تحریک انصاف نے 25نشستوں پر کامیابی حاصل کر کے آزاد کشمیر میں تنہا حکومت بنانے کی صلاحیت حاصل کر لی ہے۔ ابتدائی اندازوں میں تیسرے نمبر پر سمجھی جانے والی پیپلز پارٹی نے حیران کن طور پر 11نشستیں حاصل کر لیں جبکہ مسلم لیگ نون اپنی حکومت بچانے میں بری طرح ناکام ہوئی اور صرف 6نشستیں حاصل کر سکی۔تحریک انصاف نے فقط آزاد کشمیر میں ہی نہیں بلکہ پنجاب اور کے پی کے میں مہاجر نشستوں پر بھی کامیابی حاصل کی ہے جہاں عموماً مسلم لیگ ن عرصے سے جیتتی آئی ہے۔ وفاق میں برسر اقتدار جماعت کی آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں جیت کو ایک معمول کی کامیابی سمجھا جاتا رہا ہے۔ بھارت سے آزاد ہونے کے بعد آزاد کشمیر کی حیثیت کو مدنظر رکھ کر پاکستانی قیادت اور جماعتوں نے براہ راست کشمیر کی سیاست میں حصہ لینے سے گریز کیا۔ پاکستان کے مقابلے میں بھارت نے اپنے آئین میں کشمیر کو الحاق شدہ علاقہ قرار دے کر شق 370اور 35اے متعارف کرا دیں۔ وفاق کی سیاست کرنے والی جماعتوں نے وہاں بھی مقبوضہ کشمیر میں اپنے اتحادی تلاش کئے۔ بھارت میں ایک مدت تک کانگرس کو واحد وفاقی جماعت کی حیثیت رہی تاہم الحاق والے معاملے میں کانگرس اپنے کردار کے باعث کشمیر کی مقامی جماعتوں کی حوصلہ افزائی کرتی۔ یہ بی جے پی ہے جس نے کشمیر کی حیثیت‘ نمائندگی‘ آبادی کے تناسب اور ڈومیسائل کے معاملات پر ہندو انتہا پسند ایجنڈہ مسلط کرنے کی منصوبہ بندی کی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ دو سال سے مقبوضہ کشمیر میں کرفیو کا ماحول ہے۔ انسانی آزادیاں اور سیاسی و شہری حقوق معطل ہیں۔ آزاد کشمیر میں ایک مدت سے مسلم کانفرنس حکمران رہی‘ یہ مسلم لیگ کا چہرہ سمجھی جاتی تھی‘ پھر پیپلز پارٹی نے آزاد کشمیر میں اپنی تنظیم تشکیل دی۔ پاکستان مسلم لیگ ٹکڑوں میں بٹی تو مسلم کانفرنس بھی بکھر گئی‘ مسلم لیگ ن نے براہ راست کشمیر کی سیاست میں قدم رکھ دیا۔جمہوریت کی بات کرنے والی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن نے کئی بار مرکز میں حکومت بنائی تو کشمیر میں مخالف جماعت کی حکومت کو ختم کر دیا۔میثاق جمہوریت کے بعد ایک مثبت طرز عمل پیدا ہوا اور دونوں جماعتوں نے مرکز میں اپنی حکومت بنانے کے بعد کشمیر میں مخالف جماعت کی حکومت کو قبل از وقت رخصت کرنے کی روش ختم کر دی۔ تحریک انصاف نے پاکستان میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی سیاسی ثقافت کے خلاف مزاحمت کے ذریعے خود کو منوایا۔ تحریک انصاف جب 2018ء کے عام انتخابات میں کامیاب ہوئی تو آزاد کشمیر میں راجہ فاروق حیدر کی قیادت میں مسلم لیگ ن حکومت بناچکی تھی۔وفاق اور آزاد کشمیر حکومت کے مابین بعض معاملات پر ہم آہنگی اور مطابقت ضروری سمجھی جاتی ہے۔ آزاد کشمیر حکومت اقوام متحدہ کے اہم اجلاسوں کے موقع پر جو وفود بھیجتی ہے ان کو حکومت پاکستان کی مالی‘ سیاسی و سفارتی مدد حاصل ہوتی ہے۔آزاد کشمیر کی حکومت وقتاً فوقتاً حکومت پاکستان کی تحریک آزادی کشمیر کے حوالے سے پالیسی کی پیروی کرتی ہے۔ عمران خان وزیر اعظم منتخب ہوئے تو انہوں نے آزاد کشمیر کی ن لیگی حکومت کو برقرار رکھنے کی حمایت کی لیکن ستمبر 2018ء میں انہوں نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے جب کشمیر پر مظالم‘ اقوام متحدہ کی قرار دادوں اور بھارت کے جابرانہ کردار کی بات کی تو ساری دنیا نے اس تقریر کو سراہا لیکن آزاد کشمیر حکومت محض اس وجہ سے کسی حد تک لاتعلق دکھائی دی کہ مسلم لیگ ن کی مرکزی قیادت عمران خان کے کسی عمل کی تحسین پسند نہیں کرتی۔ پھر ایک مرحلہ ایسا بھی آیا جب راجہ فاروق حیدر نے وزیر اعظم عمران خان کے متعلق سخت بیانات جاری کرنا شروع کر دیے۔ اس تنائو کے باوجود وفاقی حکومت نے بہتر حکمت عملی اختیار کی اور اپنی طرف سے ایسی بیان بازی سے اجتناب کیا جو آزاد کشمیر اور پاکستان کے تعلق پر منفی اثرات مرتب کرے۔ حالیہ انتخابات نے تحریک انصاف کو موقع دیا ہے۔مسلم لیگ ن کی شکست کی بڑی وجہ وفاقی حکومت کے ساتھ کشیدہ تعلقات‘ مسلم لیگی قیادت کی سکیورٹی اداروں پر بے جا تنقید پر خاموشی اور کشمیر میں ترقیاتی کاموں سے اغماز برتنا ہے۔ آزاد کشمیر میں ایسے علاقوں کی کمی نہیں جہاں آج بھی لوگ دو دو چار چار گھنٹے کی مسافت اور انتظار کے بعد پینے کا پانی حاصل کرتے ہیں۔ ذیلی سڑکوں کی تعمیر کے منصوبوں پر توجہ نہیں دی گئی۔ آزاد پتن جیسے علاقے میں مسلسل حادثات ہوئے لیکن یہاں بروقت سڑک کی تعمیر‘ پل کی کشادگی اور حفاظتی انتظامات نہ ہو سکے۔ مسلم لیگ ن کی مرکزی قیادت نے انتخابی مہم کے دوران جو لب و لہجہ اختیار کیا کشمیر کے باشندوں کے لئے وہ اجنبی تھا۔خصوصاً بھارت کے جابرانہ رویے‘ مقبوضہ کشمیر کی حالت اور عالمی سطح پر تنازع کشمیر کو اجاگر کرنے کی بجائے سارا زور پی ٹی آئی پر تنقید کرتے ہوئے خرچ کیا گیا۔یہاں تک کہ انتخابات والے دن ایک لیگی امیدوار نے بھارت سے مدد لینے جیسی دھمکی دیدی۔ انتخابی مہم کے دوران کئی بار پی ٹی آئی کے ذمہ داران نے اشتعال انگیز طرز عمل کا مظاہرہ کیا جو قابل مذمت ہے۔ تاہم اب جبکہ کشمیر کی حکومت بنانے کا موقع مل رہا ہے تو امید کی جاتی ہے کہ کشمیر کے داخلی اتحاد‘ پاکستان اور کشمیر کے تعلق اور کشمیری باشندوں کے مسائل حل کرنے کے لئے کسی کوتاہی کا مظاہرہ نہیں ہو گا۔بہتر ہو گا کہ کشمیر میں ایسی قیادت کو سامنے لایا جائے جو بیانات سے پیدا کشیدگی کو ختم کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو اور دنیا میں کشمیر کا مقدمہ پیش کرنے میں سنجیدہ معاونت کی استعداد رکھتی ہو۔