معزز قارئین!۔ کل ( 31 جولائی کو) پاکستان میں اور کئی بیرونِ ملکوں میں ’’مادرِ ملّت ‘‘ محترمہ فاطمہ جناحؒ کا 126 واں یوم ولادت عقیدت و احترام سے منایا گیا لیکن، پاکستان میں کئی سال سے سرکاری طور پر مادرِ ملّت کی سالگرہ اور برسی منانے کا رواج نہیں ہے۔ 9 جولائی 2003ء کو’’ مادرِ ملّت ‘‘ کی 50 ویں برسی سے پہلے ہی ، صدر جنرل پرویز مشرف کی طرف سے 2003ء کو ’’ مادرِ ملّت کا سال‘‘ قرار دِیا گیا تھا لیکن، آصف زرداری نے اپنے دورِ صدارت میں اپنی ہمشیرہ فریال تالپور کو ’’ مادرِ ملّت ثانی‘‘ مشہور کردِیا تھا اور ستمبر 2017ء کو کیپٹن ( ر) محمد صفدر نے بھی اپنی ’’ خوش دامن‘‘ بیگم کلثوم نواز کو ’’ مادرِ ملّت ثانی‘‘ کا خطاب دِیا تھا۔اللہ ، اللہ خیر صلّا!۔ 2 جنوری 1965ء کے صدارتی انتخاب سے پہلے ’’فیلڈ مارشل ‘‘ صدر محمد ایوب خان نے پاکستان کے ہر عاقل و بالغ شخص (مرد اور عورت) کو ووٹ کے حق سے محروم کر کے ، مشرقی اور مغربی پاکستان کے صِرف 80 ہزار منتخب ممبرانِ بنیادی جمہوریت کو ووٹ کا حق دِیا تھا۔ صدر محمد ایوب خان کے مقابلے میں ، قائداعظمؒ کی ہمشیرہ ، محترمہ فاطمہ جناحؒ کو کونسل مسلم لیگ نے اپنا امیدوار نامزد کِیا ، پھر ’’ مادرِ ملّت ‘‘ متحدہ اپوزیشن کی امیدوار بن گئیں ۔ ’’ مفسرِ نظریۂ پاکستان‘‘ جناب مجید نظامی نے محترمہ فاطمہ جناح ؒ کو ’’مادرِ ملّت ‘‘ کا خطاب دِیا۔ صدر ایوب خان نے اِس خوف سے کہ ’’کہیں الیکشن کمیشن آف پاکستان اُنہیں ’’سرکاری ملازم‘‘ (فیلڈ مارشل ) کی حیثیت سے انتخاب کے لئے نااہل ہی قرار نہ دے دے؟، اپنے 2 وزیروں محمد شعیب اور ذوالفقار علی بھٹو کواپنے "Covering Candidates" نامزد کردِیا تھا‘‘۔ صدر ایوب خان کو "Daddy" کہنے والے جنابِ بھٹو پر زیادہ اعتماد تھا ۔ تحریکِ پاکستان کی مخالف ’’جمعیت عُلمائے ہند‘‘ کی باقیات ’’ جمعیت علماء اسلام ‘‘ کے امیر ( فضل اُلرحمن صاحب کے والد ِ مرحوم ) مفتی محمود صاحب نے 7 نومبر 1964ء کو ملتان میں ’’ جمعیت علماء اسلام‘‘ کی مجلس شوریٰ سے خطاب کرتے ہُوئے فتویٰ دِیا کہ ’’ شریعت کے مطابق محترمہ فاطمہ جناحؒ سربراۂ مملکت کے عہدے کے لئے نااہل ہیں ‘‘۔ معزز قارئین!۔ مَیں 1964ء ۔1965ء میں سرگودھا میں جنابِ مجید نظامی کے روزنامہ ’’ نوائے وقت ‘‘ کا نامہ نگار تھا۔ مَیں نے نہ صِرف سرگودھا بلکہ پنجاب کے کئی شہروں میں ’’ مادرِ ملّت ‘‘ کو صدر ایوب خان کی آمریت کو للکارتے دیکھا اور سُنا ۔ لاہور میں بھی۔ سرگودھا میں ’’ تحریک پاکستان ‘‘ کے (گولڈ میڈلسٹ) کارکن قاضی مُرید احمد ’’ مادرِ ملّت‘‘ کی انتخابی مہم کے انچارج تھے۔ ’’ تحریکِ پاکستان‘‘ کے (گولڈ میڈلسٹ) کارکن میرے والد صاحب رانا فضل محمد چوہان سے اُن کی دوستی تھی۔ پھر میری بھی دوستی ہوگئی ۔ دسمبر 1964ء کے اواخر میں ، قاضی مُرید احمد (مرحوم) مجھے اور میرے (مرحوم ) صحافی دوست تاج اُلدّین حقیقتؔ کو ، کونسل مسلم لیگ کے مندوبین کی حیثیت سے لاہور لے آئے۔ ’’ مادرِ ملّت‘‘ کونسل مسلم لیگ کے ایک لیڈر میاں منظر بشیر کے گھر ’’ المنظر‘‘ میں قیام پذیر تھیں ۔ قاضی صاحب نے ہم دونوں کی ’’ مادرِ ملّت‘‘ سے ملاقات کرائی۔ ہمارے ساتھ ’’ تحریکِ پاکستان‘‘ کے دو کارکنوں ۔ لاہور کے مرزا شجاع اُلدّین بیگ امرتسر ی اور پاکپتن کے میاں محمد اکرم نے بھی ’’ مادرِ ملّت‘‘ سے ملاقات کی۔ پھر اُن دونوں سے میری دوستی ہوگئی۔ میاں محمد اکرم (مرحوم) اردواور پنجابی کے معروف شاعر اور صحافی برادرِ عزیز سعید آسیؔ کے والد تھے اور مرزا شجاع اُلدّین بیگ امرتسری "P.E.M.R.A." کے چیئرمین پروفیسر محمد سلیم بیگ کے والد ۔ ’’ تحریکِ پاکستان‘‘ کے دَوران امرتسر میں، مرزا شجاع اُلدّین بیگ امرتسری کا آدھے سے زیادہ خاندان سِکھوں سے لڑتے ہُوئے شہید ہوگیا تھا۔ اگر پاکستان کے ہر ووٹر کو ووٹ کاحق ہوتا تو’’ مادرِ ملّت‘‘ یقینا صدر ایوب خان کوشکست دے دیتیں لیکن، اِس کے باوجود ۔ صدر ایوب خان نے 62.7 فیصد اور ’’مادرِ ملّت‘‘ نے 36 فیصد ووٹ حاصل کئے اور ’’ مادرِ ملّت‘‘ نے اپنی جدوجہد سے ایوب آمریت کا قلعہ ہلا کر رکھ دِیا تھا۔ مَمَیں نے اپنے کالم میں بار بار لِکھا ہے کہ ’’ مادرِ ملّت‘‘ محترمہ فاطمہ جناحؒ نے جنوری 1965ء کے صدارتی انتخاب میں اپنی تقریروں کے ذریعے وہی کردار ادا کِیا تھا جو، واقعہ کربلا کے بعد بنتِ مولا علی ؑ حضرت زینب سلام اللہ علیہا نے اپنے خطابات سے کِیا تھا‘‘۔ صدر منتخب ہونے کے بعد اگر فیلڈ مارشل کو ، ستمبر 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں ، افواجِ پاکستان کے ناقابل ِ فراموش کردار سے سہارا نہ ملتا تو، اُن کا بہت پہلے ہی ’’بولو رام‘‘ ہو گیا ہوتا ؟۔ معزز قارئین!۔ نومبر 2001ء میں صدر جنرل پرویز مشرف ، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرنے کے لئے گئے تو، مَیں بھی اُن کی میڈیا ٹیم کا ایک رُکن تھا۔ ڈیوٹی کے بعد مَیں نے 1992ء سے نیو یارک میں "Settle" اپنے بڑے بیٹے ذوالفقار علی چوہان کے گھر قیام کِیا۔ ایک دِن ذوالفقار علی چوہان اور میرا چھوٹا بیٹا انتظار علی چوہان مجھے نیویارک بندر گاہ کے درمیان ’’ جزیرہ ٔ آزادی‘‘ (Liberty Island) میں نصب ’’مجسمۂ آزادی ‘‘ (Statue of Liberty) دِکھانے لے گئے۔ یہ مجسمہ 28 اکتوبر 1886ء کو اہلِ فرانس کی طرف سے امریکیوں کو تحفے میں دِیا گیا تھا۔ مجسمۂ آزادیؔ ۔ فرانسیسی مجسمہ ساز "Mr.Frederic Auguste Bartholdi" نے رومن دیوی "Libertas" کے نمونے پر بنایا تھا۔ ’’مجسمۂ آزادی ‘‘ رومن لباس پہنے ایک مشعل بردار خاتون۔ جِس کے ہاتھ میں قانون کی تختی بھی ہے اور غلامی کی ٹوٹی ہُوئی زنجیریں اُس کے پیروں میں پڑی ہیں۔ دُنیا کے کسی بھی کونے سے، جب بھی کوئی شخص، سرکاری یا نجی دورے پر نیویارک جاتا ہے تو، میزبان اُسے’’مجسمۂ آزادی ‘‘ ضرور دِکھاتے ہیں ۔ وطن واپسی پر مَیں نے جب، بھی ’’ مادرِ ملّت ‘‘ کی سالگرہ اور برسی پر کالم لِکھا تو مجھے وہ ، عفت مآب حضرت مریم ؑ اور آزادی کی رومن دیوی "Libertas" کے رُوپ میں نظر آئیںاور میرے تصّور میں نیویارک میں نصب ’’مجسمۂ آزادی ‘‘ (Statue of Liberty) آجاتا تھا ۔ قدیم ادوار میں اور بعد میں بھی دُنیا کے مختلف مذاہب میں ’’دیو مالا‘‘ (Mythology) کا بنیادی کردار رہا ہے ۔ قدیم یونان، ہندوستان ، روم ، چین ، مصر ، عراق اور کئی دوسرے ملکوں میں مذاہب کی ابتدائی شکل ’’ دیو مالا‘‘ ہی تھی۔ ہندوئوں نے پُوجا پاٹھ کے لئے 6 کروڑ دیوتا اور دیویاں بنا رکھی ہیں۔ 5 اگست 2013ء کو ’’ ایوانِ کارکنانِ تحریک پاکستان‘‘ میں ’’ مادرِ ملّت کمیٹی‘‘ کی کنوینر ، پروفیسر ڈاکٹر پروین خان کی صدارت میں منعقدہ کثیر تعداد میں پاکستان کی گریجوایٹس خواتین سے خطاب کرتے ہُوئے جنابِ مجید نظامی نے کہا تھا کہ ’’ پاکستان کی ہر خاتون۔ ہندوئوں کی ہر دیوی سے افضل ہے‘‘۔ مَیں نے اپنے کالم میں لِکھا کہ ’’عجیب بات ہے کہ۔ جنابِ نظامی نے اپنی تحریر یا تقریر میں کبھی نہیں لِکھا کہ’’ پاکستان کاہر مرد ۔ ہندوئوں کے ہر دیوتا سے افضل ہے۔ شاید اِس لئے کہ ، جنابِ نظامی نے قائداعظمؒ کے بعد پاکستان میں کسی دَور میں بھی ’’ مردِ کامل‘‘ نہیں دیکھا‘‘ ۔ معزز قارئین!۔ 14 مارچ 2018ء کو "Alhamra Lahore" میں ’’ نیشنل کالج آف آرٹس ‘‘ کے فارغ اُلتحصیل مجسمہ ساز رضوان حیدر کے تخلیق کئے گئے قائداعظمؒ کے مجسمے کی نقاب کُشائی لاہور آرٹس کونسل کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر کیپٹن (ر) عطا محمد نے کی تھی۔ افسوس ! صد افسوس ! کہ قائداعظمؒ کے مجسمے کی نقاب کُشائی کے لئے صدر ممنون حسین، وزیراعظم شاہد خاقان عباسی ، گورنر پنجاب ملک محمد رفیق رجوانہ اور مسلم لیگ کے نو منتخب صدر میاں شہباز شریف "Available" نہیں تھے ؟ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی شاید اِس لئے شرمندہ تھے کہ ’’ اُنہوں نے 14 اکتوبر 2017ء کو مفتی محمود (مرحوم) کی 44 ویں برسی کے موقع پر وزیراعظم ہائوس کی ایک دیوار میں نصب اُن کی ایک "Four Colour Plaque" ( دھات، چینی وغیرہ کی تختی) کی نقاب کُشائی کی تھی۔ قیام پاکستان کے بعد مفتی محمود صاحب کا یہ بیان "On Rocord" ہے کہ ’’ خُدا کا شکر ہے کہ ہم پاکستان بنانے کے گُناہ میں شامل نہیں تھے؟ ‘‘۔