قوم نے آدھ گھنٹہ گھر‘ دفتر اوردکان سے باہر گزار کر مظلوم کشمیری عوام سے اظہار یکجہتی کر لیا‘ اگلے جمعہ کوئی اور سرگرمی بہتر ہو گی‘ اگر حکومتی تھنک ٹینک سوچنے سے قاصر ہیں تو اپوزیشن یا میڈیا سے پوچھ لیں‘ یکسانیت نہیں ہونی چاہیے کہ مفید نہیں۔ مگر یہ علامتی اظہار یکجہتی ہے اب کچھ ٹھوس کام نظر آنا چاہیے۔ 5اگست کے بعد سے عمران خان اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی ملک میں ہیں اور سربراہان حکومت و وزراء خارجہ سے ٹیلی فون پر رابطوں میں مصروف۔ اپوزیشن کا اعتراض درست ہے کہ جموں و کشمیر میں کرفیو نما مارشل لاء کے نفاذ اور انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزی کے بعد وزیر اعظم اور وزیر خارجہ آخر ہنگامی دورے پر کیوں نہیں نکلے؟ زمیں جنبد نہ جنبد گل محمدکا ہے کونے بیٹھے ہیں۔ اسلامی سربراہوں کا ہنگامی اجلاس بلانے میں کیا امر مانع ہے؟ اور اندرون ملک صرف پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس پر اکتفا کیوں؟ 1973ء میں عرب اسرائیل جنگ ہوئی تو اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقارعلی بھٹو نے اسلامی ممالک کو جھنجھوڑا‘ انہیں اسرائیل کے عزائم اور اپنی ذمہ داریوں سے آگاہ کیا اور چند ماہ بعد تاریخی سربراہ کانفرنس منعقد کر ڈالی جس میں متکبر شہنشاہ ایران کے سوا کم وبیش تمام اہم مسلم ممالک کے سربراہ بہ نفس نفیس شامل ہوئے۔ پاکستانی عوام آج تک اسلامی سربراہ کانفرنس کو یاد کرتے ہیں۔ یہ مسلم ممالک کو مشترکہ پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنے اور ٹوٹے پھوٹے پاکستان کا اعتماد وقار بحال کرنیکی حکمت عملی تھی‘ کامیاب تدبیر۔1979ء میں سوویت یونین نے افغانستان میں فوج داخل کی تو فوجی آمر جنرل ضیاء الحق کی تحریک پر اسلامی ممالک کے وزراء خارجہ کا ہنگامی اجلاس اسلام آباد میں منعقد ہوا‘ مذمتی قرارداد منظور کی گئی اورسربراہ کانفرنس بلانے کا فیصلہ کیا گیا۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب امریکی ابھی سوویت یونین کے اصل عزائم کا پتہ چلانے کے لئے ٹامک ٹوئیاں مار رہے تھے۔ سوویت یونین کی مداخلت سے قبل ذوالفقار علی بھٹوکو پھانسی دینے کی پاداش میں بعض عرب ممالک ضیاء الحق سے ناراض تھے اور جمی کارٹر کی امریکی ڈیمو کریٹک حکومت بھی ایک فوجی آمر کو پسند نہیں کرتی تھی مگر ہنگامی وزراء خارجہ کانفرنس کامیاب رہی اور سربراہ کانفرنس میں بھی حاضری قابل رشک رہی۔ وجہ؟ فوجی سربراہ حکومت خطرے کی نوعیت اور سوویت یونین کے عالمی عزائم سے برادر اسلامی ممالک کو آگاہ کرنے میں کامیاب رہا۔ ضیاء الحق کے مشیروں میں غلام اسحق خان‘ آغا شاہی اور اس سطح کے ذہین‘ تجربہ کار اور قومی و بین الاقوامی معاملات سے آگاہ بیورو کریٹس شامل تھے۔ تجربہ کار صحافیوں اور دانشوروں سے وہ وقتاً فوقتاً رائے لیتے اور اہل علم سے ہمیشہ رہنمائی طلب کرتے۔ اخبارات و جرائد کے مدیران و مالکان سے وہ ہر ماہ ملتے اور کئی گھنٹوں پر مشتمل نشست میں کڑوی کسیلی سنتے اور سناتے۔ جناب مجید نظامی سے جمہوریت کے موضوع پر اکثر الجھتے اور میر خلیل الرحمن سے اخبار میں خواتین کی تصاویر کی اشاعت پر گلہ شکوہ کرتے مگر سیاسی و سفارتی معاملات پر ان کی قابل قدر رائے کا احترام کرتے۔ جناب زیڈ اے سلہری‘ علی احمد خان‘ ابن الحسن ‘ اے ٹی چودھری‘ ضیاء الاسلام انصاری ‘ ہارون سعد ‘ محمد صلاح الدین ‘ مجیب الرحمن شامی‘ الطاف حسن قریشی ‘ عبدالقادر حسن اور دیگر صحافیوں سے ہر ماہ ملاقات کا فائدہ یہ ہوتا کہ مطلق العنان فوجی آمر کو آزادانہ طور پر عوامی رجحانات سے آگہی ملتی اور حکومتی نقطہ نظر سے واقفیت کے بعد یہ صحافی رائے عامہ کی تشکیل میں مددگار ثابت ہوتے۔ عمران خان ایک سالہ دور حکمرانی میں مدیران اخبارات و جرائد سے ایک آدھ بار ہی ملے‘ ٹی وی اینکرز کو البتہ یاد رکھتے ہیں مگر وہ بھی معدودے چند۔5 اگست کے بعد عام خیال یہی تھا کہ وہ مدیران اخبارات و جرائد کے علاوہ کالم نگاروں ہی نہیں ملک بھر کے دانشوروں‘ اہم جامعات کے وائس چانسلرز‘ شعبہ سیاسیات و بین الاقوامی تعلقات کے سربراہوں اور بھارتی سیاست و رجحانات پر اتھارٹی تجزیہ کاروں سے بار بار تبادلہ خیال کریں گے مگر ع اے بسا آرزو کہ خاک شدہ عمران خان نے 5 اگست کے واقعہ پر اپنی قوم اوربین الاقوامی برادری کو جس دلیرانہ انداز میں مخاطب کیا وہ قابل داد ہے‘ مودی کو ہٹلر اور حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کو نازی پارٹی سے تشبیہ دے کر انہوں نے دنیا بھر کو اس خطرے سے آگاہ کیا جو عالمی امن کو درپیش ہے ہندو توا اور اکھنڈ بھارت کا فلسفہ صرف کشمیری عوام اور پاکستان کے لئے تباہ کن نہیں ‘پورے خطے کی سلامتی و خود مختاری کو چیلنج ہے‘ پہلی بار کسی سربراہ حکومت نے عالمی برادری اور اقوام متحدہ کی بے حسی اور سنگدلی پر سوال اٹھایا اور یہ تک کہہ ڈالا کہ عالمی ادارے مسلمانوں سے ہونے والی زیادتیوں پر خاموش رہتے ہیں۔ کشمیری عوام کا قصور یہ ہے کہ وہ مسلمان ہیں۔ لیکن وقت اور حالات کا تقاضا تھا کہ وہ اس سے کہیں زیادہ کرتے‘ بھارت پچھلے تیس سال میں پہلی بار اندرونی اور بیرونی دبائو کا شکار ہے‘ بین الاقوامی رائے عامہ مضطرب اور خلاف ہے‘ کشمیری عوام کوچار ہفتے تک کرفیو کے ذریعے پابند سلاسل رکھ کر مودی نے بھارت کو تنہا کر دیا ہے اور اس کے قریبی حلیفوں میں سے کوئی بھی اس کے اقدامات کی قابل قبول توجیہہ پیش کرنے کی پوزیشن میں نہیں‘ عالمی میڈیا مودی کی مکروہ تصویر شدو مد سے اپنے قارئین و ناظرین کو دکھا رہا ہے اور ہم چاہیں تو عالمی رائے عامہ کو مزید منظم اورمتحرک کر سکتے ہیں مگر عقل کل حکمران بسم اللہ کے گنبد سے نکلنے کو تیارنظر نہیں آتے۔ عمران خان چاہیں تو سابق وزراء خارجہ سرتاج عزیز‘ گوہر ایوب خان‘ خورشید محمود قصوری‘ عبدالستار‘ سردار آصف احمد علی اور حنا ربانی کھر کو الگ الگ یا اکٹھے اہم ممالک کے دارالحکومتوں میں بھیج کر اہم ریاستی عہدیداروں‘ تھنک ٹینکس اور میڈیا تک پاکستان کا قومی نقطہ نظر بطریق احسن پہنچا سکتے ہیں ۔ تہمینہ جنجوعہ کا تقرر مناسب ہے مگر دیگر سابق سفارت کاروں بالخصوص خواتین سفارت کاروں اور دانشوروں کے دورے مفید ثابت ہو سکتے ہیں۔ کشمیری دانشوروں کی خدمات بھی حاصل کی جا سکتی ہیں۔ لیکن سب سے اہم یہ کہ خود عمران خان اورشاہ محمود قریشی طوفانی دورے کا پروگرام بنائیں اور نریندر مودی کی جارحانہ سفارت کاری کا بھر پور جواب دیں ۔ٹیلی فون رابطے‘ ٹویٹس‘ مضامین کی اشاعت اور بیانات بجا مگر جب تک دوست ممالک کے سربراہوں اور سفارت کاروں کو آمنے سامنے بیٹھ کر حالات کی نزاکت اور واقعات کی سنگینی سے آگاہ نہیں کیا جائے گا ‘موثر انداز میں ہمارا موقف پذیرائی حاصل نہیں کرے گا۔27ستمبر کے خطاب سے قبل ہوم ورک نہ ہوا تو یہ خطاب بھی ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے اڑا دیا جائے گا اور ہم ہاتھ ملتے رہ جائیں گے۔ اگر بھارت آزاد کشمیر پر حملے کا ارادہ رکھتا ہے؟ ایٹمی جنگ کا خطرہ ہے اور پاکستان اسے روکنے کے لئے سنجیدہ کوششوں میں مصروف ہے ؟تو اتمام حجت کے لئے ملاقاتیں اور دو طرفہ گفت و شنید ضروری ہے جس کا اہتمام مشکل ضرور ہے ناممکن نہیں‘ مگر عمران خان شائد ان مشیروں میں گھرے ہیں جو انہیں ٹرمپ‘ اردوان ‘مہاتیر محمد اور بورس جانسن سے بڑا لیڈر باور کراتے اور گھر میں بیٹھ کر بیانات وٹویٹس پر اکساتے ہیں ورنہ اب تک پانچ سات ممالک کا دورہ کر چکے ہوتے۔ سلیقے سے بات کرنی انہیں آتی ہے۔ ابلاغ کے جدید طریقوں سے وہ آگاہ ہیں اور موقف ان کا مضبوط و متاثر کن ہے حق و صداقت پر مبنی۔ وہ پہل نہ کریں تو ان کی مرضی۔ ؎ تو ہی ناداں چند کلیوں پر قناعت کر گیا ورنہ گلشن میں علاج تنگیٔ داماں بھی تھا