بالآخر ذاکر موسی بھی اس راہ پہ چل پڑا جہاں مظفر وانی شہید بانہیں پھیلائے اس کا انتظار کررہا ہوگا۔مظفر وانی کا لہو بڑا ہی زرخیز تھا۔جدو جہد آزادی کشمیر کی زرد پڑتی کونپلوں میں اس کے لہو نے نیا رنگ بھرا اور مرجھائی جڑو ں کو تازہ نمو بخشی۔مجھے اس جوان رعنا کا چہرہ نہیں بھولتا۔ یہ عمر تو خواب دیکھنے،کیرئیر بنانے اور اپنی ہم جماعت لڑکیوں کے کشمیری سیب جیسے گالوں کو تکنے اور جھیل ڈل جیسی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر خوابناک دھند جیسی باتیں کرنے کی ہوتی ہے۔جھیل ڈل میں لیکن مدتوںسے خون اتر آیا ہے۔ جھیل جیسی آنکھیں لہو رنگ ہوگئی ہیں۔برہان وانی کے لہو نے ان آنکھوں کو شعلہ بار بھی کردیا ہے۔ایسے شعلے کہ بجھاو تو بجھائے نہ بنے۔ان شعلوں کی تابناکی میں اضافہ ذاکر موسی کے اچھلتے لہو نے کیا ہے۔ میں نے ذاکر موسی پہ پہلا کالم اس وقت لکھا جب برہان وانی کی شہادت کے بعد اس نے اپنی راہ الگ چنی۔یہ پندرہ مئی 2017 کی بات ہے۔میں اسے نہیں جانتی تھی۔ میں برہان وانی کو بھی نہیں جانتی تھی۔میں یہ جانتی تھی کہ عرصہ ہوا کشمیر کی جدو جہد آزادی یتیم ہو چکی۔ اس کے سر پہ کسی کا ہاتھ نہیں۔ جن کا ہے ان سے ذاکر موسی شہید کو سخت تحفظات تھے۔اس نے اپنے پہلے وڈیو پیغام میں یہی باتیں کی تھیں۔ یہ چناروں میں آگ لگانے والا پیغام تھا اور ہوا بھی یہی تھا۔ اس نے کہا : ایک مسلمان ہتھیار صرف شریعت کی بالا دستی کے لیے اٹھاتا ہے۔اگر کشمیر آزاد ہوا تو وہ ایک اسلامی ریاست ہوگا ۔ وادی میں کچھ لوگ نیشنلزم کے نام پہ لڑ رہے ہیں جو اسلام میں ممنوع ہے۔ ہتھیار صرف شریعت کے قیام کے لیے اٹھائے جاسکتے ہیں۔ہماری جدو جہد اسی لیے ہونی چاہیے۔میں شریعت کے راستے پہ ہوں اور مجھے کوئی پروا نہیں کہ کون میرا ساتھ دیتا ہے اور کون نہیں۔سیکولرازم کی کشمیر میں کوئی گنجائش نہیں۔ ہماری پہلی دشمن بھارتی فوج ہے پھر وہ جو کشمیر کو سیکولر ریاست بنانے کی بات کرتے ہیں۔ہوسکتا ہے کچھ لوگوں کو یہ بات قبل از وقت لگے لیکن یہی ہماری جدوجہد کی بنیاد ہوگی ۔جو اس سے متفق ہوگا ہمارا دوست ہوگا اور جو اس کے راستے میں آئے گا خواہ کیسا ہی حریت پسند کیوں نہ ہو میں اسے دشمن تصور کرونگا۔اگر حریت پسند سیکولر ازم کے نام پہ لڑ رہے ہیں تو میں اپنا خون کیوں بہاؤں؟کیا ہم آج تک آزادی کا مطلب کیا لا الہ الااللہ اور پاکستان سے رشتہ کیا لا الہ الا اللہ کے نعرے نہیں لگاتے آئے؟اگر میں انتشار پھیلا رہا ہوں تو یاد رکھئے اتحاد بس اللہ کی ذات پہ ہی ممکن ہے ورنہ کل کو یہ ہمیں کہیں گے کہ اتحاد کی خاطر بت پرستی بھی شروع کردو اور ہمیں کرنی پڑے گی۔یہ باتیں میرے نہیں علما ء کے کرنے کی ہیں لیکن ان میں سے اکثر یا تو کرپٹ ہیں یا بزدل۔ہم کسی کو یہ اجازت نہیں دیں گے کہ وہ ہمارے اور دیگر حریت پسندوں کے درمیان اس خلیج سے فائدہ اٹھائے۔ ہمارا مشترکہ دشمن بھارت ہے اور رہے گا۔ ذاکر موسی نے حریت اور حزب کو بھی کھل کر تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ اگر وہ شریعت کے قیام کی راہ میں رکاوٹ بنے تو انہیں لال چوک پہ لٹکا دیا جائے گا۔حزب کے ترجمان سلیم ہاشمی نے اس بیان پہ سخت ردعمل کا اظہار کیا۔اس کے بعد موسی اور حزب دونوں نے ایک دوسرے سے لاتعلقی کا اعلان کردیا۔ذاکر موسی نے اپنی راہ الگ کرلی اور انصار غزوہ الہند بنا لی۔شریعت یا شہادت کا نعرہ لگا کر اس نے خود کو تنہا کرلیا۔یہ نعرہ ، جہاد کشمیر کو،جسے بڑی مشکل سے جدو جہد آزادی کشمیر میں تبدیل کیا گیا تھا،ایک واضح خطرہ تھا۔ یہ وہ نعرہ تھا جو عالمی قوتوں کی توجہ کشمیر کی طرف مبذول کروا سکتا تھا ، جو ستر سا ل سے جاری جبر وستم کے باوجود اس سے محروم تھا۔اس سے کشمیر کے لئے کون سی رعایتیں وصول کرلی گئیں اور وادی کے محصور کشمیریوں پہ زندگی کتنی آسان ہوگئی یہ وہی بتا سکتے ہیں جو پاکستان میں کشمیر کمیٹی کے مسلسل صدر رہے اور جن کے مدرسے جہاد افغانستان میں کھلے عام جہادی بھیجتے رہے۔ جو جہاد افغانستان میں قابل فخر تھا اس کی بساط کشمیر میں کس نے اور کیونکر لپیٹی یہ اپنی جگہ ایک سوال ہے لیکن ذاکر موسی کو تنہا مجاہد کہنے والے اس کے جنازے پہ لاکھوں کشمیریوں کی شرکت کا کیا جواب دیں گے؟ جب ذاکر موسی نے شریعت یا شہادت کا نعرہ لگایا تو ہر طرف سے سخت ردعمل آیا۔ترال پولیس کے ایک اعلی افسر نے کہا کہ ذاکر کا یہ بیان عوام میں مجاہدین کی حمایت کھو سکتا ہے لیکن کچھ کہا نہیں جاسکتا یہ بھی ممکن ہے نوجوان القاعدہ ہی کے حامی ہوجائیں صورتحال میں ریڈیکل تبدیلی آگئی ہے۔گورنمنٹ ڈگری کالج کے طلبا نے کہا ہم سب موسی کے ساتھ ہیں کیونکہ وہ حق پہ ہے ۔ ترال میں موسی کے ایک رشتہ دار نے کہا۔ ذاکر موسی نے شریعت کا نام لے کر خود کو خطرے میں ڈال لیا ہے اب اس کے دشمن ہر طرف ہونگے۔ایسا ہی ہوا۔ ذاکر تنہا ترین جہادی کہلایا جانے لگا۔جس کے ساتھ گنتی کے چند نوجوان تھے۔جب یہ صورتحال ہوئی تو میں نے اس سے ملنے اور بات کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ بہت سے سوالات ذہن میں کلبلا رہے تھے۔کیا وہ اسامہ بن لادن بننے جارہا تھا۔ حزب سے اس کے تحفظات محض نظریاتی تھے یا حقیقی۔ میں نے کئی ایسے افراد سے رابطہ کیا جو مجھے اس تک پہنچا سکتے تھے۔لیکن وہ چھلاوا کہیں ٹک کر نہ بیٹھتا تھا۔بالآخر ، ایک شا م جب میرے قہوے کی پیالی میں محبت سے بھیجی گئی سری نگر کی خوشبو دار زعفران دھیرے دھیرے رنگ گھول رہی تھی، مجھے امید ہوئی کہ شایدسردیوں کی اس اترتی شام میں میرے کان اس کی آواز سن سکیں گے۔ایسا لیکن ہوا نہیں۔وہ جہاں تھا اب وہاں نہیں تھا۔قہوے کی پیالی میں زعفران رنگ گھولتی رہ گئی۔ایسی ہی ایک پیالی کئی برس قبل قندھار سے آئے ایک مہمان نے دستر خوان پہ الٹ کے رکھ دی تھی۔ہم سمجھے مہمان عزیز کو کوئی بات ناگوار گزری ہے۔ اس نے بتایا جب ہم مزید قہوہ نہیں پینا چاہتے تو پیالی الٹ کے رکھ دیتے ہیں۔آج بھی قندھار سے آئے مہمان ماسکو اور قطر میں یہی کرتے ہیں۔وہ جب چاہتے ہیں میز اور پیالی الٹ کے رکھ دیتے ہیں۔میں نے ذاکر موسی کی شہادت کی خبر سنتے ہی قہوے کی پیالی الٹ کر رکھ دی ہے۔ زرد زعفران میں اس کے خون کی خوشبو دھیرے دھیرے گھل رہی ہے۔