اردو پر بھپتی کسنے کے لئے بھی عجیب عجیب طرح کے سہارے ڈھونڈے جاتے ہیں۔ فرمایا گیا ہے، عشق و مستی کی جو کیفیت پنجابی زبان میں ملتی ہے وہ اردو میں ناپید ہے۔ یہی بات اگر کوئی پشتون پشتو زبان کے لئے کہے اور وہ یہ سمجھتا ہو کہ یہ خوبی پشتو زبان کے ساتھ خاص ہے تب بھی بات غلط ہی ہوگی۔ یہ بات پیش نظر رہنی چاہئے کہ اس خطے میں سندھی، پنجابی، پشتو اور بلوچی وغیرہ مخصوص اقوام کی مقامی زبانیں ہیں جبکہ عربی فارسی اور اردو قومی زبانیں ہیں جو مختلف ثقافتی پس منظر والوں میں رابطے کا کام دیتی آئی ہیں۔ آپ نے وارث شاہ، شاہ لطیف اور خوشحال خان خٹک کے نام گنوائے۔ ان حضرات نے صرف اس ماحول کو مخاطب کیا جس میں وہ رہ رہے تھے۔ انکی شاعری اپنی زبان اور اپنی ثقافت تک رہی جس کا نقصان یہ ہوا کہ آج اشاعتی ترقی کے دور میں بھی وہ صرف اپنی اپنی ثقافت کے لوگوں میں محدود نظر آتے ہیں۔ پھر ایک اہم چیز یہ ہے کہ انہوں نے فرد کی زندگی کو پیش نظر رکھ کر شاعری کی ہے۔ اجتماعی یا ملی مسائل اور ان کے حل سے ان کا کلام خالی ہے۔ یہ اچھے رویوں کے تو مبلغ رہے لیکن ان کے پاس کسی بھی اجتماعی مسئلے کا کوئی حل نہ تھا۔ اور وجہ اس کی یہی سمجھ آتی ہے کہ اس حوالے سے ان کے پاس کہنے کو ہی کچھ نہ تھا۔ شائد کسی کو خیال گزرے کہ یہ صوفی لوگ تھے اور صوفی فرد کی زندگی کو ہی موضوع بنایا کرتے ہیں تو یہ کہنا درست نہ ہوگا کیونکہ یہ مولانا روم، شیخ سعدی اور علامہ اقبال سے بڑے صوفی نہیں ہیں۔ اور ان تینوں نے اجتماعی زندگی اور اس کے مسائل کو موضوع بنایا ہے۔ اقبال اگر چاہتے تو پنجابی شاعری کر کے "عشق و مستی کی کیفیت" میں ان سب کو پیچھے چھوڑ سکتے تھے لیکن ان کے لئے نیل کے ساحل سے لے کر تا بخاک کاشغر پھیلے مسلمانوں کے اجتماعی مسائل زیادہ اہم تھے اور ان کے پاس اس حوالے سے کہنے کو بھی بہت کچھ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے شاعری کے لئے پنجابی کے بجائے اردو اور فارسی کو چنا۔ نتیجہ یہ کہ وہ صرف پنجابیوں کے شاعر نہ ہوئے۔ آپ وارث شاہ کا کلام پختون ماحول میں فٹ نہیں کر سکتے۔ آغاز میں ہی گڑ بڑ ہو جائے گی۔ جیسے ہی وارث شاہ سرسوں کا کھیت بیان کرے گا پختون کا موڈ بگڑ جائے گا۔ وہ گوشت میں دلچسپی رکھنے والی ثقافت ہے سبزیاں اسے متاثر نہیں کرتیں بلکہ چڑاتی ہیں۔ بعینہ خوشحال خان خٹک کا کلام سندھی ماحول میں جگہ نہیں پا سکتا۔ جیسے ہی خوشحال خان خٹک تلوار کی بات کرے گا، سندھی اپنی کلہاڑی کو گھورنا شروع کردے گا۔ جبکہ ان کے برخلاف آپ اقبال کا کلام دیکھیں تو وہ ہر ماحول و تمدن میں ٹھیک ٹھیک بیٹھ جاتا ہے اور وجہ اس کی یہ ہے کہ ان کے ہاں فلسفہ ہی نہیں عشق و مستی بھی آفاقی وسعت رکھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ کسی مخصوص ثقافت کے استعارے استعمال نہیں کرتے۔ جسے آپ "کیفیت" کہہ رہے ہیں وہ میں آپ کو بتاتا ہوں کہ کیا ہے۔ آپ پلیٹ فام پر دو اجنبیوں کو ملتا دیکھتے ہیں۔ جب وہ ملتے ہیں تو سپاٹ چہرے لئے ہوتے ہیں۔ کچھ دیر تک ایک خاص قسم کا فاصلہ دونوں کے بیچ حائل نظر آتا ہے۔ پھر وہ یکایک مسکرا دیتے ہیں اور ایک بار پھر مصافحہ کرلیتے ہیں جو اس بار جذبات سے بھرپور ہوتا ہے، بعض تو معانقہ ہی کر ڈالتے ہیں۔ اس جذباتی مصافحے یا معانقے کے بعد ان کے چہروں کی مسکراہٹ اور آنکھوں کی چمک سمیٹے نہیں سمٹتی۔ جانتے ہیں اس تھوڑی سی دیر میں ایسا کیا ہوا جس نے سب کچھ بدل کر رکھ دیا ؟ ان دونوں پر اچانک انکشاف ہوا کہ وہ دونوں پٹھان، دونوں پنجابی اور یا دونوں سندھی ہیں۔ اس انکشاف کے بعد دونوں کا ایک دوسرے کے لئے قائم خشک رویہ میٹھے فالودے میں بدل گیا اور یہی وہ اصل چیز ہے جسے آپ عشق و مستی کی "کیفیت" سمجھ بیٹھے ہیں۔ اگر آپ سندھی ہیں تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ وارث شاہ آپ کو یہ "کیفیت" دے سکے اور اگر آپ پنجابی ہیں تو شاہ لطیف کو آپ بس سلام عقیدت پیش کر کے چھوڑ دینا پسند کرینگے کیونکہ ان کی "کیفیت" صرف سندھی محسوس کر سکتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ آپ کا دعویٰ یہ ہونا چاہئے تھا کہ عشق و مستی کی جو کیفیت اپنی زبان میں ملتی ہے وہ کسی قومی زبان میں نہیں مل پاتی یعنی کچھ بھی ہو جائے انسان اپنی ثقافت میں ہی لطف محسوس کرتا ہے۔ اردو بچاری سے شکوے کی ضرورت نہ تھی۔