2018ء کے عام انتخابات میں،جب ڈی جی خان کے حلقہ این اے 191 سے زرتاج گل منتخب ہوتی ہے،تو یہ غیر معمولی واقعہ بن جاتا ہے۔اس حلقہ سے روایتی سرداروں کو مات دینا، وہ بھی ایک خاتون اُمیدوارکی حیثیت سے ،ملکی انتخابی تاریخ کا ایک واقعہ قراردیاجاسکتا ہے۔یہ حلقہ ڈی جی خان کی شہری آبادی پر محیط ہے ، شہر کے علاوہ سخی سرور، فورٹ منرو اور رونگھن کے علاقے بھی اس میں شامل ہیں ۔اس حلقہ کی شہری آبادی جہاںکھوسہ ،لغاری اور دوسرے اہم اور بڑے خاندانوں کو ووٹ دیتی آئی ہے‘ وہاں مجموعی پارٹی فضا کو بھی دیکھ کر ووٹ دیتی ہے، جب کہ دیگر علاقوں میں ہمیشہ سرداری نظام کے تحت سرداروں کو ووٹ پڑتا ہے۔ اس حلقہ میں فورٹ منرو کا علاقہ ہے ،یہ انتہائی پُرفضا مقام ہے ،یہاں کثیر تعداد میں لوگ سیاحت کے لیے آتے ہیں ۔اس علاقہ کی سیاحتی حیثیت جنوبی پنجاب میں اہمیت کی حامل ہے۔اس حلقے میں ریلوے اسٹیشن، ایئرپورٹ، یونی ورسٹی ، میڈیکل کالجز اور دیگر تمام تعلیمی ادارے اور اسپتال ہیں ۔اسی طرح یہاں سے دریائے سندھ گزرتا ہے اور انڈس ہائی وے بھی یہاں سے گزرتی ہے۔اس حلقہ کی اہم فصلیںگندم اور کپاس ہیں۔ڈی جی کینال اس حلقہ میں ہے ،یہ ڈی جی خان ڈسٹرکٹ کی سب سے بڑی نہر ہے۔اٹامک انرجی انڈسٹری اسی حلقہ میں ہے۔ یہاں کے لوگ روزگار کے سلسلے میں بیرون ممالک میں بھی آباد ہیں اور ملتان ،کوئٹہ ، اسلام آباد ،لاہور اور بہاول پور میں روزگار اور تعلیم کے لیے بھی جا کر آباد ہوتے رہتے ہیں۔ اس حلقہ کے شہری اور دیہی علاقوں میں سرائیکی اور بلوچی بولی جاتی ہے، لیکن بڑی زبان سرائیکی ہے۔یہاں لسانی فرقہ واریت اور مذہبی فرقہ واریت نہیں ہے ۔ اس شہر کا ایک مشہور بازار رانی بازار ہے۔رانی بازار کی اَڑھائی سے تین سودُکانوں میں سے سوسے ڈیڑھ سو اَخوند خاندان(زرتاج گُل کا خاندان) کی ملکیت ہیں۔اسی بازار میں زرتاج گُل کا گھربھی ہے۔اب بتایا گیا کہ تونسہ روڈ پر اِس کی ایک بڑی سی کوٹھی بھی بن رہی ہے۔ یہ رانی بازار مکمل طورپر خواتین کا بازار ہے(کپڑے، جوتے،میک اَ پ ،چوڑیاں وغیرہ) زرتاج گُل 2018ء کے الیکشن سے قبل اپوزیشن کے دَور میں بہت متحرک بتائی جاتی ہے،یہ حلقے میں مزاحمت کی آواز سمجھی جاتی تھی۔ فورٹ منرو میں بجلی غائب ہے تو یہ دھرنا دینے پہنچ جاتی،سخی سرور کا دربار ،دہشت گردوں کے دھماکوں کے خوف کی وجہ سے بند کیا گیا ،مگر یہ دھرنا دے کر بیٹھ گئی اور اُس وقت تک نہ اُٹھی جب تک دربار کو کھول نہ دیا گیا۔یہی وجہ ہے کہ حلقے کے لوگ اِس کے اپوزیشن میں رہ کر نبھائے گئے کردار سے زیادہ مطمئن دکھائی دیتے ہیں۔زرتاج گُل ایک خاتون اُمیدوار کی حیثیت سے گھر گھر جاکر خواتین سے بہ آسانی مل لیتی تھی،جبکہ بلوچ مرد اُمیدوار وں کے لیے ایسا ممکن نہیں تھا۔یوں گذشتہ الیکشن میں جہاں زرتاج گُل کو پارٹی ووٹ پڑا وہاں خواتین نے بھی اِس پر اعتماد کا اظہار کیا۔یہ خواتین قبل ازیں اپنے شوہروں ،والدین ،بھائیوں کے کہنے پر ووٹ ڈالتی چلی آرہی تھیں۔زرتاج گُل ڈی جی خان کے سرداری و قبائلی نظام میں خواتین کی اُمید بن گئی تھی۔اس وقت فورٹ منرو اوررونگھن میں پینے کے صاف پانی کا بڑا مسئلہ ہے ،ڈی جی خان شہر کا سیوریج کا نظام فرسودہ ہو چکا ہے اور کئی سڑکیں بیٹھ چکی ہیں،مگر زرتاج گُل اِن مسائل پر خاموش ہے، جبکہ حلقہ کے عوام چیخ رہے ہیں ،یہ چیخیں ،اِن کے مضحکہ خیز بیانات کے نیچے دَب جاتی ہیں۔ رونگھن میں اندھیرے چھائے ہوئے تھے، مگر یہ روشنیوں کا بندوبست نہ کرسکیں،وہاں کے عوام عثمان بزدار کے شکر گزار ہیں ،جو بجلی کا منصوبہ لے کر گئے ، اگرچہ یہ منصوبہ اُن کے اپنے حلقے اور لوگوں کے لیے تھا،مگر رونگھن سے ہو کرگزرتا تھا۔ یوں اس یونین کونسل کا مفت میں بھلا ہو گیا۔ جن لمحات میں زرتاج گُل سرکاری ٹی وی کی سکرین پر کووڈ19کی تشریح کررہی تھی،اُن لمحوں میں ستاون برس کی راج بی بی چیخ چیخ کر اِس کو پکاررہی تھی۔ڈی جی خان میں کاروکاری کی رسم کے تحت کاری قراردی جانے والی راج بی بی کی خواہش تھی کہ اُس کے علاقے کی خاتون لیڈر اسمبلی میں کاروکاری کی لعنت پر آواز اُٹھائے۔ راج بی بی کی آواز مرد سیاست دان کیسے اسمبلی تک پہنچاتا؟کہ پنچایت میں فیصلے کرنے والے سارے مرد ہی ہوتے ہیں۔راج بی بی ایک لمحے میں قتل نہیں کردی گئی، اُس کو نو ماہ روزانہ کی بنیاد پر قتل کیا جاتارہا۔آٹھ بچوں کی ماں پر نو ماہ پہلے الزام لگا کہ یہ اپنے شوہر سے بے وفائی کررہی ہے ۔جب اُس کا خاوند دیگر لوگوں کے ساتھ اس کو سزا کے طورپر بلوچستان فروخت کرنے جارہاتھا ،تو اس نے شور مچا دیا ،بارڈر ملٹری فورس نے روکااور اس کے شوہر کی یقین دہانی پر کہ راج بی بی کو فروخت نہیں کیا جائے گا،چھوڑدیا۔پھر ایک رات جب وہ جھگی نما گھر میں سوئی ہوئی تھی ،اُس کے شوہر نے رشتہ دارمردوں کے ساتھ مل کر گولیوں سے بھون ڈالا۔یہ مقدمہ پولیس میں راج بی بی کے بیٹے کی مدعیت میں درج ہو چکا ہے۔مگر بیٹے کی مدعیت میں درج مقدمہ راج بی بی کو واپس زندگی دے سکتا ہے؟مزید یہ کہ اس مقدمے کی حیثیت محض قانونی کارروائی کے اور کچھ بھی نہیں۔ زرتاج گُل کو معلوم ہے کہ راج بی بی کون تھی؟ یہ جانتی ہیں کہ ان کے حلقہ میں خواتین نے اِنہیں کو ووٹ کیوں دیا تھا؟شاید نہیں ،بالکل نہیں، ورنہ اِن کے کانوں میں راج بی بی کی چیخیں ضرور پڑتیں۔ محترمہ زرتاج گُل صاحبہ !آپ کو ڈی جی خان کے خواتین و مرد نے سرداروں کو مستردکرکے منتخب کیا تھااور یہ کوئی آسان کام نہیں تھا۔ڈی جی خان کی خواتین آپ کو رانی بازار کی رانی سمجھتی ہیں ،لیکن آخرکب تک ؟اب یہ آپ پر ہے کہ میڈیا کی سکرینوں پر زندہ رہنا چاہتی ہیں یا راج بی بی جیسی خواتین کی آواز بن کر اَمر ہونا چاہتی ہیں؟میڈیا میں سنجیدہ بیانات بھی زمین پر زندگی کی خدمت کے سامنے ہیچ ہیں،کجا مضحکہ خیز بیانات!!