مستنصر حسین تارڑ صاحب ایک واقعہ اکثر بیان کرتے ہیںکہ جب ان کا مشہورناول راکھ شائع ہوا توآپا بانو قدسیہ کو وہ پسند آیا۔ کسی تقریب میں ملاقات ہوئی تو بانو آپا نے کہا ،’’تارڑ صاحب اب آپ کو کچھ اور لکھنے کی ضرورت نہیں، یہ اتنا بڑا ناول لکھ دیا ہے، یہ کافی ہے۔‘‘راکھ کو وزیراعظم ادبی ایوارڈ بھی ملا۔ چند برسوں کے بعد تارڑ صاحب کا ناول بہائو شائع ہوا۔ بہائو نے برصغیر پاک وہند کے ادبی حلقوں میں ہلچل مچا دی، اسے اردو کے چند بہترین ناولوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ بانو آپا کو یہ ناول بہت پسند آیا۔انہوں نے ملاقات پر تارڑ صاحب کو کہا کہ اب مزید لکھنے کی ضرورت نہیں، اتنے بڑے شاہکار کے بعد قلم رکھ دینا چاہیے۔ تارڑ صاحب نے احترام کے ساتھ بانو آپا کو یاد دلایا،’’ آپ نے راکھ ناول کے بعد یہی کہا تھا، اس وقت اگر آپ کا مشورہ مان لیتا تو بہائو کیسے لکھا جاتا؟‘‘ بات بالکل درست ہے۔ تخلیقی عمل جاری رہنا چاہیے، اسی عمل کے دوران کسی کو پتہ نہیں چلتا کہ کیسا شاہکار تخلیق ہوجائے گا۔ یہ فیصلہ وقت کرتا ہے۔ تارڑ صاحب تو خیر اردو کے بہت بڑے فکشن نگار ہیں، اس عہد کے لیجنڈ ۔ بانو آپا خود بڑی مصنفہ تھیں۔ ان بڑے لوگوں کی باتیں توخیر الگ دنیا کی ہیں،ہمارے جیسے عام صحافی حضرات اور عام لکھنے والوں کے لئے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوجاتا ہے کہ اپنی تحریروں کو کتابی شکل دی جائے یا نہیں۔ خدشہ ہوتا ہے کہ جو کچا پکا لکھا جاتا ہے ، وہ اگر چھپ گیا تو پھر ریکارڈ پر رہے گا اور پھر شائد اسے مٹانا آسان نہ ہو۔ دوسری طرف یہ خواہش اور امید ہوتی ہے کہ شائد اپنی تحریر کے ذریعے ہم کچھ وقت زندہ رہ پائیں، اپنی اگلی نسل ہی کو اپنی کتاب ورثے میں دے جائیںگے۔ دوسری طرف یہ ذہنی رکاوٹ یا بیرئر بھی موجود ہے کہ اتنی بڑی بڑی کتابیں پڑھنے کے بعد عام اور سادہ تحریروں پر مبنی کتاب چھپواتے ہوئے ججھک اور شرم آڑے آتی ہے۔ طویل عرصہ تک میں خود اسی مخمصے کا شکار رہا ۔اپنے ابتدائی زمانے کی تحریریں کبھی سنبھالی نہیں۔ اردو ڈائجسٹ میں خاصا لکھا۔ان میں سے ایک آدھ تحریرہی کہیں محفوظ ہوگی۔ کالم لکھنے کا آغاز ایکسپریس اخبار سے 2004 میں کیا۔ کالموں کا انتخاب شائع کرنے سے گریزتھا۔ بہت پیارے اور مخلص دوست مشہور آئی سرجن ڈاکٹر انتظار بٹ ہمیشہ اصرار کرتے کہ کتاب شائع کریں۔ میں ٹال دیتا۔ اس دوران ایکسپریس اخبار کے رنگین صفحات اور میگزین میں بے شمار تحریریں لکھیں، کوئی ایک بھی پاس موجود نہیں۔انہی دنوںاپنے کالموں میں عسکریت پسندی پر بے تہاشا لکھا۔ صرف اس موضوع پر کتاب شائع ہوسکتی تھی۔ عدلیہ کی بحالی کی تحریک میں بہت کچھ لکھا۔ جب جنرل مشرف نے ایمرجنسی نافذ کی تو کئی علامتی کالم لکھے، تاریخ میں جدوجہد کرنے والے سربلند ججوں کی کہانیاں ڈھونڈ ڈھونڈ کر لکھیں۔ یہ سب لکھا بکھر گیا۔ اکٹھا کرتا تو کتاب بن جاتی، ان دنوں کی تاریخ اپنے انداز میں رقم ہوجاتی۔ 2012ء میں آخرکار اپنے پچھلے سات آٹھ سو کالموں میں سے اکیاسی، بیاسی کالم نکالے اور ایک کتاب مرتب کی۔ اس کتاب کو شائع کرانے میں مزید پانچ برس لگ گئے۔ آخر جنوری 2017 ء میں پہلی کتاب زنگار شائع ہوئی، اس کے تین برس بعد فروری 2020 ء میں دوسری کتاب زنگار نامہ شائع ہوئی۔ جنوری 2021ء میں پہلی کتاب زنگار کا نیا ایڈیشن شائع ہوا۔پہ پہلی کتاب زنگار 2012 میں مرتب کی جو پانچ سال بعد 2017میں چھپی، دوسری کتاب زنگارنامہ تین سال بعد فروری 2020 میں آئی۔ آج میں سمجھتا ہوں کہ کتاب چھپوانے میں اتنی دیر نہیں کرنی چاہیے تھی۔کالموں کے علاوہ دیگر موضوعات پر بھی کتابیںلکھتا۔ سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ آدمی آگے کی طرف بڑھتا ہے۔ لاشعوری طور پر ذہن میں آ جاتا ہے کہ اگلی کتاب پہلے سے بہتر ہونی چاہیے۔ اب مجھ سے کوئی دوست کتاب کے بارے میں مشورہ کرے تو اس کی تائید کرتا ہوں۔ یہ حقیقت ہے کہ کتابیں انسان کی زندگی تبدیل کر دیتی ہیں۔ لکھنے والے آدمی کو بہت عجلت بھی نہیں کرنی چاہیے ،مگر کتاب چھپوانے میںزیادہ دیر بھی نہ کی جائے۔ ہر کوئی مشتاق احمد یوسفی، شمس الرحمن فاروقی، انتظار حسین، مستنصر حسین تارڑ نہیں بن سکتا۔ اس سے مگر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ایک بہت وسیع میدان ان لیجنڈز کی وادیوں سے باہر بھی موجود ہے، اسے ہم آپ شیئر کر سکتے ہیں۔ آج کل میں بیک وقت تین کتابوں پر کام کر رہا ہوں۔ اپنے کچھ متفرق کالم اور دیگر غیر مطبوعہ تحریریں، میگزینوں کے لئے کئے گئے انٹرویوزکا مجموعہ اور پاک افغان خطے میں ہونے والی عسکریت پسندی پر کتاب۔اس کے علاوہ اپنی پسندیدہ سو کتابوں پر بھی مضامین لکھنے اور ان کی کتاب بنانے کا ارادہ ہے۔ قبلہ سرفراز شاہ صاحب کے افکار اور شخصیت پر کتاب کا منصوبہ ہے۔ عمر کی نصف سنچری زیادہ دور نہیں، اس میں جو بیتی، کیا کچھ سیکھا،اخذ کیا، اسے بھی اگر رب نے ہمت دی تو لکھ ڈالوں گا۔یہ چار پانچ یا چھ کتابوں کے پراجیکٹ ہیں۔ اللہ نے توفیق دی تو دو تین کتابیں اسی سال آ جائیں گی، باقی پائپ لائن میں رہیں گی۔ کتابوں کے حوالے سے ایک بڑا قدم برادرم عارف انیس ملک نے اٹھایا ہے۔ عارف انیس کی شخصیت متنوع خصوصیات کی حامل ہے، وہ سول سروس کا امتحان پاس کر کے بیوروکریٹ بنے، پھر اپنے دیرینہ خواب پورے کر نے کے لئے طویل رخصت لے کر باہر گئے، اپنے پسندیدہ تعلیمی اداروں سے کورسز کئے،سرٹیفائیڈ سائیکالوجسٹ ،انٹرنیشنل فیم پروفیشنل ٹرینر، کوچ، سٹریٹجسٹ ہیں۔ کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ ان کی کتاب آئی ایم پاسبیل کے کئی ایڈیشن فروخت ہوئے، کورونا سے تھوڑا پہلے کتاب گوروں کے دیس میں آئی، اس کے دو تین ایڈیشن نکل چکے۔ ان کی انگریزی کتابیں فالو یور ڈریم اور میڈ ان کرائسس عالمی سطح پر پزیرائی حاصل کر چکیں۔ عارف انیس ٹونی بیوزان، ٹونی رابنز، برائن ٹریسی اور دیگر عالمی شہرت یافتہ سپیکرز کے ساتھ کام کر چکے ہیں، عار ف کو پچھلے سال برطانیہ کا مشہور برین ایوارڈ دیا گیا۔ رئیس امروہی نے ایک بار سید قاسم محمود کے بارے میں کہا تھا یہ قدیم داستانوں کے کردار دیو ہزار دست کی مانند ہیں، ہر وقت کسی نہ کسی پراجیکٹ میں الجھے رہتے ہیں۔ سید صاحب ایسے ہی شخص تھے۔ ہمارے عارف انیس بھی انہی کی راہ پر ہیں۔ یہ بھی نت نیا پراجیکٹ شروع کرتے رہتے ہیں۔ ان کے فیس بک پیج(www. facebook.com/ Arif. Anees. Malik) کو فالو کرنے والے ایک حیران کن تجربے سے گزرے جب پچھلے چند ماہ میں عارف نے مختلف نفسیاتی اور موٹیویشنل ایشوز پر ہر روز ایک پوسٹ کی اور قارئین کے فیڈ بیک کو شامل کرتے ہوئے ایک کتاب صبح بخیر زندگی ترتیب دے ڈالی۔ یہ ایک منفرد تجربہ تھا ۔ عارف انیس ملک نے اب ایک ہزار کتابیں لکھوانے کے منصوبے کی بنیاد ڈالی ہے۔اس کی مشن سٹیٹمنٹ کے مطابق اگلے پانچ برسوں میں فکشن اور نان فکشن کیٹیگریز میں ایک ہزار کتابیں چھپوانا ہے تاکہ نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی ہوسکے اورنئی ٹیکنالوجی کے ساتھ نیا مواد تخلیق ہوسکے جو سوچ ، فہم اور عمل کے نئے دریچے کھول سکے۔ انہوں نے اس موضوع کو اپنی فیس بک وال پر چھیڑا، لوگوں کو موٹیویٹ کیا اور اب ٹیلی گرام پرہزار داستان گروپ تشکیل پا چکا ہے۔ کئی سو لوگ اس میں رجسٹریشن کرا چکے ہیں، زوم پر اس کے تربیتی سیشن بھی ہوچکے،۔ٹیلی گرام ایپ پر اس لئے کہ وہاں ایک چینل میں ہزارسے زائد لوگ بھی ایڈ کئے جا سکتے ہیں اور سینکڑوں جی بی ڈیٹا اپ لوڈ ہوسکتا ہے۔ عارف کا فوکس نہ صرف کتاب لکھوانا ہے بلکہ اسے کمرشل اعتبار سے منافع بخش بنانا ہے، اس پر وہ لیکچرز اور ٹپس دے رہے ہیں۔ شرکا کو کہا گیا ہے کہ اپنی کتاب کی پروپوزل سمری بنا کر بھیجیں۔ عارف انیس کا خیال ہے کہ ہر شخص کی زندگی ، پروفیشن اور اس کے اردگرد اتنا کچھ ہے کہ وہ اس پر کم از کم ایک کتاب لکھے۔ بس ضرورت اس امر کی ہے کہ وہ سلیقے اورمہارت کے ساتھ یہ کام کرے اور کتاب پر پیسے برباد کرنے کے بجائے اس سے کچھ کمائے یا کم از کم گھاٹے کا سودا نہ کرے۔ عارف کا اصرا ر ہے کہ نہ صرف فکشن(ناول ، افسانہ وغیرہ) اورشاعری بلکہ نان فکشن میں بے شمار موضوعات پر لکھا جا سکتا ہے۔ ڈاکٹرز اور نرسز وغیرہ اپنے متنوع طبی تجربوں پر لکھیں، وکیل، آرکیٹیکٹ، سوشل ورکر، استاد، سپیشل بچوں کو تعلیم دینے والے ، بیوٹی پارلر والے اور جانے کتنے شعبے ہیں جن سے تعلق رکھنے والے کبھی اپنے تجربات، مشاہدات شیئر نہیں کرتے۔ ان پر لکھا جانا چاہیے۔ عار ف نے بعض معروف پبلشروں سے بھی بات کی اور خاص طور سے ڈیجیٹل پبلشنگ کے حوالے سے بہت سوں کو متوجہ کیا ہے۔ مزے کی بات ہے کہ عارف انیس ملک کی یہ سب کنسلٹنسی مفت ہے۔ صرف شرکا کے لئے کتاب لکھنے کا عزم،استقامت اور پھر اسائنمنٹ کو باقاعدگی سے مکمل کرنے کی شرط ہے۔ ایک قدم عارف انیس نے اٹھایا، کئی دوسرے اسے اپنے انداز میں کر سکتے ہیں۔ اہم بات کتابیں لکھوانا، انہیں پروموٹ کرنا اور قوم کو خاص کر نئی نسل کو کتاب پڑھنے کی عادت ڈالنا ہے۔ یہ واحد لت ہے جو آدمی کوبلندیوں پر لے جاتی ہے۔ مجھے، آپ کو،ہم سب کو کتاب پھیلانے، کتاب لکھوانے، کتاب پڑھوانے کی جدوجہد میں شامل ہونے کی ضرورت ہے۔ یہ ہمارا فرض ہے، اسے فرض کی طرح ہی ترجیح دینا ہوگی۔