آزاد جموں و کشمیر کے انتخابات میں ایک بار پھر تاریخ دہرائی گئی۔یہاں انتخابات کی تاریخ یہ ہے کہ مرکز میں جس پارٹی کی حکومت ہوتی ہے ،وہی کامیاب ٹھہرتی ہے،یا پھر جیت اُس جماعت کے حصہ میں آتی ہے ،جس کو مرکز میں برسرِ اقتدار حکومت کی جانب سے حمایت ہوتی ہے۔ ایک بڑا سوال یہ ہے کہ ووٹرز ایسا کیوں کرتے ہیں؟ووٹرز کو مرکز کی حمایت یافتہ جماعت کے ایم ایل اے کا اُمیدوار یہ باور کرواتا ہے کہ مجھے اگر ووٹ نہ دیا گیا تو یہاں ترقیاتی کام ہوسکیں گے اور نہ تمہاری نوکریاں لگ سکیں گی۔ ہمیشہ سے یہ تاثر رہا ہے کہ مرکز میں موجود حکومت کی سیاسی پارٹی کو کامیاب نہ کروایا گیا تو آزاد جموں و کشمیر کا ترقیا تی بجٹ نہیں مل سکے گا۔علاوہ ازیں یہاں شخصیات کے نام پر بھی ووٹ پڑتا ہے اور بعض بڑی شخصیات پارٹیاں تبدیل بھی کرتی رہتی ہیں۔یہاں دھڑے بندی اور ذات برادری کا فیکٹر بھی بڑی اہمیت رکھتا ہے۔یہاں مسلکی یا مذہبی بنیادوں پر ووٹ کی تقسیم کا فیکٹر نہیں ہے،لہٰذا عقیدت کا ووٹ بھی نہیں ۔سیاسی جماعتوں کا ووٹ بینک ہے۔مگر یہاں کی سیاسی جماعت مسلم کانفرنس نے آہستہ بہ آہستہ اپنا ووٹ بینک کم کیا ہے۔ یہاں مسلم لیگ ن کے رجسٹرڈ ہونے سے قبل مسلم کانفرنس کا ووٹ بینک کثیر تعداد میں موجود تھا یہ جماعت آزاد جموں و کشمیر کی انتخابی تاریخ میں سب سے زیادہ حکومت سازی میں کامیاب بھی رہی ،لیکن دوہزار دس میں جیسے ہی پی ایم ایل این بطور سیاسی پارٹی کے رجسٹرڈ ہوئی تو مسلم کانفرنس کے اہم رہنمائوں نے پی ایم ایل این میں پناہ لی۔جس کے بعد یہ جماعت حکومت سازی تو کیا ،مقابلے کی دوڑ سے بھی یکسر آئوٹ ہوتی چلی گئی۔پاکستان پیپلزپارٹی یہاں شروع سے انتخابات لڑتی چلی آرہی ہے ۔آخری بار دوہزار گیارہ کے انتخابات میںیہ جماعت یہاں برسرِ اقتدار آئی تھی ،دوہزار سولہ کے الیکشن میں یہ جماعت زیادہ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ نہ کرسکی تاہم پچیس جولائی کو ہونے والے انتخابات میں پی پی پی کی کارکردگی اطمینان بخش رہی ہے۔ اگر اس بار پی ٹی آئی انصاف الیکشن نہ لڑ رہی ہوتی تو جیت کی ’’باری‘‘ پیپلزپارٹی کی تھی۔ پیپلزپارٹی کی بہتر کارکردگی کو اس تناظر میں دیکھاجانا چاہیے۔ اس جماعت کے آزاد جموں و کشمیر کے اہم رہنمائوں کو بھی داد دینا بنتی ہے،جنھوں نے اپنا اپنا ووٹ بینک محفوظ رکھا ہوا ہے۔ دوہزار سولہ میں جب پاکستان تحریکِ انصاف یہاں رجسٹرڈ ہوئی تو زیادہ تر پی پی پی کے لوگوں نے اس میں شمولیت اختیار کر لی تھی ،بعینہ دوہزار دس میں پی ایم ایل این میں ،ایم سی کے لوگ شامل ہوگئے تھے۔ایم سی اس الیکشن میں مزید سکڑ گئی۔یہ پہلو آزاد جموں و کشمیر کے لوگوں اور اس پارٹی کے رہنمائوں کے لیے تشویش کا باعث ہونا چاہیے۔ پاکستان تحریکِ انصاف کی کامیابی کا زیادہ تر دارومدارشخصیات پر رہا،اگرچہ بعض حلقوں میں مذکورہ شخصیات کم مارجن سے جیت پائیں ۔ آزاد جموں و کشمیر کے اگر تینتیس حلقوں کی بات کی جائے تو یہاں پی ٹی آئی کی کارکردگی ہر گز تسلی بخش نہیں رہی۔ایک تو سیٹیں کم لیں اور دوسرا یہاں سخت مقابلوں کا سامنا کرنا پڑا۔ پاکستان تحریکِ انصاف کی اُٹھان قابلِ ستائش نہیں رہی۔ 2010 کے فوری بعد جب دوہزار گیارہ میں الیکشن ہوئے پی ایم ایل این بری طرح ہارگئی ،لیکن اگلے الیکشن میں یہ اُنچاس میں سے اُنتالیس سیٹیں لینے میں کامیاب رہی ۔اگر اس تناظر میں پی ٹی آئی کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو پی ٹی آئی اُس طرح کامیاب نہ ہوسکی۔ جموں اورویلی کی بارہ نشستوں میں پاکستان تحریکِ انصاف نے نو پر کامیابی سمیٹ کر پی ایم ایل این کو تشویش میں مبتلا کر دیا۔ پی ایم ایل این کے سمجھے جانے والے حلقوں میں پی ٹی آئی کا اس وقت قبضہ ہو چکا ہے۔اگر پی ایم ایل این یہ سمجھتی ہے کہ یہاں ووٹ چوری ہوئے ہیں تو یہاں کڑا پہرا کیوں نہ دے سکی؟مریم نواز کو تقریروں سے زیادہ حلقوں کے اندر کی سیاست پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔مریم نواز جتنی زیادہ تقریریں کریں گی،اُس قدر زیادہ اپنے لیے اور پارٹی کے لیے مسائل پید ا کریں گی۔ملک میں ہونے والے آمدہ انتخابات میں پی ایم ایل این کو دوہزار اَٹھارہ کے عام انتخابات سے سبق سیکھنا ہوگا،ورنہ بعد میں تقریروں سے کچھ ہاتھ نہ آئے گا۔ پی ایم ایل این کی سیاست اس وقت مریم نواز کے گرد گھوم رہی ہے۔یوں مریم نواز کو بہت زیادہ محتاط ہونے کے ساتھ ساتھ عوام سے براہِ راست رابطہ کرنا ہوگا اور بعض جگہوں پر نئے سرے سے تنظیم سازی کرنا ہوگی۔مریم کی اس وقت کی سیاست خود مریم نواز کو عام ووٹرز سے ہم آہنگ کرنے سے قاصر ہے۔ یہ بیانات اور تقریروں کی سیاست ہے۔اس کے بھی اپنے اثرات ہوتے ہیں ،مگر زمینی حقائق پر فوکس کرنا زیادہ ضروری ہوتا ہے۔ مجھ سے چند لوگوں نے یہ سوال پوچھا کہ آزاد جموں و کشمیر کے انتخابات کے اثرات پاکستان کی سیاست پر کیا مرتب ہوتے ہیں؟ اس پر میرا جواب یہ ہے کہ پاکستان کی سیاست پر اس کے اثرات محض اس حد تک ہیں کہ اس وقت آزاد جموں و کشمیر میں الیکشن لڑنے والی تین بڑی پارٹیوں کا تعلق پاکستان سے ہے ،تو یہ پارٹیاں جیت کے لیے کوشاں رہتی ہیں تاکہ اپنے سیاسی وجود کو برقرار رکھ سکیں۔اس کے علاوہ مجھے کوئی ایسی بات نظر نہ آئی کہ آزاد جموں و کشمیر کے انتخابا ت کے اثرات پاکستان کی سیاست یا یہاں کے سیاسی عمل پر پڑتے ہوں۔ اگر دیکھا جائے تو ملک کے اندر انتخابات کا مطلب ہے ،پنجاب میں ہارجیت ہے۔ جب معاملہ یہاں تک ہو تو آزاد جموں و کشمیر کے انتخابات کس قدر اثرات کے حامل ہوں گے؟