وزیر اعظم عمران خان نے ملک بھر میں کسانوں کے لئے جلد خصوصی پیکیج دینے کیخوش خبری دی ہے۔اراکین اسمبلی سے ملاقات کے دوران وزیر اعظم نے بتایا کہ کابینہ کی ذیلی کمیٹی کسانوں کے لئے خصوصی پیکیج کی تجاویز تیار کر رہی ہے۔ہر حکومت اور اس کے ذیلی اداروں نے اہل پاکستان کو بتایا کہ ہمارا ملک زرعی ہے۔ یہ بات اس حد تک درست کہی جا سکتی ہے کہ نصف سے زیادہ آبادی کا ذریعہ معاش زراعت سے وابستہ ہے۔ زرعی ملک ہونے کے ناطے اناج‘ سبزیوں ‘ پھلوں اور پھولوں پر تحقیق سرے سے موجود نہیں‘ تحقیق کے نام پر غیر معیاری مقالہ جات پیش کئے جا رہے ہیں‘ پورے ملک میں ایک بھی ایسی لیبارٹری نہیں جہاں عالمی سطح کا کام ہو رہا ہو۔ ہر سال اربوں روپے کا زرمبادلہ ترقی یافتہ اقسام کے بیج اور زرعی ادویات خریدنے پر خرچ ہو جاتا ہے۔ زرعی مشینری کی درآمد اور پھر مقامی سطح پر اس کی تیاری کا کوئی نظام نہیں۔ ان خرابیوں کو درست کرنے کی کسی نے کوشش کی نہ منصوبہ بندی۔ بھارت اور پاکستان کے کسانوں کو قطعی مختلف صورت حال ملی۔ آزادی کے فوری بھارتی حکومت نے کسانوں کو پیداوار سرکاری مراکز پر فروخت کرنے کا پابند بنایا ۔ہمارا کسان آڑھتی کے ہاتھوں تباہ ہوا۔اب دونوں ملک توازن تلاش کر رہے ہیں۔ہماری زراعت کا تعلقدوایسے اداروں کی کارکردگی پر ہے جنہوں نے پاکستان کی زراعت کو تباہی کے دہانے تک پہنچا دیا ہے۔ ایک ادارہ ایگریکلچر ایکس ٹینشن ہے۔ کوئی پوچھے کہ گذشتہ برسوںمیں کیا کام کیا گیا؟ کاغذی رپورٹوں سے ہٹ کر کوئی حقیقی کام تو دکھائیں؟ ملازمین بیشتر اوقات فارغ رہتے ہیں، اس لیے جب ان سے کوئی یہ سوال کر دے تو یہ اس سوال کرنے والے یا اس درخواست دہندہ کے خلاف درخواستیں لکھنے، اس کے خلاف بیان دینے، اس کے خلاف کاروائی کرنے اور اس کو تنگ کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ پورا شعبہ جس کے پاس سینکڑوں گاڑیاں، ہزاروں ملازمین ہیں وہاں کسانوںکی مدد کے لیے ہیلپ لائن بنا ئی گئی ہے۔ اگر اس پر مدد لینے کے لیے کسان غلطی سے کال کر دیں تو عدم رابطہ کی شکایات ہیں۔ کیا یہ اس لیے ہے کہ دوبارہ کوئی فون کرنے کی زحمت نہ کرے یا اس لیے کہ آپ کے پاس کاشتکاروں کے مسائل حل کرنے کے لیے ماہرین موجود نہیں ہیں؟ محکمہ زراعت کو مدد دینے والا سب سے بڑا ادارہ نیشنل ایگریکلچر ریسرچ کونسل (NARC) ہے جو کہ زراعت کو برباد کرنے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ جتنے ان کو ریسرچ فنڈ دیے جاتے ہیں، ان کا پچھلے صرف دس سال کا آڈٹ کر لیا جائے کہ اس کے عوض قوم کو کیا دیا ہے، تو سب کھل کر سامنے آجائے۔اس کی سب سے بڑی مثال یہ ہے کہ پاکستان بننے سے لے کر آج تک یہ سبزی کا ایک بھی ہائیبرڈ بیج نہیں دے سکے۔ پچھلے چار برسوں سے یہ پرائیوٹ اداروں سے بیج لیتے ہیں۔ افسران کی اپنی تنخواہیں لاکھوں روپے میں ہیں۔ ان کی گاڑیاں، پیٹرول، اور ادارے کے اپنے تمام اخراجات بے شمار ہیں۔ جتنے فنڈز اس ادارے کو ملتے ہیں اگر اس میں سے صرف پچاس فیصد بھی یہ ریسرچ پر خرچ کرنا شروع کر دیں تو ادارے کی شکل و صورت بہتر ہو جائے۔جب بھی اس ادارے کا سربراہ لگایا جاتا ہے تو یہ سوچ کر لگایا جاتا ہے کہ وہ سیاسی طور پر مضبوط ہو، اس کی تعلیم کی کوئی بنیاد ہی نہیں ہے۔ اس ادارے میں سینکڑوں لوگ غیر قانونی طریقے سے بھرتی کیے گئے، پھر عدالت کے حکم پر سب کو نکالا گیا۔ پھر اسی طرح سے ان کو دوبارہ بھرتی کیا گیا، پھر دوبارہ نکالا گیا، یعنی کئی دفعہ ان کو نکالا جاتا رہا ہے، کئی بار ان کو بھرتی کیا جاتا رہا ہے۔ بھارت میںحکومت ہر فصل کی ایک قیمت مقرر کرتی جس میں پیداواری لاگت اور کسان کے منافع کی معقول شرح رکھی جاتی۔ کسان کسی استحصال سے محفوظ رہ کر مڈل مین کے ذریعے سرکاری ضوابط کے مطابق اپنی فصل فروخت کرتا۔ سرکار کو اس کے اخراجات کا اندازہ تھا اس لئے بجلی ‘ ڈیزل ‘ بیج اور ٹیکنالوجی کی قیمتیں مناسب رکھی جاتیں۔ اب بھارتی کسانوں کو خدشہ ہے کہ منڈیوں اور مڈل مین کے کردار کو نئے سرے سے طے کر کے اسے ملٹی نیشنل کمپنیوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے گا۔ پاکستان کی صورت حال اس لئے زیادہ تشویشناک ہے کہ یہاں کا کسان بھارتی کسان جیسا باشعور نہیں۔ کارپوریٹ فارمنگ پچھلے کئی برس سے شروع ہو چکی ہے‘ لیکن اس کے لئے اسمبلیاں ابھی تک قانون سازی نہیں کر سکیں۔ وزیر اعظم نے کسانوں کے لئے اب تک جس قدر پیکیج دیے ان کے نتائج کا جائزہ لئے بغیر اسی طرح کا امدادی پیکیج مفید ثابت نہیں ہو گا۔ بہتر ہو گا کہ وزیر اعظم سبسڈیز کی جگہ جدید مشینری اور ٹیکنالوجی کی درآمد کے لئے ٹھوس اقدامات کریں۔ جدید دنیا کی صورت گری صنعت نے کی ہے۔لیکن صنعتی معاشرہ کسی ناگہانی آفت اور وبا کے دنوں میں انسانوں کو تحفظ نہیں دے سکتا۔ اس کا مظاہرہ کورونا کی وبا کے دوران دنیا دیکھ چکی ہے۔ پاکستان اپنے سے کئی گنا دولت مند اور بڑے ممالک کی نسبت اگر محفوظ رہا تو اس کی وجہ زراعت ہے۔ تحریک انصاف کو اقتدار میں آئے ڈھائی سال ہو گئے ہیں۔ اس عرصے میں پیکیج کی جگہ جدید زرعی پالیسی نافذ کر دی جاتی تو زیادہ فائدہ ہو سکتا تھا۔ خصوصاً چین کی جانب سے زراعت میں سرمایہ کاری کے بعد کسانوں کے مفادات کا تحفظ یقینی بنانے کی ضرورت بڑھ جاتی ہے۔