یہ بھی حقیقت ہے کہ نواب آف بہاولپور وائسرائے ہند کے استقبال سے اجتناب کرتے تھے مگر قائد اعظم کا دل سے احترام کرتے وجہ یہ بھی کہ ان کے اندر ہمدرد انسان کا دل موجود تھا ۔کوئٹہ میں1935ء میں زلزلہ آیا یا پھر 1947ء میں ہندوستان سے آبادکاروں کے قافلے بہاولپور اسٹیشن پہنچے۔نواب بہاولپور بنفس نفیس بہاولپور اسٹیشن پہنچے تحائف نقدی کے علاوہ اپنے ہاتھ سے مصیبت زدگان میں طعام تقسیم کیا ۔ علامہ اقبال نواب آف بہاولپور کے مداح اور عقیدت مند تھے انہوں نے آج تک کسی بادشاہ کا قصیدہ نہ لکھا مگر نواب آف بہاولپور کیلئے انہوں نے طویل قصیدہ لکھا۔اسی طرح حفیظ جالندھری علامہ اقبال اور بہت سے زعما باقاعدہ وظیفہ حاصل کرتے رہے ۔اس کا ثبوت اس چٹھی سے بھی ہوتا ہے جو علامہ اقبال نے نواب آف بہاولپور کے پرائیوٹ سیکرٹری میجر شمس کو 5مئی 1929ء کو لکھی اور جس میں لکھاکہ بہت شکریہ !مجھے ریاست کی طرف سے بھیجا گیا الاؤنس برابر مل رہا ہے۔ نواب بہاولپور نے پنجاب یونیورسٹی کا سینٹ بلاک ،کنگ ایڈورڈ کالج کی نصف بلڈنگ اور لاہور ایچی سن کالج کے بہت سے کمرے لاکھوں روپے خرچ کر کے تعمیر کرائے۔ ریاست بہاولپور کی طرف سے تعلیمی مقاصد کیلئے لاہور کو سالانہ جو گرانٹ جاری ہوتی رہی اس کی تفصیل کے مطابق کنگ ایڈورڈ کالج ڈیڑھ لاکھ ،اسلامیہ کالج لاہور تیس ہزار ،انجمن حمایت اسلام پچھتر ہزار،ایچی سن کالج دوہزار،اور پنجاب یونیورسٹی لاہور بارہ ہزار اس کے ساتھ ساتھ لاہور کے ہسپتالوں اور دوسرے رفاہی اداروں کی ریاست بہاولپور کی طرف سے لاکھوں کی مدد کی جاتی رہی ۔ افسوس کہ آج ان تمام احسانات کو فراموش کر دیا گیا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد بہاولپور رجمنٹ جو وسیب کی علامت تھی ، کو ختم کیا گیا ، ملازمتوں کے دروازے بند کئے گئے ، فارن سکالر شپ ختم ہوئی ، ریونیو بورڈ لاہور چلے جانے سے ناجائز الاٹمنٹوں کا طوفان اٹھا دیا گیا ، بہاولپور کے دریا بیچ دیئے گئے ، واہگہ بارڈر آج تک کھلا ہے مگر بہاولنگر جنکشن بند ، امروکہ بند ، اس کے ساتھ یہ ظلم بھی کیا گیا کہ کراچی دہلی کا سب سے بڑا ریلوے ٹریک میکلوڈگنج جنکشن بند کر دیئے گئے ، آج بہاولنگر اسٹیشن پر جائیں تو دنیا کے خوبصورت اسٹیشن کی ویرانی کو دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے ، دریائے ستلج کی موت کے بعد آج اس خطے میں دوسرا چولستان وجود میں آرہا ہے۔ آنے والی حکومت کو ان امور کی طرف توجہ دینا ہوگی۔ نواب بہاولپور نے 1200 ایکڑ رقبے پر مشتمل بر صغیر جنوبی ایشیاء کا سب سے بڑا صادق پبلک سکول ، دنیا کی سب سے بڑی سنٹرل لائبریری ، جامعہ الازہر کی طرز پر جامعہ عباسیہ ، بہاولپور میں بہت بڑا سٹیڈیم ، سب سے بڑا چڑیا گھر اور 1906ء میں ہندوستان کا سب سے بڑا وکٹوریہ ہسپتال قائم کیا ۔ بہاولپورکے محلات اتنے شاندار تھے کہ یورپ بھی ان پر رشک کرتا تھا ، محلات میں فرنیچر پر سونے کے کام کے علاوہ برتن بھی سونے کے تھے ۔ سرائیکی قوم کی خوشحالی کا یہ عالم تھا کہ وسیب کے لوگوں نے طلے والا کھسہ یعنی سونے کی تاروں والے جوتے پہنے ۔ کوئی مانے یا نہ مانے یہ حقیقت ہے کہ پاکستان کے وجود کی عمارت مقامی افراد کی سر زمین پر قائم ہے، اسے کوئی گملے کی شکل میں ہندوستان سے اُٹھا کر نہیں لایا ۔ مہاجر بھائیوں کی اولادیں جو یہاں پیدا ہوئی وہ اس دھرتی کے بیٹے ہیں ، ان کو فاتحانہ طرز و فکر اختیار کرنے کی بجائے اسی وسیب کا حصہ بننا چاہئے۔ حکمرانوں کی بے توجہی کے باعث آج پاکستان کے مقامی باشندوں کی حالت دیکھئے، وہ مسائل کا شکار ہیں۔ وہ صرف وسائل سے محروم نہیں ہوئے ، ان کی زبان ، تہذیب و ثقافت بھی خطرات کا شکار ہے۔ یوم پاکستان کے موقع پر ’’میں بھی پاکستان ہوں تو بھی پاکستان ہے ‘‘ اور اسی طرح ’’ یہ تیرا پاکستان ہے ‘ یہ میرا پاکستان ہے ‘‘ کے ملی نغمے ریڈیو پاکستان پر چلائے جاتے ہیں لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ اس کا عملی مظاہرہ بھی کیا جائے تاکہ قیام پاکستان کی برکات سے سب استفادہ کر سکیں۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ کئی ادارے اب ثقافت کے رنگوں کی بات کرتے ہیں اور انسانی زندگی میں زبان کی اہمیت کو اجاگر کرتے نظر آتے ہیں۔ اسی طرح پاکستان میں بسنے والی اقلیتوں کے حقوق کو بھی اجاگر کیا جا رہا ہے جو کہ امن عالم کیلئے نہایت ہی مثبت پیغام ہے۔ (ختم شد)