مسلم لیگ ن کی انتخابی مہم پر پابندی لگنے والی ہے اور کیا پتہ، یہ سطریں چھپتے چھپتے لگ بھی چکی ہو۔ وجہ اس یقین کی یہ ہے کہ اس کا مطالبہ خان صاحب نے کیا ہے اور پچھلے کئی برسوں کا ریکارڈ بالعموم، سال گزشتہ کا بالخصوص اور چند ماہ کا بہت ہی بالخصوص یہ بتلاتا ہے کہ خان صاحب کا کوئی مطالبہ نامنظور نہیں ہوتا۔ باب الحوائج میں ان کی مقبولیت بے مثال ہے، ادھر مطالبہ دائر فرماتے ہیں ادھر منظور فرما لیا جاتا ہے۔ سو پابندی تو لگ کر رہے گی۔ خان صاحب کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ کی مہم میں ایک سزا یافتہ مجرم کی تصویر، تقریر اور نعرہ استعمال ہورہا ہے۔ امید ہے، اس پابندی کی زد میں پیپلزپارٹی نہیں آئے گی کہ وہ بھی ایک سزا یافتہ فوجداری مجرم کی تصویر، تقریر اور نعرے کو انتخابی مہم کا محور بنائے ہوئے ہے۔ اس لیے کہ خان صاحب نے مطالبہ صرف مسلم لیگ پر پابندی لگانے کا کیا ہے، پیپلزپارٹی پر نہیں۔ ہاں، کل کلاں کو وہ پیپلزپارٹی کو بھی لپیٹ میں لے لیں تو اس پر بھی پابندی لگ جائے گی۔ خان صاحب ایسے ہی مستجاب الدعاۃ نہیں مانے جاتے۔ اگر وہ یہ فرمائش کردیں کہ مخالف امیدواروں کو پڑنے والے تمام ووٹ یکسر مسترد کردیئے جائیں تو یقین مانیے، اس کا نوٹیفکیشن جاری کرنے میں ایک لمحے کی تاخیر بھی نہیں کی جائے گی۔ ٭٭٭٭٭ نوازشریف پرسوں جمعے کو وطن آ رہے ہیں۔ طے ہوا ہے کہ آتے ہی ایئرپورٹ پر دھر لئے جائیں گے، اور وہیں سے ہیلی کاپٹر میں بٹھا کر، بالا بالا ہی، اڈیالہ جیل پہنچا دیئے جائیں گے۔ اللہ اللہ خیر سلا۔ چند گھنٹوں کے لیے فضا مرتعش ہوگی، پھر پرسکون خاموشی چھا جائے گی۔ اتنی ذرا سی بات پر پھر بعض حضرات اتنے بڑے بڑے انتباہات کیوں جاری کر رہے ہیں؟ مثلاً اعتزاز احسن نے مطالبہ کیا ہے کہ ایئرپورٹ کو فوج کے حوالے کردیا جائے، ایک اور خان صاحب نے تو پورا لاہور ہی فوج کے حوالے کرنے کی بات کردی۔ اور ایک صاحب جو خیر سے خان صاحب کے روحانی اتالیق بھی ہیں،ان سے بھی آگے بڑھ گئے۔ اپنی تحریر میں اندیشہ ہائے بہت ہی دور دراز سے کام لیتے ہوئے فرمایا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نوٹس لے ورنہ نتیجہ اس کے حق میں تباہ کن ہوگا۔ واللہ کیا ہی زقند لگائی۔ استقبالی جلوس نکل آیا تو اسٹیبلشمنٹ ہی تباہ ہو جائے گی۔ حالانکہ یہ طے ہے کہ لاہور سے اسلام آباد تک جلوس کا کوئی پروگرام ہی نہیں ہے۔ ٭٭٭٭٭ روحانی اتالیق کا ذکر آ جائے تو مرزا غالب بے ساختہ یاد آ جاتے ہیں۔ مرزا مرحوم کا مشہور مصرعہ تو یہ ہے کہ ع سو پشت سے ہے پیشہ آبا سپہ گری لیکن عملاً ان کی زندگی آدھی تو ظفر بہادر اور باقی آدھی انگریز بہادر کی قصیدہ خوانی میں کٹی۔ اتالیق روحانی مرزا پر بھی بازی لے گئے۔ چھ عشروں سے مارشل لا کے قصیدے بڑی ہنر مندی سے لکھتے اور پڑھتے آ رہے ہیں۔ معاف کیجئے گا قارئین! کچھ مبالغہ آرائی ہوگئی۔ چھ عشروں سے نہیں، ساڑھے پانچ عشروں سے۔ اچھا، یہاں یہ بدظنی مت کیجئے کہ مارشل لا کی تعریف پر کوئی اعتراض کیا جارہا ہے۔ واللہ ’’نظریہ پاکستان‘‘ پر تنقید کا تو سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ یہ تو محض تعریف ہورہی ہے اس بات کی کہ پاکستان میں قصیدہ نگاری کے ساڑھے پانچ عشرے اس مرد پیر کے سوا کسی نے پورے نہیں کئے اور پھر شکوہ بھی بنتا ہے، بے قدری زمانہ کیلئے کہ ابھی تک کوئی تمغہ ملا نہ نشان ع تفو بر تو اے چرخ گرداں تفو ٭٭٭٭٭ مرد روحانی نے نوازشریف کے مذکورہ خیالی مارچ پر تنقید کرتے ہوئے کچھ زیادہ ہی ڈرا دیا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ساتھ خان صاحب کو بھی صدا دے ڈالی ہے کہ وہ بھی مقابلے میں جلوس نکالیں۔ روحانی غیظ و غضب کا دائرہ پھیلا تو اس خیالی مارچ کو امریکہ کا ایجنڈا قرار دے دیا اور مزید پھیلا تو دس سال پہلے ہونے والے میثاق جمہوریت کے بارے میں بھی فرمایا کہ یہ امریکہ نے کروایا۔ یہ بات کچھ اور لوگ بھی کرتے ہیں۔ زیادہ تر نیکوکار اور روحانی قسم کے لوگ ہیں۔ احادیث اور اولیائے کرام کے واقعات کا قدم قدم پر حوالہ دیتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی بات مان لینی چاہیے۔ وہ فرمائیں کہ جون میں برف پڑتی ہے تو بھی مان لینا چاہیے اور اگر کہیں کہ دسمبر میں لو چلتی ہے تو بھی مان لینا چاہیے۔ اس لیے ان کا فرمان ہے کہ میثاق جمہوریت امریکی ایجنڈا تھا تو ٹھیک ہی کہتے ہوں گے لیکن پھر میثاق جمہوریت امریکہ ان دونوں کی جان کا لاگو کیسے ہوگیا۔ بے نظیر کو تو مروا ہی دیا، اسی شام نواز پر بھی گولی چلی، کئی کارکن مارے گئے لیکن اصل ہدف بچ گیا۔ لیکن کہاں بچ گیا، شامت تو پھربعد میں آئی۔ سی پیک شروع ہوا تو ’’ایگزیکیوشن‘‘ آرڈر بھی آ گئے، شنگھائی کونسل کی رکنیت نے غصے کی آگ اور بھڑکا دی، پہلے دھرنا نمودار ہوا پھر پاناما۔ امریکہ کو پاکستان میں جمہوریت نہیں چاہیے، سب جانتے ہیں، مذکورہ اہل صفا قلمکار بھی، امریکہ کو پاکستان میں کیا چاہیے، یہ بھی سب کو پتہ ہے۔ ملک میں حشر کا میدان لگا ہے۔ یہ امریکہ نے نہیں لگایا تو پھر سنگاپور نے لگایا ہو گا یا پھر صومالیہ نے۔ کون جانے۔ ٭٭٭٭٭ ایک صاحب درخت کی موٹی شاخ پر بیٹھے اسے آری سے تنے کی طرف سے کاٹ رہے تھے۔ کوئی راہگیر گزرا، دیکھا اور چونکا، پھر اسے ٹوکا، میاں کیا کر رہے ہو، شاخ کٹے گی تو نیچے گرو گے۔ خود کو دانا سمجھنے والے ان صاحب نے کہا، جائو اپنا کام کرو، مجھے پتہ ہے میں ٹھیک کر رہا ہوں۔ شاخ کٹتے ہی دھڑام سے نیچے آ گئے۔ خوب چوٹ لگی۔ لوٹ پوٹ کر اٹھے اور بھاگ کرراہگیر کو جالیا اور بولے، صاحب، آپ تو ولی ہو، آپ نے پہلے ہی جان لیا۔ زرداری صاحب تو کمال کے دانا ہیں۔ بہرحال انہیں چاہیے کہ وہ ان اصحاب کی ولایت کا اعتراف کرلیں جنہوں نے اس وقت ٹوکا تھا جب وہ ’’سنجرانی شیئر بازار‘‘ کے حصص خرید رہے تھے۔ سمجھانے والوں نے بہت سمجھایا کہ حضرت، آپ سے دھوکہ ہورہا ہے لیکن موصوف کو اپنی دانائی کے سب پر بھاری ہونے کا بہت ناز تھا۔ اب کیا کیجئے گا، زرداری صاحب؟ اور چشم بددور، بلاول بھی اس وقت ہاتھ لہرا لہرا کر کہا کرتے تھے، سینٹ چیئرمین ہمارا آ رہا ہے، پھر پنجاب بھی ہمارا ہی ہوگا، پاپا جانی صدر بنیں گے اور میں وزیراعظم۔ اب یا تو ’’فرمائش‘‘ مان لیجئے، تعمیل ارشاد کردیجئے یا پھر…! ٭٭٭٭٭ عمران خان کے صادق و امین ہونے میں شک کرنے کا کفر کون کرے گا۔ انہوں نے انتخابات کے لیے اشتہاری مہم شروع کی ہے۔ اشتہاری ویڈیو کی شروعات ’’لوڈشیڈنگ‘‘ کے ایشو سے کی ہے۔ اسے تو خیر ‘‘ازراہ تفنن‘‘ کے درجے میں رکھئے کہ اس الیکشن میں یہ کوئی ایشو نہیں رہا۔ اگلی تصویر ایک خوبصورت ہسپتال کی ہے، خان صاحب کہتے ہیں، دیکھو ہم نے یہ ہسپتال مفت علاج کے لیے بنائے اور دراصل یہ ہسپتال پشاور کا سب سے بڑا اور سب سے مہنگا پرائیویٹ ہسپتال ہے۔ اسے کیا کہئے یہ صادق و امین ہونے کی ’’ادا‘‘ بھی تو ہو سکتی ہے۔ ویسے بھی خان صاحب کا اصول ہے تبدیلی نام جپنا، پرایا مال اپنا۔ ٭٭٭٭٭ قبلہ پرویز مشرف کی غیر ملکی جائیدادوں کی شہرت تو بہت عرصے سے ہے۔ اب اندرون ملک دس سے زیادہ اثاثوں کی بات ہورہی ہے اور ہر اثاثہ اربوں روپے کا ہے۔اتنی دولت کہاں سے آئی؟ بادی النظر میں کیا فرمائیے گا۔ بادی النظر میں تو بس یہی فرمائیے گا کہ موصوف کے اثاثے ان کی آمدنی کے مطابق ہیں اور کیا فرمائیے گا!