وَزیراعظم عمران خان نے فروری کے پہلے ہفتے میں چین کا چار روزہ دورہ ایک ایسے وقت میں کیا ہے جب میڈیا میں اسلام آباد اور بیجنگ کے درمیان دوطرفہ تعلقات میں جمود کے بارے میں غلط فہمی پھیلی ہوئی تھی۔ یہ غلط فہمی چین پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) منصوبے میں سست رفتاری کی وجہ سے سامنے آئی۔ اس دورے کا بظاہر مقصد بیجنگ میں منعقد ہونے والی سرمائی اولمپکس کی افتتاحی تقریب میں شرکت کرتے ہوئے اَپنے دِیرینہ اور پرانے دوست کے ساتھ اس وقت یکجہتی کا اظہار کرنا تھا جب اَمریکہ اور اسکے کچھ قریبی اِتحادی مغربی ملکوں نے بیجنگ میں منعقدہ سرمائی اولمپکس کی افتتاحی تقریب کا سفارتی بائیکاٹ کیا۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ پاکستان اور چین کے دوطرفہ باہمی تعلقات گزشتہ سات دہائیوں کے دوران ہونے والی وقت کی آزمائشوں سے کامیابی سے گزر کر اس مرحلے پر پہنچ چکے ہیں جہاں دونوں ممالک خطے میں امن و استحکام سمیت اپنے مشترکہ مقاصد کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک دوسرے سے دور نہیں ہو سکتے۔ یہ وزیر اعظم کا چین کا دوسرا دورہ تھا کیونکہ انہوں نے بطور وزیر اعظم پہلا دورہ 2019 میں کیا تھا۔ پاکستانی قیادت نے گزشتہ دو سالوں سے کورونا کی وجہ سے دنیا می عائد بیرونی سفر کی پابندیوں کی وجہ سے چین کا دورہ نہیں کرسکی اور CPEC اسٹریٹجک پارٹنرشپ کے تناظر یہ ایک انوکھی بات معلوم ہوتی ہے کیونکہ سی پیک کے آغاز کے بعد پاکستانی قیادت کا چین کے مسلسل دورے کرنا ایک نارمل بات ہے۔پاکستان کے وزیر اعظم کے حالیہ دورہ چین کے دوران انتہائی ضروری "صنعتی تعاون پر فریم ورک ایگریمنٹ" پر دستخط کیے گئے جسے CPEC منصوبے کے تحت تعلقات کے پورے دائرے میں سنگ میل سمجھا جاتا ہے۔ یہ فریم ورک معاہدہ چین اور دنیا کے دیگر حصوں سے پاکستان میں خصوصی اقتصادی زون (SEZs) میں صنعتوں اور سرمایہ کاری کی منتقلی میں سہولت فراہم کرے گا۔ یہ معاہدہ CPEC کے دوسرے مرحلے اور اس کے مستقبل کے لائحہ عمل کے لیے ایک اہم اہمیت کا حامل ہے۔ صنعتی تعاون 2016 میں CPEC کے تحت قائم کیے گئے 10 مشترکہ ورکنگ گروپس میں سے ایک ہے اور 2018 میں پاکستان کے بورڈ آف انویسٹمنٹ (BOI) اور چین کے نیشنل ڈویلپمنٹ اینڈ ریفارم کمیشن(NDRC) کے درمیان اپنے متعلقہ ممالک کی نمائندہ سرکردہ ایجنسیوں کی حیثیت سے ایم او یو (MoU) پر دستخط کیے گئے تھے۔ جیسے ہی CPEC اپنے دوسرے مرحلے میں داخل ہوا، جامع فریم ورک معاہدے کی ضرورت ناگزیر ہو گئی۔ لہذا، MoU کو ایک فریم ورک معاہدے میں تبدیل کرنا دونوں ممالک کے درمیان تعاون کی زیادہ سے زیادہ صلاحیتوں کے استعمال کو یقینی بنانے کے لیے ایک بروقت اقدام ہے۔ معاہدہ خیبرپختونخوا میں رشکئی SEZ، پنجاب میں علامہ اقبال انڈسٹریل سٹی پروجیکٹ، سندھ میں دھابیجی SEZ اور بلوچستان میں بوستان SEZ کی جلد تکمیل پر بنیادی توجہ کے ساتھ نو خصوصی اقتصادی زونز کی ترجیحی ترقی اور آپریشنز پر زور دیتا ہے۔ اس کے علاوہ تین چینی کمپنیوں کے کنسورشیم نے گوادر میں دو سے تین سالوں میں 3.5 بلین ڈالر کا ری پروسیسنگ پارک اور لاہور قصور روڈ پر 350 ملین ڈالر کی لاگت سے 100 ایکڑ اراضی پر مشتمل ایک ٹیکسٹائل کلسٹر قائم کرنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔ پاکستان کے چین کے ساتھ انتہائی قریبی تعلقات ہیں جو سات دہائیوں میں پروان چڑھے ہیں۔ CPEC جیسے منصوبے کے آغاز نے چین اور پاکستان کے درمیان اسٹریٹجک تعلقات میں ایک ٹھوس اقتصادی جہت کا اضافہ کیا ہے، جس سے دیرینہ دوطرفہ تعلقات مزید مستحکم ہوئے ہیں۔ تاہم اِن تعلقات کو تروتازہ رکھنے کے لیے مسلسل رابطوں اور مشاورت کی ضرورت ہے تاکہ کسی بھی قسم کے اَن دیکھے نقصان سے بچاؤ ممکن ہو سکے۔ بہت سے بیرونی عناصر پاکستان اور چین کے درمیان دراڑ اور غلط فہمی پیدا کرنے اور خاص طور پر چین پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) کو ناکام بنانے کے لیے spoilers کے طور پر کام کر رہے ہیں جن سے کامیابی سے نِمٹنا پاکستان کے لیے اِنتہائی اَہم ہے۔ سی پیک کے تحت ہونے والی سرمایہ کاری کے لیے بیوروکریسی کے پیچیدہ طریقہ کار کو مزید آسان بنانے کی ضرورت ہے تاکہ سرمایہ کاروں کی حوصلہ افزائی ہوسکے۔ سی پیک کے منصوبوں پر کام کرنے والے چینی اہلکاروں کی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے بھی فول پروف انتظامات کرنے اور چینی خدشات کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔ اَمریکہ کے ساتھ بہتر تعلقات کا قیام پاکستان کی خارجہ پالیسی کا اہم جزو رہا ہے اور اب بھی پاکستان امریکہ کے ساتھ تعلقات بہتر کرنا چاہتا ہے لیکن امریکہ کی چین کے ساتھ جاری تصادم کی پالیسی سے اِسلام آباد اور واشنگٹن کے مابین تعلقات لامحالہ متاثر ہوں گے۔ اگرچہ پاکستان اِن دو بڑی طاقتوں کی عدوات میں پھنسنے سے بچنا چاہتا ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ جب تک امریکہ اور چین کے تعلقات غیر مستحکم رہیں گے اس کا براہِ راست اثر پاکستان اور امریکہ کے باہمی تعلقات پر بھی پڑے گا خاص طور پر جب اَمریکہ کی اولین ترجیح چین کی بڑھتی ہوئی اِقتصادی اور سیاسی طاقت اور اثر ورسوخ کی روک تھام ہے ۔ سی پیک عہدِ حاضر کے سب سے بڑے اقتصادی منصوبےBelt and Road Initiative کا ایک کلیدی جزو ہے جس کی بروقت تکمیل نہ صرف پاکستان کو اقتصادی اور تزویراتی طور پر مضبوط بنائے گی بلکہ چین کے Inclusive Growth کے تصور کو بھی اجاگر کرے گی۔ اِس صورت حال کے پیش نظر دانشمندی کا تقاضا یہ ہے کہ پاکستان اور چین کے درمیان اِدارہ جاتی سطح پر متواتر مشاورت ایک باقاعدہ چینل کے طور پر کام کرے اور پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا اَگلے مہینے فالو اَپ (up-follow ) کے طور پر چین کا دَورہ کرنے کا اِعلان اِس سمت میں اٹھایا گیا ایک صحیح قدم معلوم ہوتا ہے۔