15 جولائی (پیرکو) قومی اخبارات میں شائع ہونے والی دو خبروں کا آپس میں گہرا تعلق ہے ۔ پہلی خبر یہ کہ ’’بھارتی پنجاب کے وزیر بلدیات، سیاحت و ثقافت ، نوجیت سِنگھ سِدھو ؔنے بھارتی پنجاب کے وزیراعلیٰ کیپٹن ( ر) امریندر سِنگھ سے اختلافات کی وجہ سے وزارت سے اپنا استعفیٰ ( آل انڈیا کانگریس کے صدر ) مسٹر راول گاندھی کو بھجوا دِیا ہے اور دوسری خبر کے مطابق ’’ حکومتِ پاکستان نے سارا سال 5 ہزار سکھ یاتریوں کو روزانہ "Visa Free" گوردوارہ کرتار پور آنے جانے کی اجازت دے دِی ہے‘‘۔ معزز قارئین !۔ یہ "Credit" سِدھو جی کو جاتا ہے کہ وہ بھارت سمیت دُنیا بھر میں آباد سِکھ یاتریوں (زائرین) کے لئے یہ سہولت حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔ 18 اگست 2018ء کو جنابِ عمران خان نے اپنی وزارتِ عظمیٰ کی تقریب حلف برداری میں سِدھو جی کو بھی مہمان کی حیثیت سے مدعو کِیا تھا ۔ اُس موقع پر سِدھو جی کو پاکستان کی مسلح افواج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ سے بھی جپھّی ڈالنے کا اعزاز حاصل ہُوا تھا۔ پھر سّدھو جی کی فرمائش / درخواست پر پاکستان کی طرف سے بھارت کو ( بھارتی پنجاب کے شہر) جالندھر میں واقع کرتار پور سرحد کھولنے کی تجویز پیش کی تھی ، جو بھارت نے سِکھوں کے پہلے گرو، گرونانک دیو جی کے 549 ویں جنم دِن ( سالگرہ) کی تقریبات کے آغاز پر منظور کرلی تھی۔ معزز قارئین!۔ گرو نانک جی توحید پرست تھے اور ہم مسلمان اُن کی بہت عزت کرتے ہیں ۔ سِکھوں کے پانچویں گرو ، گرو ارجن دیو جی کی حضرت میاں میر قادری / لہوری ؒسے دوستی تھی ۔ گرو جی کی درخواست پر حضرت میاں میر صاحب ؒنے 1589ء میں امرتسر میں سِکھوں کے "Golden Temple" کا سنگ ِ بنیاد رکھا تھا لیکن، پنجاب کے سِکھ مہاراجا رنجیت سنگھ (1792ئ۔ 1801ئ) کے حکم سے لاہور کی بادشاہی مسجد میں نصب قیمتی پتھر اُکھڑوا کر گولڈن ٹیمپل میں جڑوا دئیے گئے تو، مسلمان مہاراجا رنجیت سنگھ اور سِکھوں سے نفرت کرنے لگے ۔قیام پاکستان سے قبل حضرت قائداعظمؒ نے سِکھ لیڈروں کو پاکستان کے ساتھ شامل ہونے کی پیشکش کی تھی لیکن ، انہوں نے بھارت کے ساتھ ہی رہنے کو ترجیح دِی ۔ تحریکِ پاکستان کے دوران سِکھوں نے مشرقی پنجاب میں 10 لاکھ مسلمانوں کو شہید کِیا اور 55 ہزار مسلمان خواتین کو اغوا کر کے اُن کی عصمت دری کی تھی۔ سِکھوں کی ریاست نابھہؔ میں ، میرے والد صاحب، تحریک پاکستان کے ( گولڈ میڈلسٹ) کارکن رانا فضل محمد چوہان آل انڈیا مسلم لیگ کے نیشنل گارڈز کو ’’ لٹھ بازی‘‘ سِکھایا کرتے تھے ۔ریاست نابھہؔ، ریاست پٹیالہؔ اور ضلع امرتسر ؔمیں میرے خاندان کے 26 افراد ( زیادہ تر) سِکھوں سے لڑتے ہُوئے شہید ہُوئے تھے ۔ بھارتی پنجاب کے موجودہ وزیراعلیٰ ،کیپٹن(ر) امریندر سنگھ کے آنجہانی ’’پِتا ‘‘ (والد ) یادوِندر سنگھ تقسیم ہند سے پہلے ریاست پٹیالہ کے مہاراجا تھے ، جن کی نگرانی میں سِکھوں نے پٹیالہ کے تقریباً اڑھائی لاکھ مسلمانوں کو شہید کِیا اور لا تعداد مسلمان خواتین کی عصمت دری کی / کرائی تھی۔ تحریک پاکستان کے (گولڈ میڈلسٹ )کارکن جسٹس سیّد جمیل حسین رضوی (مرحوم) ریاست پٹیالہ میں ’’ آل انڈیا مسلم لیگ‘‘کے اُن اکابرین میں سے تھے جنہوں نے پٹیالہ کے مسلمانوں کو سِکھوں کی دہشت گردی سے بچانے میں اہم کردار ادا کِیا تھا ۔ سیّد جمیل حسین رضوی کے صاحبزادے سینئر ایڈووکیٹ سیّد ضیاء حیدر رضوی ،1966 سے میرے لہوری دوست سیّد یوسف جعفری کی وساطت سے میرے بھی دوست ہیں ۔ جب بھی اُن سے میری ملاقات ہوتی ہے تو، نابھہ ، پٹیالہ اور مشرقی پنجاب کے دوسرے شہیدوں کے بارے میں بہت جذباتی ہو جاتے ہیں ۔ 8 جون 2018ء سے 20اگست 2018ء تک پنجاب کے نگران وزیراعلیٰ ڈاکٹر ، پروفیسر حسن عسکری رضوی کو سیّد جمیل حسین رضوی کا نواسہ ہونے کا فخر حاصل ہے۔ معزز قارئین!۔ سِکھوں کو اپنی حماقت کا اُس وقت احساس ہُوا جب ،1984ء میں بھارتی وزیراعظم ( آنجہانی) اندرا گاندھی کے حکم پر بھارت کی ٹینک بردار فوج نے ’’ گولڈن ٹمپل‘‘ پر چڑھائی کی تو وہاں پناہ گزین ہزاوں سِکھ قتل ہُوئے تو، ہزاروں سِکھ بھارت چھوڑ کر ، کینیڈا، امریکہ، برطانیہ اور دوسرے یورپی ملکوں میں آباد ہوگئے جہاں وہ ’’ آزاد خالصتان‘‘ اور ’’سانجھا پنجاب‘‘ (Greater Punjab) کی تحریک چلا رہے ہیں ۔ مجھے 2 دسمبر 2004ء کو وزیراعلیٰ پاک پنجاب چودھری پرویز الٰہی کی میڈیا ٹیم کے رُکن کی حیثیت سے بھارتی پنجاب کے شہر پٹیالہؔ میں منعقدہ ’’ عالمی پنجابی کانفرنس‘‘ میں شریک ہونے کا موقع مِلا۔ ’’ پنجابی یونیورسٹی پٹیالہ‘‘ کے سائنس آڈیٹوریم میں بھارتی صحافی/ دانشور (آنجہانی) کلدیپ نائر صاحب کی صدارت میں منعقدہ تقریب میں بھارتی سِکھ شاعروں، ادیبوں ، دانشوروں اور صحافیوں نے ’’ سانجھا پنجاب‘‘ کی بات کی اور اُن کی حمایت میں پاک پنجاب کے شاعروں، ادیبوںاور دانشوروں نے بھی تو، مَیں نے اپنی تقریر میں کہا کہ ’’پاک پنجاب تے بھارتی پنجاب دِی سرحدی لکیر وِچ میرے بزرگاں دا لہو شامل اے ۔ (پھر مَیں نے اپنے مُنہ پر ہاتھ پھیر کر کہا کہ )۔مَیں تے ایس لکیر نُوں کدی نئیں مِٹن دیاں گا‘‘۔ پھر مَیں نے سٹیڈیم میں اپنے لئے ناپسندیدہ چہرے دیکھے! ۔ سِکھوں اور پاک پنجاب میں اُن کے حمایتی شاعروں ، ادیبوں صحافیوں اور دانشوروں کی خواہش ہے کہ ’’ پاک پنجاب اور بھارتی پنجاب میں بولی جانے والی پنجابی زبان میں سے عربی، فارسی، اردو ، ہندی اور سنسکرت کے الفاظ نکال دئیے جائیں حالانکہ ، پاک پنجاب اور بھارتی پنجاب میں لِکھی اور بولی جانے والی پنجابی دو مختلف زبانیں ہیں ۔ میری نظم کا ایک شعر ہے … اِک مُک نئیں کر سکدا کوئی، گولا نہ کوئی گولی! وکھری پاک پنجاب دی بولی، وکھری سِکھّی بولی! 28نومبر 2018ء کو وزیراعظم عمران خان نے ( پاکستان کے علاقہ ) نارووال میں کرتار پور راہداری کا سنگِ بنیاد رکھا۔ دوسری طرف بھارتی صدر "Mr. Venkaiah Naidu" نے ’’کرتار پور راہداری ‘‘ کا سنگ بنیاد رکھا ۔ اُس کے ساتھ ہی وزیراعلیٰ کیپٹن (ر) امریندر سنگھ نے (بھارتی سِکھوںکی طرف سے ) تجویز پیش کی کہ ’’ گرو نانک جی کے ’’مرن استھان ‘‘ کرتار پور جانے والے بھارتی سِکھوں پر پاسپورٹ اور ویزا کی پابندی ختم کردِی جائے‘‘۔ اِس پر ’’سِکھوں کے لئے تونیا پاکستان بن گیا؟‘‘ کے عنوان سے 30 نومبر 2018ء کو مَیں نے اپنے کالم میں لکھا تھا کہ … کیا اب ایسا ممکن ہوگا کہ ’’جب پاکستان سے ’’مسلمان یاتری‘‘اجمیر شریف میں خواجہ غریب نواز نائب رسولؐ فی الہند خواجہ معین اُلدّین چشتی اجمیریؒاور دہلی میں 22 خواجگان اور سرہند شریف میں امام ربانی حضرت مجدد الف ثانی ؒ کی درگاہوں میں حاضری دینے جائیں گے تو کیا اُنہیں بھی پاسپورٹ اور ویزا کی ضرورت نہیں پڑے گی؟‘‘ اب مَیں کیا کروں ؟کہ 14 مارچ سے 24 اپریل 2019ء تک اجمیر شریف میں خواجہ غریب نواز ؒ کے 789 ویں عُرس مبارک کی تقریبات میں شرکت کے لئے بھارتی حکومت نے پاکستانی زائرین کو ویزا دینے سے انکار کردِیا تھا ؟۔ 14 جولائی (اتوار کو) کرتار پور راہداری کھولنے کے منصوبے پر پاکستان اوربھارت کے درمیان ہونے والے مذاکرات کے دوسرے مرحلے پر پاکستان کے 12 رُکنی وفد کی قیادت کرنے والے ترجمان وزارت ِ خارجہ، ڈاکٹر محمد فیصل نے واہگہ بارڈر پر ’’ امن کاپودا ‘‘ لگایا اور کل (17 جولائی بدھ کو ) مَیں نے خبر پڑھی کہ ’’ ( پاکستانی وقت کے مطابق 7 بجے شام ) بھارتی دہشت گرد کُل بُھوشن (Kul Bhooshan) کے خلاف عالمی عدالت میں مقدمے کا فیصلہ سننے کے لئے اٹارنی جنرل آف پاکستان جناب انور منصور خان کی قیادت میں وزارتِ خارجہ کے ڈائریکٹر جنرل (سارک )ڈاکٹر محمد فیصل وغیرہ بھی وہاں پہنچ چکے ہیں ؟۔ معزز قارئین ! ۔ مَیں نے کُل بُھوشن کے بارے میں فیصلہ سننے سے پہلے ہی کل سہ پہر تین بجے اپنا کالم دفتر روزنامہ’’ 92 نیوز‘‘ کو بھجوا دِیا تھا ۔ جو فیصلہ ہُوا وہ آج آپ اخبارات میں پڑھ لیں گے۔ اِس فیصلے پر ڈاکٹر محمد فیصل صاحب ، واہگہ بارڈر کی طرف مُنہ کر کے (بھارتیوں کو) امن کا کیا پیغام دیں گے ؟ ۔ فیصلہ تو ہماری حکومت نے کر ہی لِیا ہے کہ’’ امن کا پودا ، ایک تناور درخت بننے تک روزانہ 5 ہزار سِکھ یاتری ویزا کے بغیر پاکستان آتے جاتے رہیں گے؟‘‘۔