھی چکی ہیں کہ مولانا کی ایک اہم ملاقات ہو چکی ہے جس کے بعد مولانا نے انکار کر دیا تھا مارچ روکنے سے۔ امپائر تو پہلے ہی ناراض بیٹھے ہونگے۔ تو اس سارے ملک کے طول و عرض میں پھیلائی گئی ہلچل کا پھر مقصد کیا ہوا اور کیوں کئی دن سے سوشل میڈیا اور واٹس ایپ اور لنگر گپ یہ چل رہی تھی کہ اس مارچ کو کچھ خاص لوگوں کی حمایت اور درپردہ شہ حاصل ہے کیونکہ وہ اپنے غیر سیاسی اور اہم عہدوں پر تعیناتی کے مسئلوں کو کچھ دبائو ڈال کر حل کروانا چاہتے ہیں۔ بات تو سوچنے پر مجبور کر سکتی ہے لیکن اس وقت صرف ایک ہی عہدہ ایسا ہے جس میں اہم تبدیلی ہو سکتی ہے اور وہ وزیر اعظم نے کئی ہفتے پہلے ہی اعلان کر کے مسئلہ ختم کر دیا تھا تو پھر؟ کہا گیا کہ ابھی تک اس تبدیلی کا باقاعدہ سرکاری گزٹ میں اعلان نہیں ہوا اس لئے کچھ لوگوں کی امیدیں قائم ہیں۔ میں نے سوچا کیوں نہ ایسی گرم گرم سرخ بال کو اس بیٹسمین کی طرف پھینک دوں جس کے پاس موقع ہو گا کہ وہ بال کھیلے یا چوکا لگائے یا جانے دے تو میں نے بھی ایک واٹس ایپ دے مارا ،اسلام آباد کے ایوان سے جواب کا انتظار کرنے لگا۔ فوراً جواب آیا کہ یہ سب افواہیں ہیں جن میں کوئی حقیقت نہیں۔ بلکہ یہ بھی اضافہ کیا گیا کہ سارے ڈاکو اکٹھے ہو گئے ہیں تاکہ بلیک میل کر سکیں اور کرپشن کے جو کیس چل رہے ہیں ان سے جان چھڑائی جائے۔ ساتھ ہی ایک تقریر کے اقتباس بھی مجھے موصول ہوئے جس میں وزیر اعظم کی پہلی تقریر کا وہ حصہ تھا کہ جب ہم ہاتھ ڈالیں گے یہ سب کرپٹ اکٹھے ہو جائیں گے۔ تو یہ ایسا ہی اور پھر وزیر اعظم نے وہی تقریر ننکانہ صاحب میں دہرا دی۔ تو آج کے دن کسی کو نہیں معلوم کہ اگلے چند دنوں میں کیا ہونے والا ہے ۔دکھائی دینے والے واقعات کچھ ایسے ہیں کہ نون لیگ اور نواز شریف کو لالی پاپ دے کر ٹھنڈا کر دیا گیا ہے اور انہوں نے مولانا کو ہری کی جگہ لال جھنڈی دکھا دی حتیٰ کہ مولانا سے دو منٹ کی ملاقات کو بھی مشکل سمجھا گیاکہیں کوئی غلط میسج نہ چلا جائے جبکہ میاں صاحب خوب چل پھر رہے تھے اور اپنے دانت تیز کروانے کے لئے بھی موجود تھے حالانکہ جو بیماری انہیں ہے یا ڈاکٹر کہہ رہے ہیں کہ ہے، اس میں کوئی بھی سرجیکل کام بالکل منع ہوتا ہے۔ زرداری صاحب کے لوگ پہلے ہی سندھ میں اپنی حاضری لگا کر مارچ کو خدا حافظ کہہ چکے اور اب وہ میاں صاحب کے نقش قدم پر انہیں بھی جیل سے نکالنے کی کوشش میں ہیں۔ باقی کے پی کے کے سیاسی لوگ مولانا کو لیڈر بنانے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے۔تو اب مولانا صاحب بھی وزیر اعظم کے ہٹائے جانے کے مطالبے پر زیادہ زور نہیں دے رہے انہوں نے شروع میں ضرورت سے زیادہ زور لگا کر اپنی طاقت اور بارگین کرنے کی صلاحیت کو کافی نقصان پہنچا لیا اور اب وہ اس پوزیشن میں ہیں کہ اپنے مطالبے منوا سکیں۔ ایک ہی راستہ ہے کہ جھگڑا کیا جائے اور ایوانوں پر چڑھائی کی جائے اور کوئی روکے تو پھر پھڈا ہو اور ان کی گاڑی میں ڈیزل ڈل جائے۔ 18اکتوبر کے کالم میں میں نے اپنا تجزیہ دیا تھا کہ ایک کہانی بنائی گئی ہے جو کچھ لوگ چلاتے رہیں گے مگر آہستہ آہستہ وہ بھی نا امید ہوتے دیکھ رہے ہیں۔ بہتر ہو گا میں اپنے کالم کا آخری پیرا گراف یہاں دوبارہ لکھ دوں تاکہ صورتحال صاف ہو سکے میں نے لکھا تھا: اس گھمبیر نظر آتی شکل میں میڈیا کے دوست کہتے ہیں مولانا کا آزادی مارچ بھی وہی لوگ سنبھال لیں گے جو اس قسم کے کام میں ماہر ہیں اور بلکہ پہلے سے بھی زیادہ مضبوط کرسیوں پر بیٹھ چکے ہیں۔ یہ تو میں بھی ماننے کو تیار ہوں کہ وزیر اعظم کو کوئی ایسا خطرہ لاحق نہیں جیسا سنجرانی صاحب کو سینٹ میں تھا اور سارا ہمنوا اور موافق میڈیا اور سیاسی پنڈت گرج برس رہے تھے کہ اب سینٹ حکومت کے ہاتھ سے گئی اور حزب اختلاف کا کوئی کاغذی شیر جلد اس کرسی پر سوار ہو گا جس میں زرداری کا نام بھی آ رہا تھا۔ یہاں تک کہا گیا کہ جلد زرداری ایوان صدر میں بھی کرسی پر نظر آ سکتے ہیں چاہے کچھ دن ہی کے لئے۔ مولانا صاحب اسلام آباد جائیں مگر پھر لبیک یا سینٹ‘ یا فاٹا پاٹا کی طرح انکا بوریا بسترہ بھی گول کر دیا جائے گا۔ ’’کہانی تو ہے‘‘ کہانی اب اس موڑ پر پہنچی ہے کہ پشاور موڑ پر پڑائو ہے لشکر آرام کر رہا ہے معلوم نہیں 600یا کتنے بیت الخلا ان کو ملے ہیں اور اگر نہیں ملے تو ایک دو دن بعد پشاور موڑ کی ماحولیاتی صورتحال کیا ہو گی۔ عام لوگوں کی زندگی تو اجیرن ہو گئی ہیں لیکن ہزاروں کا یہ جتھ جس میں ملک بھر سے مدرسوں کے بچے شاید پہلی بار اپنے مدرسے سے نکل کر پاکستان کی سیر کرنے آئے ہوں کس طرح چھٹی انجوائے کریں گے۔ کیونکہ یہ لوگ ایک بند ماحول میں اور ایک گھٹن کے ماحول میں پلتے بڑھتے ہیں۔ اچانک آزادی ملنے سے قابو سے باہر بھی ہو سکتے ہیں یعنی پشاور موڑ اور افغان بستیوں کے مکینوں کو خاص کر اپنی بچیوں اور چھوٹے بچوں کو غیر ضروری اور بے وقت کی سیر کے لئے باہر نکلنے سے سخت احتراز کرنا چاہیے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ مولانا نکلے تو عمران خان سے آزادی دلانے لیکن ان کے اپنے ہی ڈنڈا بردار اور اسلحہ بردار غیر ضروری آزادی حاصل کرنا شروع کر دیں سنا تو ہے کہ مارچ میں کئی درجن غیر قانونی بڑی بڑی گاڑیاں جن میں منشیات اور اسلحہ بھی ہے سمگلروں نے کراچی سے اسلام آباد تک پھیلا دی ہیں یہ سارے چیلنج حکومتی اداروں کے لئے ہیں اور وہ پوری طرح تیار بھی نظر آ رہے ہیں کیونکہ کہیں کوئی پریشانی اور Panicنظر نہیں آ رہا۔