میاں نواز شریف کی مشکلات تو اپنی پیدا کردہ ہیں یا اُن ’’نظریاتی‘‘ (ابن الوقتوں اور مفاد پرستوں کو نظریاتی لکھتے ہوئے قلم شرما رہا ہے) مشیروں کی جو گھیر گھار کر شریف خاندان کو اس گھاٹ پر لائے ‘مگر لاہور پہنچنے کی کال دے کر میاں صاحب نے اپنے ٹکٹ ہولڈرز اور کارکنوں کو مزیدآزمائش میںڈال دیا ہے۔ پولنگ ڈے سے دس بارہ دن قبل امیدواروں کو اپنی رابطہ عوام مہم ترک کر کے لاہور آنے اور پولیس و انتظامیہ سے بھڑجانے کی ہدائت صرف وہی شخص کر سکتا ہے جسے 25جولائی کے انتخابات اور اپنی جماعت کے مستقبل سے کوئی دلچسپی نہیں اور جو اپنے امیدواروں اور پرجوش کارکنوں کو احتجاجی مہم کا ایندھن بنا کر ریاست اور ریاستی اداروں کے بالمقابل اپنی سودے بازی پوزیشن بہتر بنانا چاہتا ہے۔ راولپنڈی میں کیپٹن صفدر کی گرفتاری کے موقع پر جن رہنمائوں نے کارکنوں کو اس آگ میں جھونکا وہ خود ضمانتیں کرا چکے اور انتظامیہ کو نیک چلنی کا یقین دلا کر انتخابی مہم میں مشغول ہیں مگر درجنوں کارکن اڈیالہ جیل میں بیٹھے زخم سہلا رہے ہیں۔ غالباً راولپنڈی کے کارکنوں کا انجام دیکھ کر گزشتہ روز اعلیٰ سطحی اجلاس میں بعض سنجیدہ فکرلیڈروں نے قیادت پر زور دیا کہ وہ دوسرے شہروں اورصوبوں کے امیدواروں کو اپنے کارکنوں کے ساتھ استقبال کے لیے لاہور آنے پر مجبور نہ کریں۔ ایک تو ان کے دو تین دن ضائع ہوں گے دوسرے اگر وہ خود اور ان کے فعال کارکن قانون شکنی پر پکڑے گئے تو 25جولائی تک ان کی ضمانتیں نہیں ہو پائیں گی۔ یوں پانچ سالہ محنت اکارت جائے گی اور ہم بیٹھے بٹھائے انتخابی عمل سے آئوٹ ہو جائیں گے۔ ٹکٹ ہولڈرز جانتے ہیں کہ جب میاں صاحب اپنے صاحبزادگان حسین نواز و حسن نواز کو ساتھ لانے اور اپنی مہم جوئی کا ایندھن بنانے پر آمادہ نہیں تووہ اور ان کے کارکن اپنے آپ کو آزمائش میں کیوں ڈالیں‘ حالانکہ یہ حسن نواز‘ حسین نواز کی قانون پسندی اور حب الوطنی ہی نہیں خاندانی غیرت کا تقاضا ہے کہ وہ اپنے بوڑھے باپ اور بہن کو تنہا نہ چھوڑیں اور کم از کم اڈیالہ جیل کے دروازے تک ان کا ساتھ دیں۔ اخباری اطلاعات کے مطابق میاں صاحب کی 85سالہ والدہ محترمہ لاہور ایئر پورٹ پراپنے صاحبزادے سے ملنے کے لیے بے قرار ہیں مگر صحت مند اور جوان جہان صاحبزادگان باپ اور بہن کے ساتھ ایک قدم چلنے اور مشکلات میں ساتھ دینے پر تیار نہیں۔ جو موقع پرست مشیر میاں صاحب کو امام خمینی بنانے پر تلے ہیں انہیں علم نہیں کہ اس مرد مجاہد نے جلا وطنی کے دوران اپنے صاحبزادے مصطفی خمینی کی قربانی دی تھی اور احمد خمینی باپ کے ساتھ سائے کی طرح چمٹا رہا ‘باپ کو تہران بھیج کر خود پیرس کی آزاد فضائوں میں موجیں نہیں اڑائیں۔ مریم نواز نے لاہور واپسی کا اعلان کرتے ہوئے یہ بھی نہ سوچا کہ میاں صاحب کی وطن واپسی کا موازنہ عوام اور تجزیہ نگار محترمہ بے نظیر بھٹو کی 10اپریل کو لاہور آمد کے موقع پر ہجوم سے کریں گے۔ اگر مسلم لیگ(ن) چالیس پچاس لاکھ افراد جمع نہ کر سکی اور جمع ہونے والے چند ہزار متوالوں نے توڑ پھوڑ کی یا خواتین کو ڈھال بنا کر لاہور ایئر پورٹ کی جانب پیش قدمی کی تو تیس سال سے پنجاب کے اقتدار و وسائل پر قابض شریف خاندان کی سیاست کا بولو رام ہو جائے گا۔ لوگ مذاق اڑائیں گے کہ چوری کھانے والے مجنوں پولیس کے ڈر سے گھروں میں دبکے رہے جبکہ لیڈروں کو کرائے کے کارندے اکٹھے کرنے کے لیے لوٹ مار کا اربوں روپیہ خرچ کرنے کی توفیق نہ ہوئی۔ مسلم لیگ ن کی ایک الجھن یہ بھی ہے کہ میاں نواز شریف اور مریم نواز تو فوج‘ عدلیہ اور ریاست سے دوبدو جنگ پر آمادہ ہیں‘ گزشتہ دو تین روز سے میاں صاحب بعض جرنیلوں کا نام لے کر للکار رہے ہیں مگر اس جنگ کا سپہ سالار انہوں نے میاں شہباز شریف اور حمزہ شہباز کو بنایا اور میمنہ و میسرہ ان الیکٹ ایبلز کے سپرد ہے جو احتجاج کے حق میں ہیں نہ فوج اور عدلیہ سے دشمنی کے متعدی مرض میں مبتلا۔ دو کشتیوں کے سوار سپہ سالار اور ان کے شکستہ دل و منتشر الخیال یمین و یسار کیا گل کھلا سکتے ہیں۔ ع جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے لندن سے موصولہ اطلاعات کے مطابق میاں صاحب اپنے طیارے میں ڈیڑھ سو کے قریب حامیوں کو ساتھ لا رہے ہیں جن میں ذرائع ابلاغ کے نمائندے شامل ہیں۔ وہ علامہ طاہر القادری کی طرح شعلہ بیاں مقرر تو نہیں لیکن چٹیں پڑھ کر قومی اور بیرونی ذرائع ابلاغ کے ذریعے عوام سے براہ راست مخاطب ہوسکتے ہیں۔ مشاہد حسین سید نے بھی یہی دعویٰ کیا ہے مگر ان ’’خطبات پرواز‘‘ سے سڑکوں پر نکلنے والے متوالوں کی صحت پر کیا فرق پڑے گا؟ البتہ لاہور لینڈنگ کے موقع پر جہاز میں موجود سو‘ سوا سو متوالے باپ بیٹی کی گرفتاری کے وقت مزاحمت کی صورت میں خاص ماحول بنا سکتے ہیں اور بذات خود میاں صاحب گرفتاری کے لیے آنے والے نیب اہلکاروںسے اپنی والدہ محترمہ شمیم اختر کو جہاز میں لانے کی فرمائش کر دیں کہ ٹی وی چینلز کے ذریعے جذباتی فضا پیدا کی جائے لیکن اگر جہاز کے کپتان اور سول ایوی ایشن انتظامیہ نے بین الاقوامی قوانین کے تحت حاصل اختیارات کے مطابق ان احتجاجی مسافروں کے خلاف کارروائی کر ڈالی تو میاں صاحب اڈیالہ جیل اور یہ مسافر تھانہ سرور روڈ کے مزے لوٹ رہے ہوں گے۔ ویسے یہ تماشہ ہوا بھی تو کتنی دیر اور کس قدر مفید؟ بین الاقوامی میڈیا تو ایک مجرم کی کوریج پر توجہ شائد زیادہ نہ دے مگر پاکستانی میڈیا کا ایک حصہ لازماً حق نمک ادا کرے گا۔ لیکن اگر پولیس‘ انتظامیہ اور دیگر اداروں کی تیاری مکمل ہوئی تو یہ ڈرامہ مسلم لیگ کے لیے پھندا بن سکتا ہے۔ متاثر کن شو نہ ہوا جس کی ہر ذی شعور کو توقع ہے تو ساکھ بُری طرح متاثر ہو گی‘ کارکن اور امیدوار دو تین دن ضائع کر کے اپنی انتخابی مہم کو سبوتاژ کریں گے جس کے منفی اثرات 25جولائی کو ظاہر ہوں گے‘ اور اگر ہر جگہ امتناعی قوانین کے تحت گرفتاریاں ہوئیں تو پولنگ ڈے پر مسلم لیگی کیمپ ویران نظر آئیں گے۔ البتہ اگر میاں صاحب کا بیانیہ واقعی اس قدر مقبول ہو چکا ہے کہ مسلم لیگ چالیس پچاس لاکھ افراد کو لاہور میں جمع کر کے دارالحکومت اور ایئر پورٹ کا انتظام و انصرام سنبھال سکتی ہے تو پھر انتخابی کامیابی یقینی ہے۔ ڈیڑھ کروڑ آبادی کے شہر لاہور ‘ گیارہ کروڑ آبادی کے صوبہ پنجاب اور اکیس کروڑ آبادی کے ملک سے چالیس پچاس لاکھ افراد جمع کرنا اس جماعت کے لیے مشکل نہیں جسے 2013ء کے انتخابات میں ڈیڑھ کروڑ ووٹ پڑے اور جس کے لیڈر کو متوالے طیب اردوان سے تشبیہ دیتے ہیں۔13جولائی کو میاں صاحب کسی وجہ سے نہ آئے جس کے امکانات موجود ہیںیا میاں شہباز شریف ‘ حمزہ شہباز اور مشاہد حسین پچاس لاکھ افراد کو سڑکوں پر نہ نکال سکے تو پھر مسلم لیگ کا وہی حشر ہو گا جو 2013ء میں پیپلز پارٹی کا ہوا یا الطاف حسین جس انجام سے دوچار ہو چکے۔میاں صاحب نے اپنے تابعدارلیڈروں‘ امیدواروں اور کارکنوں کو آزمائش میں ڈال دیا ہے مگر امتحان فوج‘ انتظامیہ اور پولیس کا بھی ہے کہ وہ ایک سزا یافتہ مجرم اور اپنے خلاف ہر کارروائی کا ذمہ دار فوج اور آئی ایس آئی کو قرار دینے والے رہنما سے کیسے نمٹتی ہے؟۔ ریاست میں قانون کی حکمرانی ہو گی یا قانون شکن افراد اور جتھوں کی؟ فیصلے کی گھڑی قریب ہے۔