جی ہاں!بزدل کا سفینہ کنارے پر ڈوبتا ہے۔ اس کی تقدیر میں طوفان ہوتے ہیں اور نہ کوئی ساحل! عالمِ عرب کی بجائے، فلسطین کی خبر ہمیں بی بی سی سے ملتی ہے اور سی این این سے۔ کتنے دن ہم سکتے میں رہے۔ بچوں، بوڑھوں اور عورتوں کا قتلِ عام تھا۔ عمارتیں زمیں بوس اور ان کے ملبے میں کچلے جاتے فلسطین کے فرزند۔ ایک لمحہء گزراں ہے، بیت جائے گا۔ زندگی معمول پہ لوٹ آئے گی۔ روتی اور بسورتی مگر کبھی شادکام بھی۔ پھول کھلتے اور بادل برستے رہیں گے۔ لذتِ کام و دہن بھی برقرار رہے گی۔ لمبی تان کے سو جانے کا انبساط بھی۔ رات دن گردش میں ہیں سات آسماں ہو رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا خون بہتا رہا، بے آسرا یتیم لہو۔ ہڑبڑا کے ہم جاگے مگر کتنا جاگے؟نیند سے گو نماز بہتر ہے/اثرِ خواب ہے اذاں میں ابھی۔ جماعتِ اسلامی کے احتجاجی مظاہرے میں کتنے لوگ تھے؟ مجلس اتحاد المسلمین کے اجتماع میں کتنے اہلِ ایمان؟ بڑا شور سنتے تھے پہلو میں دل کا جو چیرا تو اک قطرۂ خوں نہ نکلا پیپلزپارٹی اور نون لیگ نے کتنی فریاد کی؟ تحریکِ انصاف نے کس قدر؟ محترمہ مریم نواز کو جاوید لطیف ہی کی سوجھی۔ جس نے کہا تھا: شریف خاندان ملک سے اہم ترہے۔ دیا تو طعنہ دیا کہ وزیرِ اعظم نے کشمیر کا سودا کر لیا۔ آپ نے کیا کیا؟آپ نے کیا بیچا، آپ نے کیا خریدا؟ آگ ہے کہ آسمان سے برس رہی ہے۔ زمین ہے کہ پناہ دینے سے انکاری۔ بجلی کا قحط ہے، دوا، پانی اور خوراک کا بھی۔ پناہ کی تلاش میں لاچار لوگ گھروں سے بھاگ نکلے۔ اپنے راحت کدوں میں ہم آسودہ ہیں۔ عالمِ اسلام کی نمائندہ اسلامی کانفرنس نے صیہونیوں کی مذمت کا معرکہ سر کیا۔ اپنا فرض نبھا دیا۔ فساد کا انہیں ذمہ دار ٹھہرایا۔ بس یہی کچھ؟ کس کو خبر نہ تھی کہ وہ ستم گر ہیں اور جفاجو ہیں۔ فقط اس انکشاف کے لیے ایسی شدید زحمت کی ضرورت کیا تھی۔ برطانیہ، جرمنی اور واشنگٹن میں،مغرب کے کتنے ہی شہروں میں بائیں بازو کے بے تاب لوگ گلیوں میں نکل آئے اورچیخ و پکار کی۔ ان پاکستانی اور عرب ترقی پسندوں سے کہیں زیادہ، اب جو امریکی راتب پہ پلتے ہیں۔ اسرائیل کے مربّی، مغرب کے ریزہ چین! ٹینک اور طیارے، لاکھوں لاکھوں پہ مشتمل وردی پوش سپاہ۔ درجنوں مسلمان ممالک، ڈیڑھ ارب کی آبادی۔ کہیں ایک بھرپور جلوس بھی نکل نہ سکا۔ پاکستانی وزیرِ اعظم نے مسلمان سربراہوں سے ٹیلیفون پر رابطے کا تردد فرمایا۔ ترکیہ کے اردوان دھاڑے مگر دھاڑے ہی۔ لائحہ عمل کیا ہے؟ واقعی کسی کا دل دکھا تو مہاتیر محمد کا۔ 94سال کا بوڑھا آدمی، درباری سازش کے بل پر جواقتدار سے نکال پھینکا گیا۔ بائیکاٹ کیا تو جواد ظریف نے آسٹریاکے دورے کا۔ جنگ نہیں لڑ سکتے، رزم گاہ میں اتر نہیں سکتے۔ قریب آؤ دریچوں سے جھانکتی کرنو/کہ ہم تو پابہ رسن ہیں ابھر نہیں سکتے۔ کم از کم پاکستان، ایران اورترکیہ یہ توکر ہی سکتے تھے کہ بے نوا بھوکوں کو پانی، دوا اور خوراک پہنچانے کی سوچتے۔ یورپی یونین، امریکہ اور اقوامِ متحدہ سے، اقوامِ عالم سے اپیل کرتے۔ دارفر اور مشرقی تیمور کے آزادی دلانے والوں سے مطالبہ کرتے کہ پیاسوں کو پانی پلانے اور کھانا کھلانے کی اجازت دی جائے۔ زخمیوں کی مرہم پٹی کرنے کی۔ اٹھ کھڑے تو ہوتے۔ یہ تو بتا دیتے کہ ابھی وہ زندہ ہیں۔ زخموں، چیخوں اور آنسوؤں پر احساس کی کوئی لہر اب بھی دلوں میں جاگ اٹھتی ہے۔ مکمل طور پرابھی ہم مرے نہیں۔ وہیل چئیر پر زندگی گزارنے والے فلسطینی لیڈر شیح احمد یٰسین نے کہاتھا: ہم سمجھتے رہے کہ غلام فلسطین ہے۔ وقت آیا تو یہ کھلا کہ غلام تو عرب اقوام ہیں۔ آزاد ہواؤں میں جن کے پرچم پھڑپھڑاتے ہیں۔ اہلِ فلسطین آزاد ہیں کہ ولولہ پالتے اور آرزو سینچتے ہیں۔ بجھی عشق کی آگ اندھیر ہے مسلماں نہیں راکھ کا ڈھیر ہے بہت دن بیتے، اسرائیلی وزیرِ اعظم گولڈا مائرنے کہا تھا ’’جس دن مسجدِ اقصیٰ میں ہم نے آگ بھڑکائی، پوری رات میں جاگتی رہی۔ اس خوف کے ساتھ کہ چاروں طرف سے عرب افواج اسرائیل پہ ٹوٹ پڑیں گی۔ پھر اگلی صبح کا سورج طلوع ہوا تو آشکار ہوا کہ ہم کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ اس لیے کہ ہمارا واسطہ اس امت کے ساتھ ہے، گہری نیند جو سوئی پڑی ہے۔‘‘چند ہی برس بیتے تھے،اقبالؔ جب پکارتے رہے تھے: ازخوابِ گراں، خواب گراں، خوابِ گراں خیز۔ فلسطین کے نوجوان کارزار نہیں سجا سکتے، نہتے ہیں۔ مکانوں میں مگر آسودہ رہنے سے انہوں نے انکار کر دیا ہے۔ بازاروں اور گلیوں میں ماتم کناں کھڑے توہیں۔ اپنے غم کو، غصے میں بدلنے کی سعی پر تو تلے ہیں۔کم از کم یہ تو جانتے ہیں کہ درد کی دولت کبھی کم مایہ نہیں ہوتی۔ آخر کار اسی کے بطن سے آزادی اور نجات کی کرن پھوٹتی ہے۔ آسمان کی طرف بازو بلند کیے، ایک سیاہ پوش فلسطینی عورت پکارتی ہے تمہیں کیا ہوگیا ہے؟ اے اللہ اور اسکے پیمبرؐ پہ ایمان رکھنے والو تمہیں کیا ہو گیا؟ تم کہاں ہو اے اہلِ عرب /اے پاکستانیو تم کہاں ہو؟ ترک سرزمین کے سوا، الا ماشاء اللہ ہر کہیں سکوت ہے یا نیم دلی۔ ایک عالمگیر سناٹا۔ فرار کی ایک متعین اور مستقل آرزو۔ صدیوں کی بے علمی اور بے عملی نے احساس کو سکوت میں اور سکوت کو بے حسی میں ڈھال دیا ہے۔ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں، دل اندھے ہو جاتے ہیں یہی وہ دیار تھا، جہاں کبھی ابو عبیدہ بن جراحؓ اور خالد بن ولیدؓ کی تلوار چمکتی تھی۔ آٹھ ہزار شہسواروں نے، جن میں سے آدھے یرموک کی جنگ کے زخم خوردہ تھے، دمشق کی شہر پناہ کو مٹی بنا دیا تھا۔پھر پیوند لگے پیرہن میں فاروقِ اعظم ؓپا پیادہ بیت المقدس میں داخل ہوئے تھے۔ حریف سے مذاکرات کے ہنگام ان سے بہتر ملبوس پہننے کی التجا ہوئی تو یہ کہا تھا: لباس زمین کی چیز ہے اور رعب آسمان کی۔ زمین پہ رینگنے والے رہ گئے،آسمان سے زندگی کو دیکھنے اورپہاڑ کاٹنے والے وہ کیا ہوئے۔ یہیں حمص نام کا وہ شہر ہے، جس کا پانی شیریں، ہوا خوشگوار اور شجر پھل دار ہیں۔ یہیں دمِ آخریں، اپنے آخری تیماردار سے الولید کے فرزند نے پوچھا تھا: ایک بالشت بھی میرے بدن پر ایسی نہیں، زخم کا جس پر نشان نہ ہو۔ پھر مجھے شہادت کیوں نصیب نہ ہو سکی؟ تاریخ کے سب سے بڑے فاتح کو میدانِ جنگ میں مرنے کی تمنا کیوں تھی؟ اس لیے کہ دائمی حیات کی یہی ایک راہ ہے۔اسی لیے تو ہر معرکے سے پہلے سرخ ٹوپی والا جنرل حریف کو لکھتا: ان لوگوں کے ساتھ میں تمہاری طرف آتا ہوں، موت جنہیں زندگی سے زیادہ عزیز ہے۔حجتہ الوداع کے دن اترے،اس ٹوپی میں سرکارؐ کے موئے مبارک سلے تھے۔ خالد بن ولیدؓ کے فرزندآج سفارت کاری فرماتے ہیں۔ان میں سے کسی کے بدن پر کوئی زخم نہیں۔ رگ و ریشے میں خوف کے تاریک سائے ہیں۔ خوف جو ساری توانائی چاٹ لیتاہے۔ سب چراغ بجھا دیتاہے۔ آدمی نہیں، جانور ہو جاتاہے۔ کسی جنگل میں چارے کی تلاش میں بھٹکتا جانور! جی ہاں!بزدل کا سفینہ کنارے پر ڈوبتا ہے۔ اس کی تقدیر میں طوفان ہوتے ہیں اور نہ کوئی ساحل!