آزاد کشمیر میں الیکشن کا مرحلہ مکمل ہو چکا ہے ،مخصوص نشستوں اوروزارتِ اعظمی کے لیے صف بندی شروع کر دی گئی ہے ۔25 نشستیں حاصل کرنے کے بعد پی ٹی آئی نے اکیلے حکومت بنانے کا فیصلہ کیا ہے ۔پی ٹی آئی کی طرف سے بیرسٹر سلطان محمود، انوار الحق، سردار تنویر الیاس خان اور خواجہ فاروق وزارتِ اعظمی کی دوڑ میں شامل ہیں۔اپوزیشن کی طرف سے دھاندلی کے الزامات لگائے جا رہے ہیں ، الزامات کا جائزہ لینے سے پہلے اس بات کا اظہار ضروری ہے کہ آزاد کشمیر میں ن لیگ کی حکومت ہے ، الیکشن کمیشن بھی آزاد ہے اور فوج کی نگرانی میں الیکشن ہوئے ۔ اپوزیشن کو اپنے موقف کا کھل کر اظہار کرنا ہوگا کہ ان تین فریقوں میں سے وہ کس کو الزام دینا چاہتے ہیں ؟وزیر اعظم عمران خان نے کامیابی پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ ہمارا اگلا ہدف سندھ ہے ۔ آزاد کشمیر میں بھی احتساب اور شفافیت قائم کریں گے ۔ لیکن یہ بتانا ضروری ہے کہ تین سال کے احتساب میں نہ تو قومی خزانے میں کوئی رقم جمع ہوئی اور نہ عوام کو ریلیف ملا ، البتہ احتساب کے نام پر قانونی جنگ میں قومی خزانے سے بھاری فیسیں ادا ہوئیں اور وقت کا بھی ضیاع ہوا ، اگر ایسا ہی احتساب ہونا ہے تو اس سے بہتر ہے کہ یہ احتساب نہ ہو ۔اصولی طور پر تحریک انصاف نے بھی تین سال کی مدت پور ی کرلی ہے اب حکومت کو خود احتسابی کا بھی عمل شروع کرنا چاہیے ۔ مریم نواز نے کہا ہے کہ آزاد کشمیر انتخابات کے نتائج تسلیم نہیں کئے اور نہ ہی کروں گی اور میں نے 2018ء کے نتائج کو بھی اب تک تسلیم نہیں کیا۔لیکن سوال یہ ہے کہ نتائج تسلیم نہیں کئے تو (ن) لیگ اب تک پارلیمنٹ کا حصہ کیوں ہے ؟مریم نواز پختہ سیاستدان بن چکی ہیں اب اُن کو بچوں والی نہیںکرنی چاہیے۔بلاول بھٹو نے کہا کہ پی ٹی آئی نے آزاد کشمیر کے انتخابات میں تشدد اور دھاندلی کا سہارا لیا ۔اس کے باوجود پیپلز پارٹی آزاد کشمیر کی دوسری بڑی جماعت ہے ۔ شیخ رشید نے الزام لگایا کہ پیپلز پارٹی نے پیسہ خرچ کرکے دو تین سیٹوں کا اضافہ کیا ۔وزیر اعلیٰ سردار عثمان خان بزدار نے کہاکہ آزاد کشمیر میں پی ٹی آئی کی کامیابی شفافیت اور دیانتداری کی فتح ہے۔عوام نے لٹیروں کی سیاست کو مسترد کر دیا ۔وزیراعلیٰ کی معاون خصوصی فردوس عاشق اعوان نے کہاکہ مودی اور پیسے کو عزت دو کا نعرہ کشمیر میں بری طرح پٹ گیا۔ سیاستدانوں کے اپنے اپنے بیانات اور اپنا اپنا موقف ہے لیکن آزاد کشمیر کے الیکشن کا تجزیہ کیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ اس الیکشن میں بڑے بڑے سیاسی برج الٹ گئے ،متعدد لیگی وزراء کو اپنی سیٹوں سے ہاتھ دھونا پڑا ۔ پی ٹی آئی کو آزاد کشمیر میں اتنی بڑی کامیابی کس طرح حاصل ہوئی ؟یہ سوال سیاسی حلقوں میں بہت ڈسکس ہو رہا ہے ۔ وزیر اعظم عمران خان نے کشمیر میں ریفرنڈم کی بات کی تھی اور کہا تھا کہ دو ریفرنڈم ہونے چاہئیں ، ایک ریفرنڈم میں کشمیریوں سے پوچھا جائے کہ وہ بھارت کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا پاکستان کے ساتھ ؟دوسرے ریفرنڈم میں آزاد کشمیر کے کشمیریوں سے پوچھا جائے کہ وہ پاکستان کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا آزاد ۔اپوزیشن نے اس بیان کو آڑے ہاتھوں لیا اور عمران خان پر غدار ی تک کے الزامات لگائے اور کشمیر میں اس بیان کو بھرپور طریقے سے اچھالا گیا ،اپوزیشن کا خیال تھا کہ پی ٹی آئی کو اس کا نقصان ہو گا مگر سیاسی حلقوں کا خیال ہے کہ دراصل اس بیان میں پی ٹی آئی کو بہت فائدہ دیا کہ کشمیریوں کی یہ چڑ بن چکی ہے کہ اُن سے پوچھا جائے کہ آپ دو ملکوں میں سے ایک کا انتخاب کریں ، کشمیریوں کی خواہش ہے کہ ان سے تیسرے آپشن کے بارے میں بھی پوچھا جائے ۔پہلی مرتبہ عمران خان کے منہ سے تیسرے آپشن والی بات نکلی اور یہ بات قرین قیاس ہے کہ اس کا تحریک انصاف کو فائدہ ہوا ہو۔ آزاد کشمیر میں وزارتِ اعظمی کی دوڑ میں شامل شخصیات میں سردار تنویر الیاس خان کے لیے وسیب کے لوگوں کی دعائیں بھی شامل ہیں ۔ میں ایک واقعے کا ذکر کروں گا کہ نواز شریف دورمیں ملتان میں زرعی یونیورسٹی قائم ہوئی اس کا نام نواز شریف زرعی یونیورسٹی رکھا گیا۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ میاں نواز شریف نے اپنے نام سے بننے والی یونیورسٹی کو اتنے فنڈز نہ دئیے کہ وہ مکمل ہو سکے ، اور تو اور لائبریری کے لیے گرانٹ کی کمی درپیش تھی ،میاں نواز شریف ،میاں شہباز شریف اور دیگر سرمایہ داروںمیں سے کسی نے بھی کوئی فنڈنہ دیا جس سے بچوں کی تعلیم کا بہت حرج ہو رہا تھا ، ان حالات میں سردار تنویر الیاس خان نے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر آصف علی کو نئی لائبریری بنانے کیلئے اپنی جیب سے 20 ملین ( دو کروڑ روپے ) کا عطیہ دیا اور لائبریری کا سنگِ بنیادرکھا۔اس موقع پرسردار تنویر الیاس خان نے کہاکہ سوشل میڈیا کی وجہ سے کتاب پڑھنے کا رحجان قدرے کم ہوا ہے لیکن کتاب کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں کہ کتاب انسان کی قدیم دوست ہے۔ سردار تنویر الیاس خان نے کہاکہ میری خواہش ہے کہ زرعی یونیورسٹی ملتان کی یہ لائبریری طلباء کے ساتھ ساتھ ہر کتاب دوست کیلئے مفید ثابت ہو۔ سردار تنویر الیاس خان کی علم دوستی پر وسیب کے لوگ بہت خوش اور نازاں ہیں کہ وسیب میں سرداروں ‘ جاگیرداروں اور تمنداروں کی کوئی کمی نہیں ‘یہ صاحبان صدیوں سے صاحبِ حیثیت بھی ہیں ، لغاری ، مزاری ، قریشی ، کھر ، کھوسے ، دریشک ہمیشہ بر سر اقتدار بھی رہے مگر آج تک کسی کو نہ صرف یہ کہ تعلیم کے فروغ کیلئے اپنی جیب سے ایک پائی خرچ کرنے کی توفیق نصیب نہیں ہوئی ، بلکہ ان کی طرف سے تعلیمی اداروں کی مخالفت کے قصے شہاب نامہ اور دوسری تاریخی کتابوں میں موجود ہیں ۔ یہ بھی مسلمہ حقیقت ہے کہ با اثر وڈیروں کے ہاں سکولوں کو ذاتی ڈیروں میں تبدیل ہوتے ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ۔ ان حالات میں سردار تنویر الیاس خان کا جذبہ قابلِ تقلید بھی ہے اور لائق تحسین بھی ۔ انہی حقائق کی بنیاد پر اہل وطن کی دعا ہے کہ اقتدار میں ایسے لوگ آئیں جو علم سے محبت رکھتے ہوں، پسماندہ علاقوں کی ترقی کے خواہاں ہوںاور محروم طبقات سے ہمدردی رکھتے ہوں ۔