گزشتہ کالم ’’کاش عدمِ اعتماد ہوجائے‘‘ یہ خواہش اس قدر شتابی سے پوری ہوجائے گی، اس کا تصور بھی نہیں کیا تھا۔ فیصل آباد کے شہری اور اخبارات کی دنیا کے لوگ روزنامہ ’’عوام‘‘ کے مالک اور ایڈیٹر خلیق قریشی سے خوب واقف ہیں۔ ذہین ، مرنجا ں مرنج ، بے تکلف اور فقرے باز۔کوہ نور ٹیکسٹائل کے مالک رفیق سہگل کا شمار اس زمانے کے تین چار چوٹی کے کاروباری اور دولت مند سرمایہ داروں میں ہوتا تھا، دولت کی بہتات اور شہرت کی تمنا انہیں سیاست اور صحافت کی طرف کھینچ لائی۔ انہوں نے قومی اسمبلی کا انتخاب لڑا۔ اور ’’آفاق‘‘نامی روزنامے کا اجراء بھی کیا۔ اخبار کی افتتاحی تقریب میں رفیق سہگل صاحب نے تقریر کرتے ہوئے کہا ’’زندگی میں میری دو ہی خواہشیں تھیں ایک یہ کہ میں کپڑے کا کارخانہ لگاوںٔ ۔ دوسری ، ایک روزنامہ جاری کروں۔ آج میں اپنے پروردگار کا شکرگزار ہوں کہ میری دونوں خواہشیں پوری ہوگئیں۔اس کے بعد خلیق قریشی تقریر کے لیے کھڑے ہوئے اور فرمایا ’’سامعین محترم! سہگل صاحب کی طرح میری زندگی میں بھی دو ہی آرزوئیں تھیں ایک یہ کہ میں اخبار نکالوں اور دوسری کپڑے کا بہت بڑا کارخانہ بناؤں۔ سہگل صاحب زیادہ خوش قسمت تھے کہ ان کی دونوں خواہشیں اس لیے پوری ہوگئیں کہ ان کی ترتیب صحیح ثابت ہوئی، انہوں نے پہلے کپڑے کا کارخانہ بنایا اور اتنی دولت سمیٹی کہ اخبار جاری کرنے کے لیے انہیں کوئی کمی نہ تھی۔ بدقسمتی سے میری خواہش پوری نہ ہوسکی، میری ترتیب الٹ گئی۔ میں نے پہلے اخبار نکالا اور اب میں اتنا قلاش ہوگیاہوں ۔ اپوزیشن کی بدقسمتی یہ رہی کہ انہوں نے بھی اپنی سیاست بچانے کے لیے دو آرزوئیں پالی تھیں۔ یہ کہ پنجاب اور مرکز میں حکومتوں کے خلاف عدمِ اعتماد کرکے پھر سے حکومت بنائے مگر مولانا فضل الرحمن کی قیادت رفیق سہگل کی طرح خوش قسمت نہیں تھی کہ ان کی ترتیب درست ثابت ہوسکے۔ وہ خلیق قریشی کی طرح مرکز میں پہلے عدمِ اعتماد کربیٹھے،اب مرکز کے ساتھ پنجاب میں بھی’’بزدار‘‘ ان کے سینے پر مونگ دلتے رہیں گے۔نہ صرف متحدہ حزب اختلاف کی ترتیب غلط ہوگئی بلکہ ان کا یہ فیصلہ بے وقت بھی تھا۔ بے وقت اور بروقت فیصلے کی کہانی یہ ہے ۔ واقعہ یوں ہوا کہ شہید ضیاء الحق نے وزیراعظم محمد خان جونیجو کی حکومت برطرف کردی۔مسلم لیگ حصوں بٹ گئی، دائیں بازو کا اتحاد پراگندہ ہوگیا، ضیاء الحق جو پیپلز پارٹی کی راہ میں بڑی رکاوٹ تھے ، ان واقعات کے بعد بے نظیر کی قیادت میں پیپلزپارٹی کا راستہ روکنا ممکن نہیں تھا ۔ مقابلے میں کوئی منظم جماعت یا گروہ نہ ہونے کی وجہ سے بے نظیر کو انتخاب میں معمولی برتری حاصل ہوگئی۔ اور صدر مملکت جناب غلام اسحاق خان نے انہیں حکومت بنانے کی دعوت دی اور وہ مرکز میں وزیراعظم بن گئیں۔ بے نظیر کے بارے میں عوام کی اکثریت اور سکیورٹی اداروں میں تشویش پائی جاتی تھی، جنرل حمید گل جو آئی ایس آئی کے سربراہ اور دائیں بازو کے عوام میں خاصی مقبولیت رکھتے تھے، انہیں بے نظیر نے آئی ایس آئی کی سربراہی سے الگ کردیا۔ اسلم بیگ کی سپہ سالاری میں وہ ملتان کے ’’کور کمانڈر‘‘ بنادئیے گئے، راقم نے کور کمانڈر حمید گل سے کہا ، آپ فوج سے استعفیٰ دے کر سیاست کا رخ کریں تو یہ آپ کے لیے اور پاکستان کے لیے زیادہ بہتر ثابت ہوسکتا ہے اس لیے کہ پیپلز پارٹی کے مقابلے میں کوئی جہاندیدہ اور پرکشش شخصیت کی ضرورت ہوگی۔ جو عوام کو منظم اور متحرک کرسکے۔ آپ یہ خدمات بخوبی انجام دے سکتے ہیں۔ جنرل حمید گل صاحب نے کہا ، جنرل اسلم بیگ جلد ہی ریٹائرڈ ہونے والے ہیں۔ ان کے بعد میرے ’’آرمی چیف‘‘بننے کا امکان ہے۔ میں اسے کھونا نہیں چاہتا کیونکہ یہی میرا ’’کرئیر ‘‘ہے۔ تقریباً دو سال کی حکومت کے بعد صدر پاکستان نے بدعنوانی اور نااہلی کی بناء پر بے نظیر حکومت برطرف کردی۔ انتخاب ہوئے ، صدر کے ایماء ، آئی ایس آئی کی کوشش اور سپہ سالار اسلم بیگ کے تعاون سے دائیں بازو کا اتحاد انتخاب جیت گیا۔ نواز شریف وزیر اعظم بنے ، اسلم بیگ کی ریٹائرمنٹ کا وقت آیا تو صدر پاکستان نے سب سے سینئر لیفٹینیٹ جنرل آصف نواز جنجوعہ کو فوج کا نیا سربراہ مقرر کردیا۔ نئے سپہ سالار جنجوعہ کی متحرک اور مقبول عام لیفٹیننٹ جنرل حمیدگل سے پیشہ وارانہ رقابت تھی، انہوں نے حمید گل کو کور کمانڈر ملتان کے عہدے سے الگ کرکے ’’ہیوی مکینیکل کمپلیکس ‘‘ کا سربراہ مقرر کردیا۔ اس تقرری پر حمید گل خاصے ناراض تھے۔ راقم ان دنوں ملتان میں تھا، حمید گل صاحب کا پیغام ملا اور انہیں ملنے کے لئے کور کمانڈر ہاؤس پہنچا تو وہ بہت برہم تھے اور فوج سے علیحدگی کا فیصلہ کرچکے تھے۔ انہوں نے مجھے اپنا فیصلہ سنایا تو عرض کیا کہ آپ نئی تقرری پر چلے جائیں، فوج سے علیحدہ ہونے کے فیصلے پر نظرثانی کریں۔ میں صدر پاکستان سے بات کرکے کوئی راہ نکالنے کی کوشش کرتا ہوں۔ وہ تھوڑی برہمی اور زیادہ حیرت سے مخاطب ہوئے اور کہا کہ آپ ہی ایک دن میرے پاس آئے اور مجھے فوج سے الگ ہوکر سیاست میں حصہ لینے کا مشورہ دیا ۔ آج جب میں ایسا کرنے کا فیصلہ کرچکا ہوں تو آپ ہی مجھے منع کررہے ہو۔عرض کیا ، جناب!اس وقت بے نظیر وزیراعظم تھی، مسلم لیگ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ، دایاں بازو پراگندہ اور عوام مایوس تھے۔ آپ عوام کی ڈھارس بن سکتے تھے۔ آج حالات بالکل جدا ہیں، بے نظیر حزبِ اختلاف کی قائد ہیں، دائیں بازو کا نواز شریف وزیراعظم مقرر ہوچکا ہے۔ مسلم لیگ اکٹھی کردی گئی ہے۔ اس وقت جو خلاء تھا وہ پُرکیا جا چکا ہے۔ لہٰذا وردی سے باہر ہونے کی بجائے آپ کا وردی میں ہونا کہیں بہتر ہے، نہیں معلوم ، آنے والا وقت کیا کچھ دکھائے گا۔ مختصر یہ کہ صدر پاکستان سے ملاقات کی ، انہیں حمید گل کے فیصلے سے آگاہ کیا تو بولے، آج ہی جنرل شیر علی صاحب نے بھی اس بارے میں بات کی تھی، میں نے ان سے بھی کہا تھا اور آپ سے بھی یہی کہوں گا کہ آپ فوراً حمید گل کے پاس جائیںاور انہیں اس فیصلے پر عمل کرنے سے منع کریں۔ بہرحال !چند مہینے انتظار کے بعد جنرل حمید گل مستعفی ہوکر فوج سے الگ ہوگئے ، تھوڑا عرصہ گزارا تھا کہ جنرل آصف نواز دل کا دورہ پڑنے پر اپنے خالقِ حقیقی سے جاملے۔اب صدر پاکستان اور وزیر اعظم کے درمیان نئے سپہ سالار کی تقرری پر اختلافات شروع ہوئے تب صدر پاکستان نے کہا ، دیکھئے ، چوہدری صاحب! میں نے حمید گل کو فوج سے الگ نہ ہونے کا بار بار مشورہ دیا ،آنے والے دن کو کوئی نہیں جانتا کہ کیا ظہور میں آئے۔ آج اگر حمید گل موجود ہوتے وہی سب سے سینئر اور فوج کے قابل جرنیل تھے۔میں انہیں سپہ سالار مقرر کرکے سرخرو ہوجاتا اور نواز شریف کو بھی ان کی تقرری پر کوئی اعتراض نہیں ہوسکتا تھا۔ پہلے پہل پنجاب کے وزیر اعلیٰ بزدار کے خلاف تحریک عدمِ اعتما د پیش کی جاتی تو قوی امکان تھا کہ وہ تحریک کامیاب رہتی ، نہ صرف ناراض ارکان اپنا غصہ نکالتے بلکہ سپیکر صوبائی اسمبلی چوہدری پرویزالٰہی کو موقع مل جاتا کہ وہ اپنے لیے لابنگ کرتے ، مسلم لیگ نواز سے سودے بازی میں ان کی پوزیشن بہتر ہوتی تو یقینی تھا کہ پی ڈی ایم بزدار کو الگ کرنے میں کامیاب رہتی ، پرویز الٰہی چیف منسٹر ہوتے اور مرکز دباؤ میں آجاتا ۔ وقفہ دیئے بغیر وزیراعظم کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد بھی پیش کردی جاتی تاکہ وہ اسمبلی نہ توڑسکے تو ان کی کامیابی کا قوی امکان تھا۔بروقت فیصلہ نہ ہونے اور ترتیب غلط ہوجانے سے سارے خواب ادھورے رہ گئے۔