جنرل(ر) غلام عمر کے صاحبزادے محمد زبیر گھر کے بھیدی تھے اور گھر کے بھیدی نے لنکا ڈھا دی‘ غلطی مگر اس بے چارے کی نہیں‘ مریم نواز شریف یہ دعویٰ نہ کرتیں کہ میاں نواز شریف کے کسی نمائندے نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے کوئی ملاقات نہیں کی تو گھر کی بات گھر میں رہتی‘ اخبار نویس نے مسلم لیگ کی نائب صدر اور میاں نواز شریف کی صاحبزادی سے سوال ایک صحافی اور اینکر کی ٹویٹ کے پس منظر میں کیا تھا‘ٹویٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ میاں نواز شریف کے ایک خصوصی نمائندے نے چند روز قبل آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات کی اور سابق وزیر اعظم کی طرف سے یہ پیغام دیا کہ مسلم لیگ(ن) کو دیوار سے لگا دیا گیا ہے۔ اب ان کی جماعت مزید دبائو برداشت نہیں کریگی۔ جس کے جواب میں ان کو بتایا گیا کہ یہ نظام ایسے ہی چلے گا‘ ہنگامہ خیز احتجاج کی اجازت نہیں دی جائیگی‘ حکومت کے مزید تین سال پورے کرانے کی ضمانت کا اعادہ کیا گیا۔ مریم نواز نے ملاقات کا انکار کیا تو جواباً ڈی جی آئی ایس پی آر نے زبیر عمر کی ملاقات کا بھانڈا پھوڑ دیا‘ مختلف ٹی وی پروگراموں میں زبیر عمر نے وضاحت دینے کی کوشش کی مگر ناکام رہے کہ سچ کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا‘ زبیر عمر نے آرمی چیف سے چالیس سالہ تعلقات کا حوالہ دیا جس پر شیخ رشید نے سوال کیا کہ وہ اگست کی ملاقات سے قبل آرمی چیف سے اپنی کسی ملاقات کو ثابت کریں یہ بھی کہا کہ اسد عمر کے صاحبزادے کی شادی کافی عرصہ قبل ہوئی‘ تقریب میں‘ میں آرمی چیف اور کور کمانڈر کراچی ہمایوں عزیز کے ساتھ بیٹھا تھا‘آرمی چیف نے زبیر عمر کو اسلام آباد آنے پر ملاقات کی دعوت نہیں دی بلکہ موصوف نے خود ملاقات کی خواہش ظاہر کی لیکن اہم سوالات دو ملاقاتوں نے پیدا کیے اور ملاقات میں ڈی جی آئی ایس آئی کی موجودگی نے زبیر عمر کی کہانی کو من گھڑت ثابت کیا۔ زبیر عمر مان نہیں رہے کہ وہ نواز شریف یا ان کی صاحبزادی کے ایما پر ملے یا کوئی پیغام دینے گئے ‘ویسے اگر کوئی سخت پیغام دینا مقصود ہو تو ایک ہی ملاقات کافی ہوتی ہے اور ناخوشگوار یا محض خیر سگالی ملاقات پانچ گھنٹے پر محیط نہیں ہوتی‘ چالیس سالہ تعلقات کے حامل دوست سے کوئی شخص یہ بھی نہیں کہتا کہ وہ نواز شریف اور مریم نواز کے لئے مراعات طلب کرنے نہیں آیا‘ نہ ڈی جی آئی ایس آئی چیف کو پوچھنا پڑتا ہے کہ آپ ہم سے کیا چاہتے ہیں‘ محمد زبیر کی کہانی میں جھول ہے اور ڈی جی آئی ایس پی آر کے یک سطری بیان کے بعد مریم نواز شریف کی خاموشی نے میاں نواز شریف کے ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ یا سول بالادستی کے بیانیے کو زمیں بوس کر دیا۔ مسلم لیگ(ن) کے ہمدرد و خیر خواہ حیران ہیں کہ ووٹ کو عزت دینے اور سول بالادستی کو یقینی بنانے کا یہ کون سا طریقہ ہے؟ اگر عسکری قیادت اُصولی موقف نہ اپناتی ‘ ٹکا سا جواب نہ ملتا تو میاں صاحب انقلابی تقریر پر آمادہ ہوتے نہ مریم نواز اے پی سی میں شریک وفد کا حصہ ہوتیں‘ پہلے کی طرح جاتی عمرا میں خاموشی سے بیٹھی پیامبر کی راہ تکتی رہتیں۔ عسکری قیادت نے میاں نواز شریف کے پیامی کے علاوہ پیپلز پارٹی‘ مسلم لیگ (ن) اور جمعیت علماء اسلام کے پارلیمانی لیڈروں کو گلگت بلتستان کے موضوع پر منعقد اجلاس میں جو پیغام دیا کہ سیاسی معاملات پارلیمنٹ اور قانونی مسائل عدالتوں میں حل کریں وہ حقیقی جمہوری سوچ کا آئینہ دار ہے ‘مجھے یاد ہے کہ دو اڑھائی سال قبل سینئر تجزیہ کاروں اور کالم نویسوں کو بریفنگ دیتے ہوئے جنرل قمر جاوید باجوہ نے اسی عزم کااعادہ کیا تھا کہ وہ فوج کو سیاسی معاملات سے الگ تھلگ رکھنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے یہ تک کہا کہ’’ میں نے مسلم لیگ کے وزیر اعظم سے کہا کہ ملک میں مارشل لاء آیا تو آپ کی وجہ سے آئیگا‘‘۔ یہ بریفنگ شاہد خاقان عباسی کے دور حکمرانی میں ہوئی ‘آرمی چیف نے کہا کہ فروری 2017ء میں وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے مجھے بلایا اور جے آئی ٹی میں شامل دو فوجی افسروں کے بارے میں شکائت کی‘ میں نے انہیں کہا کہ ’’ فوجی افسران اگر اپنی حدود سے تجاوز کریں تو مجھے بتائیں‘ لیکن ان کی شمولیت سپریم کورٹ کے حکم پر ہے ‘عدالت عظمیٰ کے ہر حکم کی تعمیل میرا فرض ہے اور آپ کا بھی‘‘۔ میں نے میاں صاحب سے کہا کہ ’’ آپ سپریم کورٹ میں اپنا کیس لڑیں‘ ہم آپ کے ساتھ کھڑے ہیں لیکن اگر سپریم کورٹ کا فیصلہ آپ کے خلاف آیا تو ہم عدالت عظمیٰ کے ساتھ کھڑے ہوں گے‘‘۔ جنرل پرویز مشرف کی مداخلت سے فوجی قیادت نے سبق سیکھا‘ جنرل اشفاق پرویز کیانی نے میمو گیٹ ‘ جنرل راحیل شریف نے ڈان لیکس اور موجودہ آرمی چیف نے عدالتی فیصلے کے بعد میاں نواز شریف کی عدلیہ سمیت قومی اداروں کے خلاف مہم جوئی پر صبرو تحمل اور برداشت کا مظاہرہ کیا اور جمہوریت کی گاڑی کو پٹڑی سے اُترنے نہ دیا مگر سیاسی قیادت بالخصوص میاں نواز شریف مسلسل انگریزی فوج کے گھوڑے کی طرح بم کو لات مارتے چلے آ رہے ہیں‘ یہ جانے بغیر کہ وہ چالیس سالہ سیاست کے دوران اپنی جماعت کو حقیقی معنوں میں نظریاتی اور جمہوری بنا سکے نہ اپنے خاندان کو کرپشن اور منی لانڈرنگ کے الزامات سے محفوظ رکھ سکے اور نہ جنہیں وہ غیر جمہوری قوت قرار دیتے ہیں‘ اُن سے خفیہ نامہ و پیام کی دیرینہ عادت پر قابو پا سکے‘ تازہ ترین اطلاع یہ ہے کہ میاں نواز شریف نے ایک ٹویٹ کے ذریعے مسلم لیگی رہنمائوں اور کارکنوں کو آئندہ عسکری قیادت کے ساتھ درپردہ ملاقاتوں سے روک دیا ہے اور ہدایت کی ہے کہ آئندہ یہ ملاقاتیں علانیہ ہوں گی‘ دیرآید درست آید‘ لیکن یہ نہ ہو کہ ملاقاتیں تو جاری رہیں اور معافی تلافی‘ منت سماجت کی دیرینہ عادت بھی نہ بدلے مگر جب میڈیا یا مخالف سیاستدان کسی ایسی ملاقات کا سراغ لگا لے تو میاں صاحب اور مریم نواز شریف ایسی ملاقاتوں سے لاعلمی ظاہر کر کے ایک بار پھر قوم کو بے وقوف بنا لیں۔ جنرل کیانی سے میاں شہباز شریف اور نثار علی خان کی ملاقاتوں کے بارے میں جب ایک بار میاں صاحب سے استفسار کیا گیا تو بڑی معصومیت کے ساتھ انہوں نے لاعلمی ظاہر کر دی۔ میاں صاحب کے تازہ ٹویٹ نے میاں شہباز شریف کو دوراہے پر لاکھڑا کیا ہے انہیں اگلے تین چار روز میں فیصلہ کرنا پڑے گا کہ وہ اس فوج مخالف بیانیے کے ساتھ ہیں یا اپنے مفاہمتی موقف پر قائم؟۔میاں صاحب سمیت کسی سیاستدان کو اگر سول بالادستی کا بخار چڑھے اور ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کے نعرے کی تکریم مقصود ہو تو سب سے پہلے وہ اپنی جماعت کو جمہوری بنیادوں پر استوار کرے‘ اپنے بیٹے بیٹی یا بھائی‘ بہن کا تسلط اور جانشینی ختم کر کے لائق‘ دیانتدار‘ نظریاتی ساتھی کو قیادت سونپے اور لوٹی دولت کے علاوہ اپنے خاندان‘کاروباراوراثاثوں کی وطن واپس لائے۔ جیل سے ڈرے نہ عدالتوں اور نیب سے گھبرائے کہ جیل کسی نظریاتی لیڈر کا دوسرا گھر اور ہتھکڑی زیور ہے۔ محض اقتدار کے مزے لوٹنے کے لئے سیاست کے میدان میں قدم رکھنے والوں کو اقبالؒ کا یہ سبق خوب یاد کر لینا چاہیے۔ ؎ ہو صداقت کے لئے جس دل میں مرنے کی تڑپ پہلے اپنے پیکر خاکی میں جاں پیدا کرے